اقوام متحدہ کے صدر دفتر، نیویارک میں سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز ہوا جس کا محور (2 ریاستی حل) اور فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ اس سفارتی پیش قدمی کو مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی طرف ایک نقطۂ آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کانفرنس کو اہم موڑ قرار دیتے ہوے کہا کہ علاقائی سلامتی کا آغاز فلسطینی عوام کو انصاف دینے سے ہوتا ہے، اور 1967 کی سرحدوں پر ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی کنجی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ میں عالمی کانفرنس کی تیاریاں، سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم

انہوں نے فرانس کے صدر کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا خیرمقدم کیا، اور غزہ کی جنگ کے فوری خاتمے، انسانی امداد کی فراہمی، اور اسرائیلی تجاوزات کی روک تھام پر زور دیا۔

فرانسیسی وزیر خارجہ جان نوئل بارو نے کہا کہ 2 ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے جس سے فلسطینیوں کو امن اور سلامتی حاصل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کو جنگ کے علاقے سے امن کی طرف لے جانا وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اب کوئی متبادل باقی نہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس کانفرنس کو اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے ایک فیصلہ کن موقع قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی مکمل تباہی ناقابل برداشت ہے اور فوری روک تھام ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق، بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر صرف 2 ریاستی حل ہی قابل قبول ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کی اے پلس کریڈٹ ریٹنگ برقرار، فِچ نے مستحکم مستقبل  کی پیش گوئی کردی

مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے جنگ کے خاتمے اور انسانی امداد کی بحالی کے لیے مصر کی کوششوں کا ذکر کیا اور فلسطین کی تعمیرِ نو کے لیے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے فرانسیسی صدر کے اعلان کو سراہتے ہوئے دیگر طاقتوں کو بھی ایسے قدم اٹھانے کی دعوت دی۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے خبردار کیا کہ اگر فوری طور پر عملی اقدامات نہ کیے گئے تو 2 ریاستی حل زمین پر ناقابلِ عمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر اسرائیل میں کوئی سنجیدہ فریق نظر نہیں آتا۔ اُن کے مطابق، فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے بغیر امن ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں: فرانس کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا سعودی عرب کی جانب سے خیرمقدم

اسپین کے وزیر خارجہ خوسے مانوئل الباریس نے زور دیا کہ غزہ کی انتظامیہ کا اختیار صرف فلسطینی اتھارٹی کو حاصل ہونا چاہیے، اور فلسطینی ریاست غزہ، مغربی کنارہ، اور مشرقی یروشلم پر مشتمل ہونی چاہیے۔ انہوں نے انسانی امداد کی فوری اور بھرپور فراہمی، اور قانونی اصولوں کی پاسداری پر بھی زور دیا۔

آئرلینڈ کی سابق صدر میری روبنسن نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم غزہ میں ایک نسل کُشی کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں، اور اسرائیل کے خلاف سنجیدہ احتساب کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلحے کی منتقلی، تجارتی اور عسکری تعاون کو فوراً بند کیا جانا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

(2 ریاستی حل) اسرائیل اقوام متحدہ امریکا سعودی عرب غزہ فرانس فلسطینی ریاست کا قیام نیویارک.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 2 ریاستی حل اسرائیل اقوام متحدہ امریکا فلسطینی ریاست کا قیام نیویارک انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست اقوام متحدہ ریاستی حل کے لیے

پڑھیں:

قطری وزیراعظم نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام فلسطینی گروہ پر عائد کردیا

دوحہ / نیویارک: قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم آل ثانی نے ایک فلسطینی گروہ کو حالیہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیلی فوجی کی ہلاکت دراصل فلسطینی فریق کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔

نیویارک میں کونسل آن فارن ریلیشنز میں گفتگو کے دوران قطری وزیراعظم نے بتایا کہ اگرچہ حماس نے اعلان کیا ہے کہ اس واقعے سے ان کا کوئی تعلق نہیں، تاہم اس دعوے کی تصدیق تاحال نہیں ہوسکی۔

انہوں نے کہا کہ قطر دونوں فریقین کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ جنگ بندی برقرار رہے، اور امریکا کی شمولیت اس معاملے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

شیخ محمد بن عبدالرحمن نے کہا کہ "جو کچھ منگل کو ہوا وہ یقیناً ایک خلاف ورزی تھی، اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ صورتحال کو قابو میں لایا جائے۔"

انہوں نے مزید بتایا کہ مذاکرات کے دوران حماس کی جانب سے شہداء کی لاشوں کی منتقلی میں تاخیر پر بھی بات ہوئی، اور قطر نے واضح کیا کہ یہ عمل معاہدے کا حصہ ہے جس پر مکمل عمل ضروری ہے۔

قطری وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ اکتوبر 2023 سے اب تک امن کی کوششوں کو بے شمار رکاوٹوں کا سامنا رہا، تاہم قطر کی کوشش ہے کہ تازہ جنگ بندی معاہدہ برقرار رہے۔

انہوں نے اس واقعے کو "مایوس کن اور افسوسناک" قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صدر مملکت آصف زرداری قطر میں ہونے والی دوسری عالمی سماجی ترقیاتی کانفرنس میں شرکت کرینگے
  • تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل
  • سہیل آفریدی کی قیادت میں ریاستی اداروں پر حملے کے شواہد سامنے آگئے، اختیار ولی
  • صدرِ مملکت آصف علی زرداری قطر میں ہونے والی دوسری عالمی سماجی ترقیاتی کانفرنس میں شریک ہوں گے
  • سعودی خواتین کے تخلیقی جوہر اجاگر کرنے کے لیے فورم آف کریئٹیو ویمن 2025 کا آغاز
  • ریاستی درجہ کی بحالی سے بی جے پی حکومت مُکر رہی ہے، بے اختیاروزیراعلیٰ کی دہائی
  • سعودی عرب کا عالمی اعزاز: 2031 سے ’انٹوسائی ‘کی صدارت سنبھالے گا
  • نومبر 2025: سعودی عرب میں ثقافت، سیاحت، معیشت اور کھیلوں کی سرگرمیوں کا غیر معمولی مہینہ
  • مدینہ منورہ کی یونیسکو کے ’کریئیٹو سٹیز نیٹ ورک‘ میں شمولیت، کھانوں کے شعبے میں عالمی اعزاز
  • قطری وزیراعظم نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام فلسطینی گروہ پر عائد کردیا