مقررین نے قومی اتحاد، فرقہ واریت کے خاتمے اور قومی سلامتی پر زور دیا،ناظم اعلیٰ نظام المدارس پاکستان ڈاکٹر میر محمد آصف اکبر قادری کا دفاعِ وطن قومی یکجہتی کانفرنس سے خطاب میں کہنا  تھا کہ اسلام امن، بھائی چارے اور اتحاد کا درس دیتا ہے، نظام المدارس پاکستان نے دینی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ اسلام ٹائمز۔ ناظم اعلیٰ نظام المدارس پاکستان علامہ ڈاکٹر میر محمد آصف اکبر قادری نے کہا کہ دین اسلام امن، بھائی چارے اور اتحاد کا درس دیتا ہے، فرقہ واریت دشمن کا ہتھیار ہے، ہمیں اس کا سدباب کرنا ہو گا۔ ہمیں فرقہ واریت،لسانیت اور تعصب سے بالاتر ہو کر صرف پاکستان اور اتحاد امت کا سوچنا ہوگا۔ نظام المدارس پاکستان نے مدارس دینیہ کو قومی تعلیم و ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، ہم نے جدید تقاضوں کو سامنے رکھ کر نصاب تیار کیا ہے، مدارس کی رجسٹریشن کا مربوط نظام دیا جس کی بدولت ملک ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے آزاد ہوا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نظام المدارس پاکستان کے زیرِ اہتمام ٹاؤن ہال آرمی پبلک اسکول لیپہ آزاد کشمیر میں "دفاعِ وطن قومی یکجہتی کانفرنس" سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس میں مختلف مذہبی، سیاسی، سماجی اور عسکری حلقوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس کا مقصد وطن عزیز پاکستان کا دفاع، استحکام اور قومی یکجہتی کے فروغ کیلئے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینا تھا۔ علامہ ڈاکٹر میر آصف اکبر قادری نے وطن سے محبت، اتحاد ملت اور فرقہ واریت کے خامتے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو آج جس اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے، وہ تاریخ میں کبھی نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی و مسلکی اختلافات صرف دشمن کو فائدہ پہنچاتے ہیں، اس لیے قومی یکجہتی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ افواجِ پاکستان ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہیں، عوامی شعور اور قومی اتحاد ہی ملکی دفاع کی اصل طاقت ہیں۔

کانفرنس کے دیگر مقررین نےاپنی گفتگو میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ملک کی حفاظت، امن و استحکام اور ترقی کے لیے افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔کانفرنس میں  پرنسپل ڈگری کالج لیپہ پروفیسر ظفر اقبال ، چیئرمین پرائیویٹ اسکولز و کالجز آزاد کشمیر سید اشتیاق حسین بخاری،  مرکزی رہنما پیپلز پارٹی آزاد کشمیر شوکت جاوید میر، پیر عارف حسین مٹھوی، مولانا عبدالجبار، کرنل محمد عظیم، بشیر عالم مغل، علی اکبر جاوید، چوہدری اکبر دین، نور عالم میر، سید عابد بخاری، بدر منیر اعوان، سعید اختر اعوان، مولانا صدام قادری، قاری شفیق قادری، مشتاق شیخ، اسسٹنٹ کمشنر ذیشان نثار سمیت مختلف مکاتبِ فکر کی شخصیات شریک ہوئیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نظام المدارس پاکستان قومی یکجہتی فرقہ واریت

پڑھیں:

ٹرمپ مودی بھائی بھائی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت اور چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے ساتھ سر جوڑ کر کانا پھونسی کرکے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو پہلے ہی طے کر لیے گئے تھے۔ شنگھائی کانفرنس کے چند ہی دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر ایک سو ڈگری کی تبدیلی کرکے بھارت اور نریندر مودی کے لیے شیریں بیانی شروع کر دی۔ ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے ڈرانے دھمکانے کی زبان ترک کرکے بھارت کو امریکا کا دوست قرار دیتے ہوئے کہا وہ مودی سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ جس کے جواب میں نریندر مودی نے بھی ایکس پر لکھا کہ بھارت اور امریکا فطری حلیف ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری تجارتی بات چیت ہند امریکا شراکت کے لامحدود امکانات سے استفادے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے معاشی مشیر وی انتھانا گیشورن نے صاف لفظوں میں بتادیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی بنانے میں بھارت کے ملوث ہونے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ بھارت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی پر مختلف اوقات میں جو فردِ جرم عائد کی تھیں ان میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بھارت ڈالر کے متبادل نظام قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ امریکی معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ اب بھارت نے ایسی کسی منصوبے کا حصہ ہونے کی تردید کر دی۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں کے درمیان بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔ اس طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان عارضی اور وقتی بحران اب حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحرانی کیفیت پاکستان کے لیے مغرب کی سمت امکانات کی کھلنے والی واحد کھڑکی تھی جو اب ایک بار پھر بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات امریکا کی طرف سے بھارت کی کلائی مروڑے جانے پر جشن منارہے تھے اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی سوائے اس کے امریکا ایک بار پھر کچھ عرصہ کے لیے پاکستان پر معاشی اور سیاسی طور پر مہربان رہے۔ معاشی طور پر اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دھول اْڑتی رہے اور اس میں قاتل مقتول جارح ومجروح کے چہرے پہچاننا اور نشاندہی ہونا ناممکن رہے۔ امریکا کے زیر اثر برادر وغیر برادر ملک پاکستان کی معاشی ضرورتوں کو قرض کی صورت میں دیکھتے رہیں۔ سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جمہوری نظام کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے مغربی ادارے پاکستان کے سیاسی نظام اور یہاں تنگ ہوتی ہوئی آزادیوں سے اسی طرح غافل رہیں جیسے کہ وہ بھارت کے ان معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں۔ مصر میں تو ہم نے مغربی جمہوریت کے دعوؤں کا برہنہ اور بے گورو کفن لاش کو دیکھا تھا۔ جہاں تاریخ کے پہلے انتخابات میں پہلا منتخب نظام قائم ہوا مگر خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے قائم نظام کے لیے مستقبل بعید میں اْبھرنے والے خطرے کے خوف میں اس جمہوری نظام کا گلہ گھوٹ دیا گیا۔ ایک غیر منتخب نظام قائم ہوا اور نہ جمہوریت کے فروح کے قائم عالمی اداروں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا نہ ہی اس پر کوئی اختلافی آواز بلند کی۔ یوں مغربی نظام میں مرسی کا تختہ اْلٹنے کی مہم کے سیاسی پوسٹر بوائے محمد البرادی کی بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ محمد البرادی وہی ذات شریف ہیں جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کے طور پر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر روز بغداد میں دندناتے پھرتے تھے اور کبھی دوٹوک انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نہیں بنا رہا۔

بہرحال بھارت اور امریکا کے درمیان عارضی شنکر رنجی ختم ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا ہے۔ اب بھارت کی بہت سی کج ادائیاں ماضی کی طرح ایک بار پھر ادائے دلبرانہ بن جائیں گی۔ لازمی بات ہے کہ پاکستان اس خانے میں ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دے کر نئی بات نہیں کی۔ دنیا میں اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جنہیں امریکا نے نائن الیون کے بعد اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے۔ ایک اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کے لیے امریکا جس حد تک جا سکتا ہے اس کا مظاہرہ آج کل مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ امریکا کی مخاصمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم یا زیادہ بھارت ہی امریکا کی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔ بھارت کا یہ پوٹینشل اسے امریکا کا فطری حلیف بنائے ہوئے ہے۔ بھارت امریکا کے لیے بروئے کار آنے کے لیے تیار ہے مگر وہ چین کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہونے اور روس کے ساتھ امریکی ہدایات پر مبنی تعلقات کے قیام سے انکاری ہے۔ ان دونوں معاملات کا تعلق بھارت کے طویل المیعاد مقاصد سے ہے۔ اس عارضی ماحول میں پاکستان کے لیے مغرب میں جو وقتی گنجائش پیدا ہورہی تھی اب یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے کسی نئے انداز سے ڈومور کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں۔ یہ ڈومور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر بھی ہو سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لندن، ہائی کمیشن میں یوم دفاع کی تقریب، سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی
  • مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
  • پاکستان ہائی کمیشن لندن میں یوم دفاع کی تقریب، سیلاب متاثرین سے اظہارِ یکجہتی
  • پاک بھارت ٹاکرے میں میچ ریفری کا تنازع، قومی ٹیم نے دبئی میں شیڈول پریس کانفرنس ملتوی کر دی
  • مظفر آباد، آل پارٹیز حریت کانفرنس کے زیراہتمام سیمینار
  • وزیراعظم شہباز شریف کی امیرِ قطر سے ملاقات، امت مسلمہ کے اتحاد پر زور
  • ’’امت مسلمہ کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے‘‘ وزیراعظم کا امیرِ قطر سے ملاقات میں اظہارِ یکجہتی
  • آفات کو اصلاح احوال کا موقع جانیں، پروفیسر ڈاکٹر حسن قادری
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی
  • پشاور، اتحاد امت و استحکام پاکستان کانفرنس