نیویارک میں 2 ریاستی حل پر عالمی کانفرنس: سعودی عرب اور فرانس کی قیادت میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
اقوام متحدہ کے صدر دفتر، نیویارک میں سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز ہوا جس کا محور (2 ریاستی حل) اور فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ اس سفارتی پیش قدمی کو مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی طرف ایک نقطۂ آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کانفرنس کو اہم موڑ قرار دیتے ہوے کہا کہ علاقائی سلامتی کا آغاز فلسطینی عوام کو انصاف دینے سے ہوتا ہے، اور 1967 کی سرحدوں پر ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی کنجی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ میں عالمی کانفرنس کی تیاریاں، سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم
انہوں نے فرانس کے صدر کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا خیرمقدم کیا، اور غزہ کی جنگ کے فوری خاتمے، انسانی امداد کی فراہمی، اور اسرائیلی تجاوزات کی روک تھام پر زور دیا۔
فرانسیسی وزیر خارجہ جان نوئل بارو نے کہا کہ 2 ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے جس سے فلسطینیوں کو امن اور سلامتی حاصل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کو جنگ کے علاقے سے امن کی طرف لے جانا وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اب کوئی متبادل باقی نہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس کانفرنس کو اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے ایک فیصلہ کن موقع قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی مکمل تباہی ناقابل برداشت ہے اور فوری روک تھام ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق، بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر صرف 2 ریاستی حل ہی قابل قبول ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کی اے پلس کریڈٹ ریٹنگ برقرار، فِچ نے مستحکم مستقبل کی پیش گوئی کردی
مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے جنگ کے خاتمے اور انسانی امداد کی بحالی کے لیے مصر کی کوششوں کا ذکر کیا اور فلسطین کی تعمیرِ نو کے لیے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے فرانسیسی صدر کے اعلان کو سراہتے ہوئے دیگر طاقتوں کو بھی ایسے قدم اٹھانے کی دعوت دی۔
اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے خبردار کیا کہ اگر فوری طور پر عملی اقدامات نہ کیے گئے تو 2 ریاستی حل زمین پر ناقابلِ عمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر اسرائیل میں کوئی سنجیدہ فریق نظر نہیں آتا۔ اُن کے مطابق، فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے بغیر امن ممکن نہیں۔
مزید پڑھیں: فرانس کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا سعودی عرب کی جانب سے خیرمقدم
اسپین کے وزیر خارجہ خوسے مانوئل الباریس نے زور دیا کہ غزہ کی انتظامیہ کا اختیار صرف فلسطینی اتھارٹی کو حاصل ہونا چاہیے، اور فلسطینی ریاست غزہ، مغربی کنارہ، اور مشرقی یروشلم پر مشتمل ہونی چاہیے۔ انہوں نے انسانی امداد کی فوری اور بھرپور فراہمی، اور قانونی اصولوں کی پاسداری پر بھی زور دیا۔
آئرلینڈ کی سابق صدر میری روبنسن نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم غزہ میں ایک نسل کُشی کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں، اور اسرائیل کے خلاف سنجیدہ احتساب کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلحے کی منتقلی، تجارتی اور عسکری تعاون کو فوراً بند کیا جانا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
(2 ریاستی حل) اسرائیل اقوام متحدہ امریکا سعودی عرب غزہ فرانس فلسطینی ریاست کا قیام نیویارک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 2 ریاستی حل اسرائیل اقوام متحدہ امریکا فلسطینی ریاست کا قیام نیویارک انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست اقوام متحدہ ریاستی حل کے لیے
پڑھیں:
دو ریاستی حل کے سوا فلسطین-اسرائیل تنازعہ کا کوئی متبادل نہیں، فرانسوی وزیر خارجہ
اپنے ایک بیان میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امانوئل میکرون نے فرانس میں ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ مجھے پسند ہیں۔ لیکن اس بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی بین الاقوامی کانفرنس میں فرانس کے وزیر خارجہ "ژان نوئل بارو" نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین تنازعے کا دو ریاستی حل کے علاوہ کوئی متبادل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف دو ریاستی حل ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے جائز خوابوں کو پورا کر سکتا ہے کہ وہ امن و سلامتی کے ساتھ رہیں۔ اس کا کوئی متبادل نہیں۔ دوسری جانب فرانس کے صدر "امانوئل میکرون" نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس فیصلے کا باقاعدہ اعلان، ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کریں گے۔ امانوئل میکرون کا یہ بیان سوشل میڈیا صارفین کے لئے نہایت حیران کن تھا۔ وہ اس لئے کہ فرانس سلامتی کونسل کا پہلا مغربی رکن اور G7 کا پہلا ملک ہے جو یہ قدم اٹھا رہا ہے۔
فرانس کے اس فیصلے نے اسرائیل کو مشتعل کر دیا۔ جس پر امریکی وزیر خارجہ "مارکو روبیو" نے بھی کہا کہ یہ فیصلہ صرف حماس کے پروپیگنڈا میں مدد کرتا ہے اور امن کے عمل کو پیچھے دھکیلتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 7 اکتوبر کے متاثرین کے منہ پر طمانچہ ہے۔ امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" اس فیصلے پر تلملائے اور اسے بیکار اقدام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امانوئل میکرون نے فرانس میں ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ مجھے وہ پسند ہیں۔ لیکن اس بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔ واضح رہے کہ آج فلسطین کاز کے لئے اقوام متحدہ میں بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی ہے، جس کی مشترکہ صدارت سعودی عرب اور فرانس کر رہے ہیں۔ یہ کانفرنس آج سوموار کو نیویارک میں مقامی وقت کے مطابق شروع ہوئی۔ یہ کانفرنس دو ریاستی حل کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین کا پُرامن حل تلاش کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے مقصد سے منعقد کی گئی ہے۔