WE News:
2025-11-03@14:38:31 GMT

ایف بی آر اور ڈیجیٹل ایکو سسٹم

اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT

ایف بی آر اور ڈیجیٹل ایکو سسٹم

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے اعلان کرتے ہوئے ایف بی آر میں جدید اور عالمی معیار کے ڈیجیٹل ایکو سسٹم کی تشکیل کی منظوری دی ہے یہ فیصلہ اُن کی زیرِ صدارت ایف بی آر کی جاری اصلاحات پر ہونے والے جائزہ اجلاس میں کیا گیا۔
وزیراعظم نے واضح ہدایت دی کہ صرف ’ڈیجیٹائزیشن‘ کافی نہیں، بلکہ ایک مکمل مربوط اور طاقتور ڈیجیٹل ایکو سسٹم قائم کیا جائے، مزید برآں وزیر اعظم نے عالمی شہرت یافتہ ماہرین کی خدمات لینے کا بھی عندیہ دیا تاکہ یہ نظام عالمی معیار پر پورا اتر سکے۔

وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ خام مال کی تیاری، درآمد، مصنوعات کی مینوفیکچرنگ اور صارف کی خریداری تک کے تمام مراحل کا ڈیٹا ایک ہی مربوط نظام میں شامل کیا جائے اور یہ نیا نظام اس قدر مؤثر ہونا چاہیے کہ پوری ویلیو چین (Value Chain) کی براہ راست ڈیجیٹل نگرانی ممکن ہو سکے۔

ڈیجیٹل ایکو سسٹم کو قومی ترقی کے لیے ایک سنگِ میل کے طور پر تسلیم کیا جانا اہم پیش رفت ہے، ڈیجیٹل ایکو سسٹم چونکہ بہت سی ٹیکنالوجیز کو باہم مربوط کر کے موثر نگرانی کے ذریعے بہترین کارکردگی کا حصول ہے اور یہ تفصیلات آنا ابھی باقی ہے کہ حکومت کون کون سی ٹیکنالوجیز کو اس نظام کا حصہ بنائے گی، ڈیجیٹل ایکو سسٹم میں شامل عمومی ٹیکنالوجیز کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

ڈیجیٹل ایکو سسٹم میں  مصنوعی ذہانت (AI) اور مشین لرننگ (ML)  جو ڈیجیٹل نظام کو سیکھنے موازنہ کرنےاور بہتر فیصلے کرنے کے قابل بناتی ہیں، ایف بی آر جیسے اداروں کے لیے یہ ٹیکنالوجیز ٹیکس چوری کی نشان دہی، ڈیٹا کا تجزیہ اور خودکار رپورٹس کی تیاری جیسے امور میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

اس نظام میں (Digital Twins) بھی اہم ہے، جو کسی بھی مشین، نظام یا عمل کی ڈیجیٹل نقل ہوتی ہے، جو کہ نگرانی کرتے ہوئے مقرر کردہ معیار کے مطابق جائزہ لیتے ہوئے مسائل کی نشان دہی اور حل پیش کرتا ہے۔

اگر اس تصور کو ایف بی آر کی ویلیو چین پر لاگو کیا جائے تو خام مال کی آمد سے لے کر مصنوعات کی فروخت تک ہر قدم پر ڈیٹا کی نگرانی اور بہتری کا عمل انجام دیا جا سکتا ہے۔

 EPR (Extended Producer Responsibility)

 یہ نظام اداروں کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ نہ صرف مصنوعات کی فروخت بلکہ ان کی بعد از استعمال کے بھی ذمہ دار ہوں، ایف بی آر اس اصول کو بزنس ماڈلز میں ضم کر کے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ترقی میں توازن پیدا کر سکتا ہے۔

ڈیجیٹل ایکو سسٹم کی فعالیت میں RFID اور QR کوڈز جیسے ٹولز بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو اشیاء کی شناخت، ٹریکنگ اور رجسٹریشن میں فوری معلومات فراہم کرتے ہیں، ٹیکس سسٹم میں اگر  درآمدی یا مقامی مصنوعات کو RFID یا QR کوڈ سے منسلک کر دیا جائے تو اس کی شناخت، نقل و حرکت اور فروخت کی مکمل نگرانی ممکن ہو سکتی ہے۔

انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) مختلف مشینوں اور سسٹمز کو انٹرنیٹ سے جوڑ کر ایک ’سمارٹ‘ نظام میں تبدیل کرتا ہے، ایف بی آر اگر اپنی تنصیبات اور سسٹمز کو IoT سے منسلک کرتا ہے تو نہ صرف روز مرہ کے امور خودکار ہوں گے بلکہ انسانی مداخلت میں بھی کمی آئے گی۔

Big Data Analytics

وسیع جمع شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کر کے درست رہنمائی فراہم کرتا ہے، ایف بی آر جیسے ادارے اس ڈیٹا کا استعمال کر کے ٹیکس پالیسیوں میں بہتری، کاروباری رجحانات کی پیش گوئی اور شفاف فیصلے کر سکتے ہیں۔

 Cloud Computing

ڈیٹا کو انٹرنیٹ پر محفوظ، تیز اور باآسانی قابل رسائی بناتا ہے۔ Cloud-based solutions   ایف بی آر کے ڈیٹا بیس کو محفوظ بنانے کا اہتمام کر سکتا ہے۔

 Blockchain

ٹیکنالوجی اس تمام نظام کو محفوظ، شفاف اور ردوبدل سے محفوظ بنانے میں مدد دیتی ہے، اس کی مدد سے ٹیکس ریکارڈز ریفنڈز اور لین دین کو ایسے بلاکس میں محفوظ کیا جا سکتا ہے، جنہیں کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا، اور یہی شفافیت اور اعتماد کی بنیاد ہے۔

یہ تمام ٹیکنالوجیز ڈیجیٹل ایکو سسٹم نظام میں باہم منسلک ہو کر کام کرتی ہیں تو ایک جدید، موثر، شفاف اور تیز رفتار نظام وجود میں آتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کی ترقی اور جدت میں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے یقیناً بہتر کردار ادا کیا اور معیشت کے موجودہ استحکام میں بھی ان بہت اہم کردار ہے۔

لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عمومی طور پر ماضی میں کئی پالیسیوں اور اصلاحاتی دعوؤں کا اعلان تو ہوا، مگر ان پر عملدرآمد یا تو بہت محدود رہا یا مکمل طور پر غیر مؤثر ثابت ہوا، اگر وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق یہ نیا ڈیجیٹل نظام واقعی عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ پاکستان کے لئے ایک بڑی خدمت ہو گی۔

اگر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا تو یہ  پاکستان کی  بدقسمتی کی ایک اور کڑی کہلائے گا، جہاں وژن تو موجود ہوتا ہے مگر عمل درآمد مفقود

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راحیل نواز سواتی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈیجیٹل ایکو سسٹم ایف بی آر کرتا ہے سکتا ہے

پڑھیں:

کراچی میں 4سال قبل چوری شدہ موٹرسائیکل کا چالان مالک کو بھیج دیا گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (خصوصی تحقیقاتی رپورٹ) ٹریفک پولیس کے ای چالان سسٹم میں سنگین خامیاں سامنے آ گئی ہیں۔ چار سال قبل چوری ہونے والی موٹر سائیکل کا نیا چالان اصل مالک کے پتے پر بھیج دیا گیا، جس نے دعویٰ کیا ہے کہ موٹر سائیکل اس کے قبضے میں نہیں بلکہ 2019ء میں ٹیپو سلطان روڈ سے چوری ہوگئی تھی۔متاثرہ شہری محمد وقاص بن عبدالرؤف جوکہ اسکیم
33، گلشن معمار، سیکٹر 6-اے) کے رہائشی ہیں انہوں نے بتا یا کہ موٹر سائیکل نمبر 9487۔KMC- 2019ء میں ٹیپو سلطان تھانے کی حدود سے چوری ہوئی تھی، جس کی ایف آئی آر نمبر 384/2019 درج کرائی گئی تھی تاہم 27 اکتوبر 2025ء کو محمد وقاص کے پتے پرای چالان موصول ہوا، جس میں لکھا تھا کہ مذکورہ موٹر سائیکل کلفٹن تین تلوار کے قریب صبح 9 بج کر 45 منٹ پربغیر ہیلمٹ کے چلائی جا رہی تھی۔چالان میں 5 ہزار روپے جرمانہ اور 6 ڈی میرٹ پوائنٹس عاید کیے گئے حالانکہ متاثرہ شہری نے واضح کیا کہ وہ اس وقت گھر پر موجود تھا اور موٹر سائیکل 4 سال سے اس کے قبضے میں نہیں۔محمد وقاص کا کہنا ہے کہ میں نے چوری کے فوراً بعد رپورٹ درج کرائی تھی۔ اس کے باوجود آج 4 سال بعد چالان میرے نام پر بھیج دیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ای چالان سسٹم میں تصدیق کا کوئی مؤثر طریقہ نہیں۔ای چالان سسٹم کی خامیاں نمایاں ہوگئیں۔تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ٹریفک پولیس کا ای چالان سسٹم چوری شدہ گاڑیوں کا ڈیٹا پولیس کے مرکزی ریکارڈ سے لنک نہیں کرتا۔ یعنی اگر کسی گاڑی کی چوری کی رپورٹ درج ہے، تو بھی چالان سسٹم اس کو ‘‘چوری شدہ’’ کے طور پر شناخت نہیں کرتا۔نمبر پلیٹ اسکیننگ میں انسانی غلطی یا جعلی نمبر پلیٹ کے امکانات موجود ہیں۔ای چالان کے تصدیقی مراحل میں کوئی انسانی ویریفی کیشن شامل نہیں، تمام کارروائی خودکار کیمروں اور سافٹ ویئر پر انحصار کرتی ہے۔غلط چالان کی اپیل یا منسوخی کا نظام غیر مؤثر ہے۔ شہریوں کو بارہا تھانوں یا ٹریفک ہیڈ آفس کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ڈیجیٹل عدم ربط شہریوں کے لیے نیا مسئلہ بن گیا ہے ۔ٹریفک پولیس اور محکمہ ایکسائز کے مابین ڈیجیٹل ربط نہ ہونے کے باعث چوری شدہ یا منتقل شدہ گاڑیوں کی معلومات ای چالان سسٹم میں اپڈیٹ نہیں ہوتیں۔نتیجتاًغلط موٹر سائیکل یا گاڑی نمبر پر چالان جاری ہو جاتے ہیں۔ جس سے نہ صرف شہری مالی نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ بے قصور لوگ ریکارڈ میںقانون شکن بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ترجمان ٹریفک پولیس سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ ای چالان خودکار کیمروں کے ذریعے جاری ہوتا ہے اور اگر کسی شہری کو چالان پر اعتراض ہو تو وہ ڈی آئی جی ٹریفک آفس یا ای چالان ایپ کے ‘Dispute Section’ کے ذریعے شکایت درج کرا سکتا ہے تاہم ترجمان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ‘‘چوری شدہ یا منتقل شدہ گاڑیوں کا ڈیٹا ای چالان سسٹم میں فوری اپڈیٹ نہیں ہوتا اس پر کام جاری ہے۔

جسارت نیوز گلزار

متعلقہ مضامین

  • اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • شادی میں دلہن کے والد کا نیا انداز، جیب پر کیو آر کوڈ چسپاں کرکے ‘آن لائن سلامی’ وصول کی
  • جسارت ڈیجیٹل میڈیا کی تقریب پذیرائی، نمایاں کارکردگی پر تقسیم اسناد اور نقد انعامات تفیض
  • ساونڈ سسٹم ایکٹ کی خلاف ورزی: راولپنڈی میں ایک شہری پر مقدمہ درج
  • نادرا کا ڈیجیٹل پاکستان کی جانب ایک اور قدم، نکاح کے آن لائن اندراج کا آغاز
  • راولپنڈی میں ساونڈ سسٹم ایکٹ کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج
  • میزان بینک اور ویزا کے درمیان شراکت داری میں توسیع کا معاہدہ
  • کراچی میں 4سال قبل چوری شدہ موٹرسائیکل کا چالان مالک کو بھیج دیا گیا
  • ملک کے 8 ہوائی اڈوں پر جدید انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم فعال