سپریم کورٹ، پنشنر کی وفات کے بعد مطلقہ بیٹی کا پنشن حق بحال
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کے اس سرکلر کو غیرآئینی قرار دیا ہے جس کے تحت پنشنر والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کے پنشن کے حق کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک کی جانب سے 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سندھ حکومت کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا گیا کہ یہ سرکلر اپنے آغاز سے ہی غیر آئینی اور کسی قانونی اثر کے بغیر ہے اور اسے پنشنر کی وفات کے وقت زندہ رہنے والی بیٹی کے پنشن کے حق کو ختم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے قرار دیا کہ پاکستان کی بین الاقوامی قانون کے تحت ذمہ داریاں اس اصول کو تقویت دیتی ہیں کہ خواتین کو صرف ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر معاشی حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
بیٹیوں کو ضرورت کی بنیاد پر پنشن دی جاتی ہے نہ کہ ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر۔ درحقیقت، بھارت میں بھی معذور بچوں کو ان کی مالی ضرورت کی بنیاد پر زندگی بھر خاندانی پنشن حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
بنگلہ دیش میں سماجی تحفظ کے پروگراموں کے ذریعے بھی اسی طرح کے اقدامات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اب وہ بھی بیوہ یا طلاق یافتہ بیٹیوں کے لیے پنشن کی اجازت دیتا ہے اور بعض اوقات ان پوتوں کے لیے بھی جو پنشنر پر منحصر ہوتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پنشن کی بروقت ادائیگی صرف ایک انتظامی اقدام نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے۔
یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ پنشنر کی وفات کے بعد زندہ رہنے والی بیٹی کے لیے پنشن کی اہلیت کا انحصار مکمل طور پر اس کی ازدواجی حیثیت پر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک منظم تعصب موجود ہے جو بیٹی کو صرف ایک ڈیپینڈینٹ کے طور پر دیکھتا ہے جس کا مالیاتی انحصار شادی کے بعد والدین سے شوہر کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔
یہ مفروضہ اس غلط رائے پر مبنی ہے کہ غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ خواتین مالیاتی طور پر ڈیپینڈینٹ ہوتی ہیں جبکہ شادی شدہ خواتین مالی طور پر محفوظ ہوتی ہیں۔ یہ ذہنیت اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ شادی شدہ خواتین کو بھی مالی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ پنشن معاملات میں اس مفروضے کے تحت ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر اس قسم کا اخراج غیر آئینی، امتیازی سلوک اور آئین کے آرٹیکلز 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر کی وفات کے قرار دیا کے بعد کے لیے
پڑھیں:
الیکشن کمیشن نے بیرسٹر گوہر کے بیان کو بے بنیاد قرار دے دیا
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیرسٹر گوہر کے حالیہ بیان کو حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ سینیٹر اعجاز چوہدری، رکن قومی اسمبلی محمد احمد چھٹہ، اور رکن صوبائی اسمبلی احمد خان کو انسداد دہشتگردی کی عدالت سے سزائیں ہو چکی ہیں، اور یہ سزائیں اب تک برقرار ہیں۔ ان فیصلوں کو کسی عدالت نے کالعدم قرار نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں:9 مئی کیسز میں سزا یافتہ سینیٹر اعجاز چوہدری، احمد خان بھچر اور احمد چٹھہ نااہل قرار
کمیشن کے ترجمان کے مطابق عبداللطیف چترالی کا معاملہ ان سے مختلف نوعیت کا ہے۔ اگرچہ چترالی نے بذات خود اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا، تاہم ان کے شریک ملزمان نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ان شریک ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
ترجمان کے مطابق چونکہ عبداللطیف چترالی اس عدالتی اپیل کا حصہ نہیں تھے، اس لیے ان کو الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹس جاری کیا گیا ہے تاکہ وہ کمیشن کے روبرو پیش ہو کر یہ وضاحت کریں کہ آیا ہائی کورٹ کا فیصلہ اُن پر بھی لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ادارہ قانونی تقاضوں کے مطابق تمام امور کی شفاف جانچ کر رہا ہے اور ہر فیصلے کے لیے ٹھوس قانونی بنیادوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکشن کمیشن بیرسٹر گوہر تردید عبداللطیف چترالی