Express News:
2025-07-29@04:45:49 GMT

اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

کسی بھی نظریاتی و عسکری حریف کو محض پچھاڑنے کی خواہش سے کچھ نہیں ہوتا اگر آپ کو حریف کی حکمتِ عملی اور اس کے پیچھے کارفرما ذہن کا ادراک نہ ہو۔

حالیہ ایران اسرائیل جنگ، غزہ کے المیے ، لبنان اور شام میں مداخلت ، اسرائیل مخالف بڑھتے عالمی جذبات اور مغربی حکومتوں کی منافقانہ پالیسی کی فضا میں خود اسرائیلی تجزیہ کار اور اسٹیبلشمنٹ کے گرگانِ باراں دیدہ اپنی ریاست کے عزائم کو کس سمت جاتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ سمجھنا بھی بہت اہم ہے۔

ڈیوڈ وینبرگ یروشلم میں قائم مسگاف انسٹیٹیوٹ برائے صیہونی حکمتِ عملی و قومی سلامتی سے وابستہ ہیں اور اٹھائیس برس سے اخباری مضامین بھی لکھ رہے ہیں۔ان کے خیالات پڑھ کے اسرائیل کے موجودہ و آیندہ عزائم کی تصویر نہ صرف صاف صاف دیکھی جا سکتی ہے بلکہ اس شعر کا مفہوم بھی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ،

سب کا حق لے کے بھی محروم نظر آتا ہے

اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

               ( احمد نوید )

ڈیوڈ وینبرگ فرماتے ہیں ،

’’ مغرب نے لگ بھگ چار دہائی پہلے اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے دستبرداری اور درپیش خطرات کا عسکری جواب دینے کے بجائے تحمل اور سفارت کاری برتنے کا جو مطالباتی نسخہ اوسلو امن معاہدے کے نام پر اسرائیل کے حلق سے اتارنے کی کوشش کی ۔اس کا اثر مغربی کنارے اور غزہ کی طرف سے دہشت گرد حملوں ، شام اور لبنان میں اسرائیل دشمنوں کی پناہ گاہوں اور ایران کے جوہری بم منصوبے کی شکل میں سب کے سامنے ہے ۔

چنانچہ گزشتہ پونے دو برس سے اسرائیل نے سفارت کاری اور فوجی طاقت کے استعمال میں توازن کی نئی حکمتِ عملی اپنا لی ہے اور دور و نزدیک کے خطرات سے نپٹنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو سپرپاورز برتتی ہیں۔یعنی حسبِ ضرورت خان یونس سے اصفہان تک بھرپور اور اچانک فیصلہ کن کارروائیاں جاری رکھی جائیں۔

اسرائیل تلخ تاریخی تجربات کے سبب قائل ہو چکا ہے کہ اس کے ہمسائے کسی مصالحت پسند اسرائیل کے بجائے کسی ایسی طاقتور ریاست کے ساتھ ہی پرامن رہ سکتے ہیں جس سے وہ بھلے تعلقات بہتر نہ بھی رکھیں مگر اس کی طاقت سے خوف ضرور کھائیں۔

اسرائیل کو گذرے برسوں میں یہ کڑوا احساس بھی ہوا کہ خاموشی کے جس عرصے کو مغربی ممالک نے امن کا دور سمجھ کے دھوکا کھایا ۔اسی عرصے کو اسرائیل کے دشمنوں نے خود کو مضبوط بنانے میں صرف کیا۔مگر اب اسرائیل بظاہر امن کے سراب سے دھوکا کھانے کے بجائے ہر اس ممکنہ خطرے کا سر اٹھاتے ہی قلع قمع کرنے کو تیار ہے جو آگے چل کے تن آور درخت بننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور پھر اسے جڑ سے اکھاڑنا مشکل تر ہو جائے۔

اسرائیلی قیادت کو اچھے سے سمجھ ہے کہ مشرقِ وسطی میں اسرائیل دشمن قوتیں بظاہر امن ، تحمل اور سفارت کاری کا جو بھی راگ الاپیں۔اندر سے وہ اسرائیل کے وجود کے درپے ہیں۔لہٰذا شام میں سابق القاعدہ جنگجو احمد الشرع کی نئی حکومت اپنی بے ضرر اداؤں سے مغربی دنیا کو بھلے کتنا ہی لبھانے کی کوشش کرے مگر ماضی کی روشنی میں اسرائیل جانتا ہے کہ اگر یہ حکومت مستحکم ہو گئی تو آگے چل کے ہمارے لیے کتنا بڑا دردِ سر بن سکتی ہے۔

چنانچہ اسرائیل اس وقت اپنے دفاع کے لیے شام کے معاملات میں جو بھی حکمتِ عملی لاگو کرنا چاہے اس میں حق بجانب ہے۔اسرائیل یہ بھی جانتا ہے کہ حزب اللہ کو قابو میں رکھنا کسی بھی لبنانی حکومت کے بس سے باہر ہے۔ایسے میں اسرائیل جنوبی لبنان میں اپنی عسکری و علاقائی سلامتی ذمے داریوں سے کیوں غافل رہے اور کیوں نہ ہر وہ قدم اٹھائے جو اس کی موجودہ اور آیندہ سلامتی کے لیے بہتر ہو۔

اسرائیل اب اس پالیسی پر کاربند رہنا افورڈ نہیں کر سکتا کہ وہ تحمل سے بیس تیس برس بیٹھ کر حزب اللہ اور حماس کے منصوبوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتا رہے اور پھر اپنے دفاع کے لیے ان کے حملوں کا انتظار کرے اور پھر امریکی ثالثی سے امید لگائے یا اقوامِ متحدہ کی امن کوششوں اور اپیلوں پر تکیہ کرتا رہے یا پھر یہ خیال رکھے کہ شام کا اتحاد برقرار رکھنے کی خاطر وہاں کی دروز اقلیت کی مدد کر کے اور شامی حدود میں بفرزون قائم کر کے اپنی شمالی سرحد مستحکم نہ کرے۔

انیس سو چورانوے میں جوڈیا سماریا ( مغربی کنارے) پر قائم فلسطینی اتھارٹی سے بھی یہی امید تھی کہ وہ ایک دن اس قابل ہو جائے کہ اپنی جانب سے اسرائیل کو لاحق دہشت گردی کو لگام دے سکے۔مگر یہ امید بر نہ آنے کے سبب اسرائیلی فوج کو بادلِ نخواستہ جنین ، تلکرم اور نابلس میں داخل ہو کر دہشت گردی کے ٹھکانوں ( فلسطینی پناہ گزین کیمپ ) کو صاف کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکا اور یورپی یونین نے فلسطینی اتھارٹی کو شفاف ، جمہوری ، متحرک اور مستحکم حکومت میں بدلنے کے لیے گزشتہ تیس برس میں کیا نہیں کیا۔مگر اربوں ڈالر اور یوروز کی امداد بھی مطلوبہ نتائج پیدا نہ کر سکی۔ الٹا اقربا پروری اور کرپشن بڑھتی چلی گئی اور مارے جانے والے دہشت گردوں کے خاندانوں کو مالی مدد دے کر ان کی مزید حوصلہ افزائی کی گئی۔

اس پورے عرصے میں اتھارٹی نے ایک بھی نیا اسپتال کھڑا نہیں کیا۔کسی ایک پناہ گزین کو کہیں آباد نہیں کیا۔بس ایک نیا سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بن سکا۔ امریکا نے فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز کی تربیت پر ایک ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے۔اس مشن میں جزوی کامیابی ضرور ہوئی مگر یہ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کا ساتھ اور پناہ دیتی رہیں۔اسرائیلی قید میں جو دہشت گرد ہیں ان میں سے بارہ فیصد کا تعلق انھی سیکیورٹی فورسز سے ہے۔ اس پورے عرصے میں فلسطینی اتھارٹی نے کسی بھی بین الاقوامی فورم پر اسرائیل کو نشانے پر رکھنے کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔

پھر بھی فرانس اور سعودی عرب جیسے ممالک اس دھوکے میں ہیں کہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا نسخہ ہی اسرائیلی سیکیورٹی کو لاحق امراض کا تریاق ہے۔ فرانس نے تو اگلے چند روز میں غیر موجود فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ٹھوس عندیہ بھی دے دیا ہے۔

اسرائیل اپنے جنوبی علاقے کو غزہ سے ہونے والے دہشت گرد حملوں سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کی شرط اگر یہ ہے کہ حماس کے مکمل قلع قمع سے پہلے مستقل جنگ بندی ہو جائے اور پھر اس جنگ بندی سے حاصل وقفے میں حماس پہلے کی طرح کھڑی ہو جائے تو یہ حالت اسرائیل اب کسی طور قبول نہیں کر سکتا۔غزہ کی تعمیرِ نو اسے مکمل غیر عسکری علاقہ بنائے بغیر ممکن نہیں۔غزہ میں کسی متبادل ’’ ٹیکنو کریٹ ’’ گورننس کا ڈھانچہ بھی امن کی ضمانت بننے کے بجائے حماس کا نیا مکھوٹا ثابت ہو گا۔

اسرائیل کو غزہ میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے اب مصر سمیت کسی عرب ریاست اور اقوامِ متحدہ کے امن دستوں کی کارکردگی پر بھی اعتبار نہیں۔بلکہ مصر نے تو ہمیشہ غزہ میں اسلحے کی اسمگلنگ سے نگاہیں چرائیں۔

 کل کلاں یورپ اور امریکا ایران سے کوئی جوہری سمجھوتہ کر بھی لیں تو اسرائیل اس سمجھوتے کو دوسروں کی عینک سے دیکھنے کے بجائے اپنے تحفظ کے نظریے سے دیکھے گا اور اس بابت کسی بھی وقت ہر مناسب کارروائی کا حق محفوظ رکھے گا۔

اسرائیل بطور علاقائی طاقت اپنی عسکری بالادستی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔مغرب کو بھی اب پہلے سے بڑھ کے احساس ہونا چاہیے کہ ایک طاقتور اور قابلِ بھروسہ اتحادی (اسرائیل ) ہی مشرقِ وسطی کی شکل بدلنے کا اہل اور کسی بھی جامع علاقائی امن کا ضامن ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطینی اتھارٹی میں اسرائیل اسرائیل کو اسرائیل کے کے بجائے اور پھر ہو جائے کسی بھی کے لیے

پڑھیں:

نہیں معلوم غزہ میں آئندہ کیا ہونے والا ہے، اب فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں نہیں معلوم غزہ میں آئندہ کیا ہونے والا ہے اور اب وہاں کے حوالے سے حتمی فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہوگا۔

انہوں نے زور دیا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی نہایت اہم ہے لیکن حماس کی جانب سے مذاکرات میں سخت رویہ اپنایا گی، جس سے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے۔

ٹرمپ کے مطابق جب حماس نے یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا، وہ یرغمالی واپس نہیں کررہے ہیں تو اس کے بعد اب یہ اسرائیل پر منحصر ہے کہ وہ غزہ میں اپنے آئندہ اقدامات کا تعین کرے۔

یہ بھی پڑھیے: غزہ میں بھوک سے مزید 6 افراد شہید، متحدہ عرب امارات اور اردن نے امداد کی فضائی ترسیل شروع کردی

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکا نے غزہ کے لیے 60 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے اور آئندہ مزید امداد بھی بھیجی جائے گی، انہوں نے حماس پر امدادی سامان چرانے کا الزام لگایا تاہم انہوں نے اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے ایک بار پھر دوٹوک انداز میں کہا کہ وہ کسی صورت ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امداد ٹرمپ جنگ بندی غزہ یرغمالی

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں: نائب وزیراعظم اسحاق ڈار
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں، اسحاق ڈار
  • غزہ کا انسانی المیہ اور اقوام عالم کی بے حسی
  • دو ریاستی حل کے سوا فلسطین-اسرائیل تنازعہ کا کوئی متبادل نہیں، فرانسوی وزیر خارجہ
  • کولمبیئن صدر نے اسرائیل کو کوئلے کی برآمد پر پابندی لگادی، تمام شپمنٹس روک دیں
  • نہیں معلوم غزہ میں آئندہ کیا ہونے والا ہے، اب فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • غزہ میں نسل کُشی کا حصہ نہیں بنیں گے، اسرائیل کو 1 ٹن کوئلہ نہیں دینگے، کولمبیا
  • غزہ کی آڑ میں مغربی کنارہ نگلنے کی اسرائیلی پیش قدمی
  • بارہ روزہ جنگ نے ایران کو دوبارہ متحد کر دیا، فرانسیسی ماہر