پاکستان-امریکا تجارتی معاہدہ: کامیابی، چال یا نئے عالمی نظام کا جال؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ دنوں طے پانے والے ممکنہ تجارتی معاہدے نے عالمی سیاست میں نئی حرارت پیدا کر دی ہے۔ جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان کے لیے ایک نئی معاشی راہ کھولتا ہے بلکہ بھارت کے لیے سفارتی دھچکا بھی بن چکا ہے، خاص طور پر اس وقت جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف (ٹیکس) عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔
ایک طرف پاکستان کے سرکاری حلقے اسے تاریخی کامیابی قرار دے رہے ہیں، تو دوسری طرف کچھ مبصرین اس پیش رفت کو امریکا کی عالمی شطرنج کی نئی چال قرار دے رہے ہیں، جس کا مقصد چین، روس اور مسلم دنیا میں توازنِ قوت کو نئی سمت دینا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے:
کیا یہ معاہدہ پاکستان کے لیے واقعی ایک موقع ہے؟ یا یہ صرف نئے عالمی نظام (New World Order) کا دباؤ ہے؟
پاکستان کے لیے ممکنہ فوائداگر یہ معاہدہ قومی مفاد اور شفاف حکمت عملی کے تحت استعمال کیا جائے، تو پاکستان کئی معاشی و سفارتی فوائد حاصل کر سکتا ہے:
برآمدات میں نمایاں اضافہامریکا دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ اگر پاکستان کو ترجیحی تجارتی رسائی (Preferential Market Access) یا ٹیرف فری ایکسپورٹ کی اجازت ملتی ہے، تو پاکستان کی ٹیکسٹائل، سرجیکل، لیدر، فارماسیوٹیکل اور آئی ٹی مصنوعات کی برآمدات میں انقلاب آ سکتا ہے۔
روزگار اور صنعت کا فروغبرآمدات بڑھنے سے مقامی صنعتیں متحرک ہوں گی، جس سے لاکھوں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے۔
سرمایہ کاری کے مواقعیہ معاہدہ امریکی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر سکتا ہے۔ زراعت، انرجی، آئی ٹی اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبوں میں جوائنٹ وینچر بن سکتے ہیں، جن سے ٹیکنالوجی اور گورننس کی بہتری ممکن ہے۔
زرمبادلہ میں بہتریڈالر میں برآمدات بڑھنے سے زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں گے اور روپے کی قدر بہتر ہو سکتی ہے، جس سے مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔
عالمی ساکھ اور پوزیشننگایک بڑی عالمی طاقت سے معاشی تعلقات پاکستان کی عالمی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ IMF، FATF اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔
بھارت پر سفارتی دباؤٹرمپ حکومت کی جانب سے بھارت پر ٹیرف اور پاکستان سے قریب تر رابطے، خطے میں امریکہ کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کی علامت ہیں۔ بھارت، جو امریکا کا اسٹریٹیجک پارٹنر سمجھا جاتا رہا، اب دباؤ میں ہے
کیا یہ وقتی دوستی ہے یا دیرپا شراکت داری؟تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ اپنی وقتی ضرورت کے مطابق استعمال کیا:
افغان جہاد میں فرنٹ لائن اتحادی بنایا؛
نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیا؛
اور اب چین کے اثر کو روکنے کے لیے پھر قریب آ رہا ہے۔
یہی سوال جنم لیتا ہے کہ کیا پاکستان ایک بار پھر کسی بڑی عالمی سازش کا ایندھن بننے جا رہا ہے؟ کیا یہ معاہدہ صرف سی پیک کو متنازع بنانے اور چین کو محدود کرنے کا حربہ تو نہیں؟
’نیو ورلڈ آرڈر‘ کا خطرناک پہلو’نیو ورلڈ آرڈر‘ محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ ایک جاری عمل ہے جس میں بڑی طاقتیں اپنے معاشی اور فوجی اثرات سے چھوٹے ممالک کو اپنی صف بندیوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
روس-یوکرین جنگ؛
چین-تائیوان کشیدگی؛
مشرق وسطیٰ میں تبدیلی؛
یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا ایک نئے بلاک سسٹم کی طرف بڑھ رہی ہے۔
بینالاقوامی تجارتی اور قانونی امور کے ماہر معید الرحمان کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان، ایران اور افغانستان کی سرحدی پوزیشن کو استعمال کر کے چین اور روس کے خلاف ایک جغرافیائی دیوار بنائے۔
ان کے مطابق پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ خود کو کسی بلاک میں شامل کرے یا توازن کی پالیسی اختیار کرے۔
پاکستان کو کن نکات پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے؟ معاہدے کی شفافیت:خفیہ شقیں پاکستان کو بعد ازاں نقصان پہنچا سکتی ہیں، جیسا کہ ماضی میں کئی معاہدوں کا انجام ہوا۔
قومی خودمختاری کا تحفظ:کسی بھی اقتصادی رعایت کے بدلے اگر خارجہ پالیسی، دفاعی خودمختاری یا چین سے تعلقات پر سمجھوتہ کیا گیا تو نقصان دہ ہوگا۔
متوازن خارجہ پالیسی:چین، ترکی، سعودی عرب، ایران اور خلیجی ممالک سے بھی تعلقات میں توازن رکھنا ضروری ہے۔
قانونی و ادارہ جاتی اصلاحات:امریکا جیسے ملک سے تجارتی روابط کے لیے پاکستان کو شفاف کاروباری ماحول، مؤثر عدالتی نظام اور کرپشن فری ادارے بنانے ہوں گے۔
نتیجہ: جیت یا جال؟یہ معاہدہ اگر پاکستان کے مفاد میں صحیح طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو یہ ایک معاشی اور سفارتی کامیابی ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن اگر یہ معاہدہ نئے عالمی نظام کی ایک سازش کا حصہ نکلا، تو پاکستان پھر ایک بار اپنے فیصلوں کا خمیازہ بھگتے گا۔
بین الاقوامی مالیاتی امور سے وابستہ شہزاد افضل کے مطابق اب وقت ہے کہ پاکستان ’جذباتی سفارت کاری‘ کی بجائے ’حکمت عملی پر مبنی معاشی آزادی‘ کو اپنائے۔ ہر رعایت، ہر معاہدہ، اور ہر دوستی کو صرف ایک اصول پر پرکھا جائے:
کیا یہ پاکستان کے مفاد میں ہے؟ اگر نہیں — تو تاخیر سے بہتر ہے انکار۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان کو پاکستان کے یہ معاہدہ کے مطابق سکتا ہے کیا یہ کے لیے
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل نہیں ہوسکتا، عالمی ثالثوں کی پاکستانی مؤقف کی حمایت
پاکستان کے اقوام متحدہ میں سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ بین الاقوامی ثالثوں نے واضح کردیا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل نہیں ہوسکتا اور پاکستان کے مؤقف کی توثیق کردی ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے اقوام متحدہ میں سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مؤقف کہ سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) یکطرفہ طور پر معطل نہیں کیا جا سکتا، بین الاقوامی ثالثوں نے برقرار رکھا ہے، جس سے ایک بار پھر اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ معاہدہ مکمل طور پر قائم ہے اور دونوں ممالک کے لیے لازم ہے۔
اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک میں مسلم امریکن لیڈرشپ الائنس (ایم اے ایل اے) کے زیراہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ بھارت پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ مستقل ثالثی عدالت (پی سی اے) پہلے ہی جون اور اگست 2025 میں دو الگ الگ فیصلوں میں پاکستان کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے اور بھارت کے اقدامات کو بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دے چکی ہے۔
عاصم افتخار نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلے کسی ابہام کی گنجائش نہیں چھوڑتے، کسی بھی فریق کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا ختم کرے، سندھ طاس معاہدہ زندہ ہے اور اس کی شقیں دونوں ممالک پر لازم ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ پانی کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کا مطلب لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی حق سے محروم کرنا ہے اور یہ اقدام ایک ایسے خطے میں نیا تنازع کھڑا کرسکتا ہے جو پہلے ہی غیر یقینی حالات کا شکار ہے۔
قانونی پہلو
تقریب میں ماہرین قانون نے کہا کہ بھارت کا یکطرفہ فیصلہ کسی قانونی بنیاد پر قائم نہیں، آزاد ماہر ڈاکٹر کشور اُپریٹی نے کہا کہ دہشت گردی کے الزامات کو بین الاقوامی قانون کے تحت سنگین خلاف ورزی قرار نہیں دیا جا سکتا اور یاد دہانی کرائی کہ معاہدے میں کسی قسم کی اخراج کی شق شامل نہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس معاہدے کی معطلی یا خاتمہ پورے ایشیا اور اس سے آگے تک دور رس نتائج پیدا کرے گا اور بھارت پر تنقید کی کہ اس نے معاہدے کے تحت موجود تنازع حل کرنے کے طریقہ کار کو نظرانداز کیا۔
قانونی ماہر اور ثالثی کے ماہر شاہمیر حلیپوٹھہ نے سندھ طاس معاہدے کو جنوبی ایشیا کا سب سے پائیدار تعاون کا فریم ورک قرار دیا لیکن کہا کہ اس کے تنازع حل کرنے کے نظام کو جدید بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ایک ہی ثالثی عدالت کے تحت دائرہ اختیار کو مضبوط کیا جائے تاکہ عمل تیز تر ہو اور کہا کہ ورلڈ بینک کی حالیہ خاموشی نے اس کے ضامن کے کردار کو کمزور کر دیا ہے۔
ورلڈ بینک کے سابق ماہر آبی امور ڈاکٹر مسعود احمد نے واضح کیا کہ سندھ طاس معاہدہ محض ایک سیاسی معاہدہ نہیں بلکہ ایک انجینئرنگ فریم ورک ہے جس نے پورے بیسن میں وسیع ڈھانچے کی تعمیر ممکن بنائی۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ صرف ایک دستاویز نہیں ہے بلکہ یہ زمینی حقائق کی عکاسی کرتا ہے جنہیں نہ تو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی معطل رکھا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر مسعود نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کو معاہدے کے فوائد کو محفوظ رکھنے کے لیے بیک وقت پانی کے استعمال کی کارکردگی بہتر بنانی چاہیے، آبپاشی کے نظام کو مضبوط کرنا چاہیے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے جھٹکوں کے خلاف لچک پیدا کرنی چاہیے۔
ماہر قانون بیرسٹر داؤد غزنوی نے کہا کہ بھارت کی جانب سے ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا فراہم کرنے سے انکار نے پاکستان میں سیلاب، بے گھری اور بڑے پیمانے پر ہجرت کو پہلے ہی بدتر بنا دیا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کو زندگی کی اہم ضرورت سے محروم کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تقریباً 45 فیصد روزگار براہِ راست سندھ طاس کے نظام پر منحصر ہے۔
داؤد غزنوی نے ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ سے ثالثی میں اپنا کردار دوبارہ ادا کرنے پر زور دیا اور سول سوسائٹی سے معاہدے پر عمل درآمد کا مطالبہ کرنے کی اپیل کی۔
ایم اے ایل اے کی چیئرپرسن ماہا خان نے انسانی ہمدردی کی نوعیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی سلامتی اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کا مرکزی ستون ہے۔
انہوں نے اس بحران کو روزگار، استحکام اور انسانی وقار کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا اور مزید بگاڑ کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر فوری کارروائی کی اپیل کی۔
Post Views: 2