گنویری والا، پانچ ہزار سالہ پرانے شہر کی کھدائی فنڈز نہ ملنے پر بند
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
صحرائے چولستان میں واقع پانچ ہزار سال پرانے گمشدہ شہر گنویری والا کی کھدائی اور تحقیق کا کام فنڈز نہ ملنے کے باعث کئی ماہ سے بند پڑا ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ حکومتی عدم تعاون کے باعث وادی سندھ کی تہذیب سے جڑے اس اہم مقام کو عالمی سطح پر روشناس کروانے کا موقع ضائع ہورہا ہے۔
گنویری والا کا سراغ سب سے پہلے 1975 میں معروف ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر محمد رفیق مغل نے لگایا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ مقام وادی سندھ کے قدیم شہروں ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے بعد تیسرا بڑا شہری مرکز تھا، جو قلعہ دراوڑ سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔
پنجاب کے مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے سابق ڈائریکٹرز اور ماہرین پر مشتمل ٹیم نے 24 فروری 2024 کو کھدائی کا آغاز کیا۔
منصوبے کی سربراہی تھاپ کی چیئرپرسن ساجدہ حیدر ونڈل کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شدید گرمی اور صحرائی ماحول کے باوجود ٹیم نے محنت سے کام کیا اور پاکستان کے ممتاز ماہرین، بشمول ڈاکٹر رفیق مغل، کو اس قومی منصوبے کا حصہ بنایا۔
کھدائی کے دوران مختلف مقامات سے برتن، اینٹوں کی دیواریں، مٹی کے مجسمے، تانبے کی مہریں اور دیگر نوادرات برآمد ہوئے۔ ڈاکٹر مغل کے مطابق یہ آثار وادی سندھ کی تہذیب سے مماثلت رکھتے ہیں اور ان سے گنویری والا کی قدامت اور اہمیت کی تصدیق ہوتی ہے۔
سابق ڈائریکٹر آثار قدیمہ افضل خان نے بتایا کہ کھدائی کے لیے 60 سے زائد مزدوروں کی خدمات لی گئیں، خیمہ بستی قائم کی گئی، اور 6 مقامات پر کھدائی کی گئی۔ تاہم مارچ کے آخر میں گرمی کی شدت بڑھنے اور لیبر کی روانگی کے بعد کام سست پڑگیا۔ اس دوران ٹیم نے کمشنر بہاولپور آفس کو تفصیلی اخراجات جمع کروائے لیکن مبینہ اعتراضات کی بنیاد پر فنڈز روک دیے گئے۔
ساجدہ ونڈل کے مطابق حکومت نے منصوبے کے لیے دو کروڑ روپے منظور کیے تھے جو کمشنر بہاولپور کے ذریعے جاری ہونے تھے، مگر ٹیم کو اب تک ایک روپیہ بھی موصول نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ کھدائی کا دوسرا مرحلہ اکتوبر 2024 میں شروع ہونا تھا لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث وہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔
افضل خان نے بتایا کہ 30 جون 2024 کو سرکاری مالی سال کے اختتام پر فنڈز واپس سرنڈر ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اب دنیا بھر سے ماہرین دریافتوں کی تفصیلات پوچھتے ہیں، مگر ہمارے پاس جواب نہیں۔
پنجاب آرکیالوجی کے سابق ڈائریکٹر محمد حسن نے اس مقام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چولستان میں موجود تقریباً 500 آثار قدیمہ کی سائٹس میں گنویری والا سب سے نمایاں ہے۔ یہ علاقہ دریائے ہاکڑہ کے کنارے آباد تھا، جہاں کے باسی کھیتی باڑی اور مویشی پالنے سے وابستہ تھے۔
دوسری جانب کمشنر بہاولپور مسرت جبین نے اس بات کی تصدیق کی کہ ٹیم کو فنڈز جاری نہیں کیے گئے۔ ان کا مؤقف ہے کہ معاہدے کے مطابق نوادرات کا بین الاقوامی سطح پر تجزیہ کروا کر انہیں بہاولپور میوزیم کے حوالے کرنا تھا، مگر ٹیم نے یہ نوادرات لاہور منتقل کر دیے اور تاحال کسی عالمی لیبارٹری کی رپورٹ بھی پیش نہیں کی گئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی معیار کی تحقیق کے لیے حکومت کو رکاوٹیں نہیں بلکہ سہولتیں پیدا کرنی چاہئیں، تاکہ پاکستان کا قیمتی ثقافتی ورثہ محفوظ اور دنیا کے سامنے آسکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ گنویری والا کے مطابق ٹیم نے
پڑھیں:
کوئٹہ میں دل دہلا دینے والا واقعہ، دو کمسن بچیوں کی بوری بند لاشیں برآمد
کوئٹہ:بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے سریاب میں قمبرانی روڈ کے قریب کلی بنگلزئی سے بدھ کے روز دو کمسن بچیوں کی بوری بند لاشیں برآمد ہوئیں، جنہیں سفاکی سے سانس بند کرکے قتل کیا گیا۔
پولیس کے مطابق مقتولہ بچیوں کی شناخت 3 سالہ بی بی میرب اور 7 سالہ بی بی یسرا کے نام سے ہوئی ہے۔
لاشوں کو فوری طور پر قبضے میں لے کر سول ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے پوسٹ مارٹم کیا۔ ابتدائی رپورٹ میں بچیوں کی موت دم گھٹنے سے ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ حکام کے مطابق بچیوں کے والدین کے درمیان ڈیڑھ سال قبل علیحدگی ہوچکی تھی، جسے ممکنہ محرک کے طور پر بھی زیر تفتیش لایا جا رہا ہے۔ پولیس نے والدین سمیت قریبی رشتہ داروں سے پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔
سینئر پولیس افسر کے مطابق، جائے وقوعہ سے اہم شواہد اکٹھے کر لیے گئے ہیں جبکہ مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس تمام زاویوں سے تحقیقات کر رہی ہے اور اس کیس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
اس دلخراش واقعے کے بعد علاقے میں شدید خوف و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مقامی شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ معصوم بچیوں کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کر کے نشانِ عبرت بنایا جائے۔