Express News:
2025-09-17@22:46:14 GMT

مغیث الدین شیخ باکمال معلم اور ماہر تعلیم

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

ابلاغ عامہ کے مایہ ناز استاد اور اسکالر پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے پانچ برس بیت چکے، مگر ان کی یاد ان کے ہزاروں شاگردوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

سیکڑوں نام ور اور گم نام صحافیوں کے معلم، مغیث الدین شیخ نے جامعہ پنجاب (لاہور) سے منسلک رہتے ہوئے پاکستان میں صحافت اور ابلاغ عامہ کی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ اس ضمن میں مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ہنس مکھ، ملنسار اور متحرک شخصیت کے مالک مغیث الدین شیخ بہترین استاد اور منتظم تھے۔ کووڈ۔ 19 کی وبا کا شکار ہو کر 24 جون 2020ء کو 68  برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

پروفیسر مغیث الدین شیخ 40 برس سے زائد عرصہ صحافت اور ابلاغ عامہ کی تدریس سے وابستہ رہے۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں امریکا کی یونیورسٹی آف آئیووا (The University of Iowa) سے ڈاکٹریٹ کرنے والے مغیث الدین شیخ نے پاکستان میں ابلاغ عامہ کے نصاب کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے اور اس میں نئے کورسز متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں بین الاقوامی شہرت یافتہ سکالرز نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید جیسی شخصیات سے پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ وہ ادارہ علوم ابلاغیات، جامعہ پنجاب کے بانی ڈائریکٹر بنے اور فیکلٹی آف بیہیوریل اینڈ سوشل سائنسز کے ڈین رہے۔

تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے مغیث الدین شیخ یکم فروری 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابھی تین سال کے ہی تھے، جب سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ والد ریلوے میں اکاؤنٹس افسر تھے۔ ڈاکٹر مغیث نے اسلامیہ کینٹ ہائی اسکول سے میٹرک اور اسلامیہ کالج سے ایف ایس سی (پری انجینئرنگ) کی تعلیم حاصل کی۔ روزنامہ ایکسپریس کو ایک انٹرویو میں اپنے زمانہ طالب علمی کی تفصیلات بتائے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ’’میں محنتی تو نہیں، لیکن ذہین طالب علم ضرور تھا۔‘‘ وہ زمانہ طالب علمی میں تقریری مقابلے، ریڈیو کے بزم ادب پروگرام اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے۔ مزاج میں لیڈرشپ شروع سے ہی پائی جاتی تھی۔ محلے کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔

ان دنوں ایک تقریری مقابلے میں شرکت کیلئے پنجاب یونیورسٹی جانا ہوا تو وہاں کے ماحول سے متاثر ہوئے اور اس تاریخی درس گاہ میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش دل میں پیدا ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے انجینئرنگ یونیورسٹی کے بجائے، جہاں ان کا داخلہ ہو چکا تھا، پنجاب یونیورسٹی میں طبیعات کے بی ایس سی آنرز پروگرام میں داخلہ لے لیا۔ سائنس کا مضمون وہ محض گھر والوں کے اصرار پر پڑھ رہے تھے، جس میں ان کی ذاتی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔

یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران وہ اپنے لیے موزوں ترین شعبے کی تلاش کرتے رہے اور بالآخر ان کی نگاہ انتخاب شعبہ صحافت پر ٹھہری۔ انہوں نے اپنے ایک دوست طالب علم رہنما سے ڈیڑھ ہزار روپے ادھار لیے، جو کہ پورے سال کی فیس تھی، اور ایم اے صحافت میں داخلہ لے لیا۔ ڈانٹ کے خوف سے انہوں نے اپنے اس اہم فیصلے سے گھر والوں کو بے خبر رکھا، جس کا پتا انہیں چھ ماہ بعد چلا۔ انہیں خوب برا بھلا کہنے کے ساتھ مستقبل میں بے روزگاری کے طعنے دیئے گئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ 1976ء میں ایم اے صحافت کی تکمیل کے چھے دن بعد ہی انہیں گومل یونیورسٹی میں لیکچرشپ مل گئی۔

18اکتوبر 1982ء کو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی۔ اس زمانے میں یونیورسٹی اساتذہ کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے وظائف ملتے تھے، جن میں سے اکثر ضائع ہو جاتے۔ کچھ برس بعد جب انہیں سکالرشپ کی پیشکش ہوئی تو وہ فوراً تیار ہو گئے۔ ڈاکٹر مغیث کے بقول، ’’مجھے امریکا اور برطانیہ، دونوں ممالک کی یونیورسٹیوں میں داخلہ مل گیا تھا۔ میں نے امریکا جانے کو ترجیح دی، کیونکہ برطانیہ جانے کا مطلب یہ تھا کہ آپ شارٹ کٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔

برطانیہ میں پی ایچ ڈی کیلئے آپ کو صرف اپنا مقالہ لکھنا پڑتا ہے، جبکہ امریکا میں مقالہ لکھنے سے پہلے مختلف مشکل کورسزکا امتحان پاس کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ امتحان پاس کرنے کیلئے آپ کو مختصر وقت کے دوران سیکڑوں کتابیں پڑھنا پڑتی ہیں۔ چنانچہ میں نے امریکا کی یونیورسٹی آف آئیووا میں داخلہ لے لیا اور ایک سال بعد اپنی فیملی کو بھی بلا لیا۔ مجھے اعزاز حاصل ہے کہ میں نے تین سال گیارہ مہینے اور دو ہفتے کے مختصر ترین دورانیے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ عام طور پر سوشل سائنسز میں پانچ سے چھے سال لگ جاتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر مغیث کو امریکا سے جان ایف مورے ریسرچ گرانٹ ملی، اور تحقیقی کام پر یونیورسٹی آف آئیووا نے دو برس لگاتار ’’جرنلزم فورتھ اسٹیٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔

امریکا سے واپسی پر 1994ء میں وہ دوبارہ جامعہ پنجاب کے شعبہ صحافت سے جڑ گئے۔ 2003ء میں شعبے کا چیئرمین بنایا گیا، اور انہوں نے اپنی سربراہی کے دوران ادارے کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے ’’شعبہ صحافت‘‘ کو ’’ادارہ علوم ابلاغیات‘‘ میں تبدیل کیا اور اس کے بانی ڈائریکٹر بنے۔ 2017ء میں روزنامہ ایکسپریس کے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا، ’’ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے میرا ایجنڈا تھا کہ سب سے پہلے نصاب کو ٹھیک کیا جائے۔ پھر انفراسٹرکچر میں بہتری لائی جائے اور ادارے میں نظم و ضبط قائم کیا جائے۔

کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ تینوں چیزیں نظرانداز ہو رہی تھیں۔ میری پالیسی یہ ہے کہ کسی کے کہنے یا مطالبہ کرنے کا انتظار نہیں کرتا۔ میں خود سوچتا ہوں، حل طلب مسئلہ دریافت کرتا ہوں اور پھر اسے حل کرتا ہوں۔ اگر آپ کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو تو پھر کسی کو ہنگامہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔‘‘ دسمبر 2005ء میں انہیں فیکلٹی آف بیہیوریل اینڈ سوشل سائسز کے ڈین کی ذمہ داری بھی تفویض کر دی گئی اور وہ اسی حیثیت میں 2011ء میں جامعہ پنجاب سے ریٹائر ہوئے۔ بعدازاں مختلف نجی جامعات سے وابستہ رہے۔

تحقیقی مجلوں میں ان کے کئی تحقیقی مضامین شائع ہوئے۔ انہوں نے امریکا سے شائع ہونے والے ’’انسائیکلوپیڈیا آف انٹرنیشنل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن‘‘ پر نظرثانی بھی کی۔ ڈاکٹریٹ کا مقالہ ’’میڈیا اور خارجہ پالیسی کا باہمی تعلق‘‘ کے موضوع پر لکھا۔ ’’انٹرنیشنل کمیونیکیشن‘‘ اور ’’میڈیا اور اسلام‘‘ کے مضامین میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔

یونیورسٹی میں لیکچرشپ سے قبل انہوں نے معروف کالم نگار عبدالقادر حسن کے جریدے ’’افریشیا‘‘ میں کچھ عرصہ کام کیا، لیکن ملازمت ملنے کے بعد باقاعدہ طور پر عملی صحافت میں نہیں آئے۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کو ایچ ای سی کی طرف سے ’’بیسٹ یونیورسٹی ایوارڈ‘‘ اور تعلیمی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ ’’اعزاز فضیلت‘‘ ملا۔ ابلاغ عامہ کے مضمون کے لیے ایچ ای سی کی قومی نصاب کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ انہوں نے ادارہ علوم ابلاغیات، جامعہ پنجاب میں، ابلاغ کے مختلف شعبوں (پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا، ریسرچ، ایڈورٹائزمنٹ، پبلک ریلیشنز) پر مشتمل تخصیصی ڈسپلن قائم کیے، تاکہ طلبا اپنی پسند کے مضامین میں اسپیشلائزیشن کر سکیں۔

نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید جیسے عالمی شہرت یافتہ مفکرین سے مختلف کورسز پڑھنے پر انہیں فخر تھا۔ ان کی علمی خدمات کے معترف تھے۔ وہ یونیورسٹی آف آئیووا میں اپنے اساتذہ ڈاکٹر ڈونلڈ اسمتھ اور پروفیسر سٹارک، جو ان کے مقالے کے نگران تھے، کا بھی ذکر کرتے تھے۔

ایرانی نژاد امریکی سکالر حامد مولانا سے ان کا بڑا اچھا تعلق رہا، کئی کانفرسوں میں ملاقات ہوئی۔ امریکا میں دوران تعلیم پاکستان ایسوسی ایشن کے صدر اور اسلامی سوسائٹی سے بھی وابستہ رہے۔ کشمیر اور افغانستان کے موضوعات پر دوسرے طالب علموں کو لیکچر بھی دیتے۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ان کی یونیورسٹی کا دورہ کیا تو وہ بڑی تگ و دو کر کے ان سے ملے اور کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں ایک یادداشت پیش کی۔

وہ سمجھتے تھے کہ میڈیا کی اصلاح کے لیے عام لوگوں کو سرگرم کردار ادا کرنا ہو گا اور خاموش رہنے کی عادت ترک کرنا پڑے گی۔ ان کے بقول، ’’ہمارا معاشرہ زیادہ تر غیر متحرک (passive) افراد پر مشتمل ہے، جو مناسب انداز میں اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کرتے۔ عام آدمی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ میڈیا بے لگام ہے، اس کا کنٹینٹ (content) معیاری نہیں اور اصلاح احوال کی ضرورت ہے، لیکن وہ اس سلسلے میں عملی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ بس دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو کوئی غلط چیز دیکھ کر مدیر کے نام خط لکھتے ہیں یا ای میل کے ذریعے اپنا ردعمل دیتے ہیں۔

اس لیے ہر شخص کو اپنی سطح پر چاہے وہ محلے کا کونسلر ہے یا عام آدمی، اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر ہم برائی کو دیکھ کر اس پہ خاموش رہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس لیے غیرجانبدار یا لاتعلق رہنا میرے خیال میں مناسب نہیں، یہ جھوٹ اور برائی کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ چنانچہ باقاعدہ پوزیشن لیں، حق کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس پر بات کریں۔

اس سے بہت فرق پڑے گا۔ دوسرا حل طویل المدتی ہے، وہ یہ کہ اچھے لوگ میڈیا میں آئیں، اچھے لوگ جب آگے نہیں آتے تو برے لوگ ان کی جگہ پر آ جاتے ہیں۔ بعض لوگ میڈیا میں کام کرنے کو برا سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ کوئی برا کام نہیں، اچھے لوگوں کو اس طرف آنا چاہیے۔ایک وقت آئے گا کہ اچھے لوگ بڑے عہدوں پر بیٹھیں گے اور ادارے کی پالیسی سازی میں شریک ہوں گے۔ ممکن ہے سب کچھ ٹھیک کرنا ان کے اختیار میں نہ ہو، لیکن پھر بھی وہ بہت حد تک بہتری لا سکتے ہیں۔ اس لیے مایوس ہو کے گھر بیٹھے رہنا کوئی حل نہیں، سب کو اس سلسلے میں متحرک، حساس اور چوکس ہونا پڑے گا۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مغیث الدین شیخ یونیورسٹی میں کی یونیورسٹی شعبہ صحافت ابلاغ عامہ ڈاکٹر مغیث میں داخلہ انہوں نے کرنے کی اور اس نہیں ا

پڑھیں:

ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے

لاہور:

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری اور کاروبار شروع کرنے میں طرح طرح کی ایسی مشکلات کہ اللہ کی پناہ، اگر کسی طریقے سے کاروبار شروع ہو جائے تو درجنوں ادارے تنگ کرنے پہنچ جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر بجلی اور گیس کی قیمتوں نے پوری کر دی۔

بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم دلانا مشکل اور مہنگا ترین کام، اگر تعلیم مکمل ہو جائے تو اس حساب سے نہ ملازمت اور نہ تنخواہیں، انہی حالات سے تنگ آئے 28 لاکھ 94 ہزار 645 پاکستانی اپنے بہن، بھائی اور والدین سمیت دیگر عزیز و اقارب کو روتے دھوتے ملک چھوڑ کر بیرون ممالک چلے گئے جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔

ایکسپریس نیوز کو محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔ بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔

https://cdn.jwplayer.com/players/GOlYfc9G-jBGrqoj9.html

پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاؤنٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔

باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔

خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے ، حنیف عباسی
  • سرویکل ویکسین سے کسی بچی کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں: وزیر تعلیم
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • ملالہ یوسف زئی کا پاکستان میں سیلاب متاثرہ طلبہ  کیلئے 2 لاکھ 30 ہزار ڈالر امداد کا اعلان
  • ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
  • خیبرپختونخوا: محکمہ تعلیم کے ملازمین کی تعلیمی چھٹی کا غلط استعمال بے نقاب
  • قطر پر حملے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا، امریکی میڈیا
  • جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج
  • تارا محمود نے سیاستدان کی بیٹی ہونے کا راز کیوں چھپایا؟ اداکارہ نے بتادیا
  • پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی روشن الدین جونیجو انتقال کرگئے