معروف بھارتی اداکارہ اپنی تیز رفتار کار سے طالبعلم کو کچل کر ہلاک کرنے پر گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
بھارتی شہر گوہاٹی میں گزشتہ روز ایک تیز رفتار گاڑی نے ٹیکنیکل کالج کے 21 سالہ طالب علم سمیع الحق کو کچل دیا تھا جو آج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق تیز رفتار گاڑی نے اُس وقت طالب علم کو کچلا جب وہ سڑک کنارے پیدل چل رہا تھا۔ اس کے دوست بھی ہمراہ تھے جو محفوظ رہے۔
دوستوں نے ایک اور کار سوار کی مدد سے حادثہ کرنے والی گاڑی کو جا لیا جس میں آسام کی معروف اداکارہ نندنی کشیپ موجود تھی۔
دوستوں نے ہی سمیع الحق کو اسپتال منتقل کیا جہاں وہ آج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگیا جس کے بعد اداکارہ کو حراست میں لے لیا گیا۔
آسامی اداکارہ کی گاڑی حادثے کی روزہ ہی پولیس نے تحویل میں لے لی تھی۔ اداکاہ پر لاپروائی سے گاڑی چلانے اور موت کا سبب بننے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
طالب علم سمیع الحق کی ناگہانی موت پر عوام اور سوشل میڈیا صارفین میں شدید غم و غصہ پایا گیا اور عوامی دباؤ کے بعد ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
چین کا تیز ترین ریلوے نظام
ویسے تو چین دور حاضر میں آئے روز اختراعات یا ایجادات کر رہا ہے، ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے زمین سے آسمان تک کمند ڈال چکا ہے۔ اور اس تیزی سے چلتی ہوئی دنیا کو اپنی اختراعات سے مزید تیز کررہا ہے، وہ سفر کے ذریعے ایک دوسرے سے ملنا ہو یا پھر موبائل کنیکویٹی ہو ، اور اس سے بڑھ کر چاند تک کو مسخر کر رہا ہے، ترقی پذیر ممالک کیلئے اپنی اختراعات ہم ہر طرح سے دستیاب کر رہا ہے تاکہ ترقی کے اس سفر میں کوئی میں پیچھے نہ رہنے پائے۔
حال ہی میں چین نے ریلوے کی صنعت میں ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ ویسے تو چین کا ریلوے سسٹم چاہئے وہ اندرون شہر کا ہو یا پھر ایک سے دوسرے شہر کیلئے ریلوے کا نظام ہی سب ہی بہت ہی اعلی طریقے سے کام کررہا ہے۔
لیکن اس ریلوے کے نظام کو اس قدر بھی جدیداور تیز ترین کیا جا سکتا ہے ایسا ترقی یافتہ ممالک میں بھی کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔
چین نے 650 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والی ٹرین کا تجربہ کیا ہے جو کہ کامیاب رہا ہے۔ چین کی مقناطیسی لیویٹیشن (میگلیو) ٹیکنالوجی میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر، ہوبے صوبے کے ڈونگھو لیبارٹری کے محققین نے صرف 1,000 میٹر کے فاصلے پر 1.1 ٹن کے ٹیسٹ گاڑی کو 650 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جو جدید مقناطیسی لیویٹیشن سپورٹ اور الیکٹرو میگنیٹک پروپلژن سسٹمز (electromagnetic propulsion systems)کا استعمال کرتے ہوئے ممکن ہوا۔
لیب کے ہائی اسپیڈ میگلیو الیکٹرو میگنیٹک پروپلژن ٹیکنالوجی انوویشن سینٹر کے ڈائریکٹر لی ویچاؤ ن کہتے ہیں کہ ٹیسٹ ڈیٹا کے مطابق، گاڑی نے صرف 7 سیکنڈز میں 600 میٹر کا فاصلہ طے کیا ہے اور یہ تیز رفتاری میں ایک بڑی کامیابی ہے۔انھوں نے مزید کہا، ’یہ دنیا کی تیز ترین رفتار ہے۔‘
یہ کامیابی لیب کی خود تیار کردہ ہائی اسپیڈ میگلیو ٹیسٹ ٹریک کی بدولت ممکن ہوئی، جس کی لمبائی صرف 1,000 میٹر ہے۔
روایتی اسپیڈ ٹیسٹس کے برعکس، جنہیں عام طور پر 30 سے 40 کلومیٹر طویل ٹریکس کی ضرورت ہوتی ہے، اس نئے ٹیسٹ ٹریک نے کم فاصلے پر تیز رفتار تک پہنچنے کا طریقہ اپنایا ہے، جس کے لیے انتہائی درست رفتار اور پوزیشننگ کی پیمائش درکار ہوتی ہے۔ لی ویچاؤ ن نے کہا، ’موجودہ رفتار کی پیمائش اور پوزیشننگ کی درستگی 4 ملی میٹر تک درست ہو سکتی ہے۔‘
الیکٹرو میگنیٹک فورسز کے زیر اثر، ٹیسٹ گاڑی اور ٹریک کے درمیان (like-pole repulsion) کا اثر پیدا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان کوئی جسمانی رابطہ نہیں ہوتا۔
ٹیسٹ گاڑی ٹریک کے اوپر لیویٹیٹ کرتی ہے، اور تیز رفتاری کے دوران یہ رگڑ سے پاک ہوتی ہے اور صرف ہوا کے مزاحمت کو توڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
لی نے مزید کہا کہ 650 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار اس ٹیسٹ لائن کا حتمی ہدف نہیں ہے۔ ’اس کی عام آپریٹنگ اسپیڈ 800 کلومیٹر فی گھٹہ ہوگی۔ مکمل تعمیراتی کام اس سال کے آخر تک مکمل ہونے کی توقع ہے، اور پلیٹ فارم 验收 ا یکسیپٹنس کی شرائط پوری کرے گا۔‘
تیز رفتاری کے علاوہ، یہ جدید ٹیکنالوجیز گاڑی کو صرف 200 میٹر کے فاصلے پر مکمل رونے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں۔ تیز رفتاری اور بریکنگ دونوں پر دقیق کنٹرول کے ساتھ، یہ ٹیسٹ ٹریک ہائی اسپیڈ ٹرینز کی تحقیق اور دیگر جدید ٹرانسپورٹ ٹیکنالوجیز کی ترقی کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بننے جا رہا ہے۔
لی ویچاؤ ن نے یہ بھی بتایا کہ سویلین شعبوں میں اس کی متعدد ممکنہ ایپلی کیشنز ہیں، اور انہوں نے بتایا کہ ٹیسٹ لائن میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجیز پہلے ہی دیگر تحقیقی سہولیات میں بروئے کار لائی جا رہی ہیں۔
چین کا تیز ترین ریلوے سسٹم دنیا بھر میں اپنی رفتار، جدید ٹیکنالوجی، وسیع نیٹ ورک اور اعلیٰ معیار کی وجہ سے ممتاز ہے۔ یہاں کچھ اہم پہلو ہیں جو چین کے ہائی اسپیڈ ریلوے کو منفرد بناتے ہیں۔
جیسے ہم جدید ٹیکنالوجی سے لیس مقناطیسی لیویٹیشن (میگلیو) ٹیکنالوجی کا ذکر کر چکے ہیں لیکن اس وقت شنگھائی میگلیو دنیا کی تیز ترین تجارتی ریلوے لائن ہے، جو 431 کلومیٹر فی گھنٹہ کی زیادہ سے زیادہ رفتار تک پہنچتی ہے۔
یہ ٹرین میگنیٹک لیویٹیشن (میگلیو) ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہے، جو ریل اور پٹری کے درمیان رگڑ کو ختم کرکے انتہائی تیز رفتاری کو ممکن بناتی ہے۔
چین کے پاس دنیا کا سب سے بڑا ہائی اسپیڈ ریل نیٹ ورک ہے، جو 40,000 کلومیٹر سے زیادہ لمبا ہے۔ یہ نیٹ ورک ملک کے تمام بڑے شہروں کو آپس میں جوڑتا ہے۔ چین کی ہائی اسپیڈ ٹرینیں CRH سیریز 250 سے 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں، جو ہوائی سفر کے مقابلے میں شہروں کے درمیان سفر کو تیز اور آرام دہ بناتی ہیں۔
مثال کے طور پر، بیجنگ سے شنگھائی تک کا سفر (1,318 کلومیٹر) صرف 4.5 گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے۔
چین کا ریلوے انفراسٹرکچر بین الاقوامی سلامتی اور معیارات پر پورا اترتا ہے، جس میں کم vibrations اور توانائی کی بچت شامل ہے۔ ہائی اسپیڈ ریل نے چین میں معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے، شہروں کے درمیان کنیکٹیویٹی بڑھانے اور سیاحت کو آسان بنانے میں مدد کی ہے۔ یہ نظام ماحول دوست بھی ہے، کیونکہ یہ ہوائی سفر کے مقابلے میں کم کاربن اخراج کرتا ہے۔
چین کا ہائی اسپیڈ ریلوے سسٹم نہ صرف تیز رفتار اور موثر ہے، بلکہ یہ جدید ترین ٹیکنالوجی، وسیع نیٹ ورک اور معیاری خدمات کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کی بدولت چین نے ریلوے انفراسٹرکچر کے شعبے میں عالمی قیادت حاصل کی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں