اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) مزاحیہ سیریز کا یہ منظر تاریخی تھا۔ ایک سنجیدہ برطانوی شہری 'وزارتِ مضحکہ خیز چال‘ کے ایک انتہائی سنجیدہ ملازم کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی چال کو مزید مضحکہ خیز بنانے کے لیے سرکاری مالی امداد کی ضرورت ہے۔

لیکن سرکاری ملازم (اداکار جان کلیز)، جو خود عجیب و غریب انداز میں کمرے میں چلتا پھرتا ہے، اسے بتاتا ہے کہ دفاع، سماجی تحفظ، صحت، رہائش اور تعلیم پر بھاری سرکاری اخراجات کی وجہ سے ''مضحکہ خیز چالوں‘‘ کے لیے فنڈز تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔

پچھلے سال اس وزارت کو صرف 348 ملین پاؤنڈ ملے تھے۔

سن 1970 میں انگریزی مزاحیہ گروپ مونٹی پائتھن کے اس خاکے نے دنیا بھر میں بے شمار نقل کرنے والوں کو متاثر کیا، نہ صرف دولت مشترکہ ممالک میں بلکہ اس سے باہر بھی۔

(جاری ہے)

وزارتیں اور حکومتی کابینہ کی ساخت اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کوئی ملک یا اس کی حکومت کس چیز کو ترجیح دیتی ہے۔

جاپان کی 'کول جاپان‘ وزارت

جاپان میں ایک ریاستی وزیر برائے 'کول جاپان‘ ہیں، جن کا نام منورو کیوچی ہیں۔

ٹوکیو کی 'کول جاپان‘ وزارت کا مقصد عالمی سطح پر جاپان کو ثقافتی طاقت کے طور پر متعارف کرانا ہے۔ اس میں نہ صرف جاپانی ریستورانوں اور چھڑیوں کی ثقافت شامل ہے بلکہ انتہائی منافع بخش تفریحی شعبہ بھی، جیسے ویڈیو گیمز، مانگا، اینیمی کردار اور ہیلو کٹی بھی شامل ہیں۔ یہ سب اس ریاستی وزیر کے ذمے ہے۔ اسرائیل کی غیر معمولی وزارتیں

اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی چھٹی کابینہ کو کئی قوم پرست-مذہبی اور یہاں تک کہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو شامل کرنے کے لیے غیر معمولی وزارتیں بنانا پڑیں۔

مثال کے طور پر اوریت سٹروک 'وزارت برائے بستیاں اور قومی منصوبے‘ کی وزیر ہیں، جبکہ امیچائی ایلیاہو 'امور برائے یروشلم اور اسرائیلی روایات‘ کے وزیر ہیں۔

اسی طرح مائیکل مالچیلی 'مذہبی خدمات‘ کے وزیر ہیں، جو مذہبی غسل خانوں، یہودی مقدس مقامات کی نگرانی، تورات کی تعلیم، مذہبی تقریبات اور بیرون ملک مقیم یہودیوں سے رابطوں کے ذمہ دار ہیں۔

انہیں تدفین کے انتظامات کی بھی نگرانی کرنا پڑتی ہے، جس کے لیے شاید 'یہودی روایات کے وزیر‘ سے رابطہ ضروری ہو۔ برطانیہ اور جاپان میں وزارت 'تنہائی‘

برطانیہ نے 2018 میں دنیا میں پہلی بار 'وزارت برائے تنہائی‘ قائم کی، جو کھیلوں کے کلبوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کرتی تھی۔ اس کا مقصد لوگوں کو تنہائی اور گمنامی سے نکالنا تھا لیکن ایک سال بعد بوریس جانسن نے اس وزارت کو ختم کر دیا۔

جاپان نے 2021 میں اس کی نقل کی اور ٹیٹسوشی ساکاموٹو کو پہلا وزیر بنایا۔ بعد میں سیکو نوڈا نے یہ ذمہ داری سنبھالی، جن کے پورٹ فولیو میں تنہائی، صنفی مساوات اور کم شرح پیدائش کے مسائل شامل تھے۔ تاہم اکتوبر 2024 میں ایوکو کاٹو کے ایک سال بعد جاپان نے یہ وزارت ختم کر دی، جبکہ 'کول جاپان‘ برقرار رہی۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت 'خوشی‘

متحدہ عرب امارات نے 2016 سے 2020 تک 'وزارت برائے خوشی اور بہبود‘ قائم کی۔

وزیر عہود الرومی کا ایجنڈا سات متحرک امارات کو دنیا کا خوشحال ترین مقام بنانا تھا، حالانکہ تارکین وطن مزدوروں، گھریلو ملازمین اور ہم جنس پسندوں کے لیے انسانی حقوق کی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ الرومی خوش قسمت رہیں کیونکہ بعد میں وہ 'ہیومن کیپیٹل اتھارٹی اور مستقبل‘ کی سربراہ بن گئیں۔ جرمن طلبہ کا 'خوشی‘ منصوبہ

کیا امارات نے یہ خیال جرمنی سے چوری کیا؟ سن 2012 میں منہائم کے طلبہ نے 'وزارت برائے خوشی اور بہبود‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی تاکہ جرمنی میں 'قومی خوشی‘ بڑھائی جائے اور معاشرے میں اقدار کی تبدیلی لائی جائے۔

تاہم اس سے کوئی سرکاری ادارہ نہ بن سکا۔ بھارت کی وزارت برائے 'یوگا‘

بھارت میں نریندر مودی کی حکومت کے تحت شریپد یسو نائیک، جو اب 72 سال کے ہیں، کئی وزارتوں کے سربراہ رہ چکے ہیں، لیکن ان کا مستقل پورٹ فولیو ' یوگا، نیچروپیتھی، یونانی اور ہومیوپیتھی‘ کی وزارت ہے۔ یہ نظریات ہندو قوم پرست بی جے پی پارٹی کی ترویج کرتے ہیں۔ کچھ سال قبل نائیک نے دعویٰ کیا کہ ''یوگا سے کینسر کا علاج ممکن‘‘ ہے، جو انہیں برطانوی سلطنت کی اس 'وزارتِ مضحکہ خیز چال‘ سے جوڑتا ہے، جہاں سے یہ سب شروع ہوا تھا۔

ادارت: رابعہ بگٹی

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے وزیر کے لیے

پڑھیں:

زیارت: خشک سالی اور حکومتی بے توجہی نے پھلوں کے بیشتر باغات اجاڑ دیے

بلوچستان کا خطہ جہاں کبھی بارشوں کی رم جھم اور برفباری سے وادیاں لہلہاتی تھیں آج خشک سالی کی لپیٹ میں آکر اپنی زرخیزی کھو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جنگلی ڈرائی فروٹ جو صرف بلوچستان میں کھایا جاتا ہے

زیارت کے رہائشی اور سیب کے باغ کے مالک مقدس احمد نے کئی دہائیوں سے اپنے باغات کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق زیارت کے سیب صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنی خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں لیکن اب یہ پہچان خطرے میں ہے۔

مقدس احمد بتاتے ہیں کہ سنہ 2022 کے بعد سے بارشوں کی کمی نے ان کے باغات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر سال باغ کا ایک حصہ سوکھ کر ختم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو آنے والے برسوں میں ہمارے باغات ریگستان میں بدل جائیں گے۔

ان کی آواز میں مایوسی کے ساتھ ساتھ زمین سے جڑی محبت بھی جھلکتی ہے اور یہ تشویش صرف ایک باغبان کی نہیں بلکہ بلوچستان کے ہزاروں باغبانوں اور کسانوں کی ہے۔

مزید پڑھیے: بلوچستان: قلعہ عبداللہ میں 27 اقسام پر مشتمل انگور کا سب سے بڑا باغ

 کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹ کا کہنا ہے کہ رواں برس صوبے میں ماضی کے مقابلے میں بارشیں بہت کم ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ چوں کہ بارش کے پانی سے زیر زمین سطح بہتر ہوتی ہے لیکن وہ نہ ہونے کے سبب پانی اب 1000 سے 1500 فٹ نیچے جا چکا ہے۔

ان کے مطابق حکومت نے سولر ٹیوب ویل منصوبوں کا وعدہ کیا تھا مگر اس پر جزوی عملدرآمد ہوا جس سے کسان مزید مشکلات کا شکار ہوئے۔

 خالد حسین باٹ نے کہا کہ پانی کی قلت اور برف باری میں کمی کے باعث نہ ڈیم بھر سکے اور نہ ہی زمین کو سیرابی ملی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں 25 سے 30 فیصد تک کمی واقع ہوگئی۔

مزید پڑھیں: فروٹ باسکٹ ’کوئٹہ‘ کا سیب ملک میں سب سے لذیذ، مگر کیوں؟

اس خطرناک صورتحال پر ماہرین بھی متنبہ کر رہے ہیں۔ ماہر ارضیات دین محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے بلوچستان کو شدید متاثر کیا ہے۔

دین محمد کاکڑ نے کہا کہ ملک کے دیگر حصے اس وقت اربن فلڈنگ اور طوفانی بارشوں کا سامنا کر رہے ہیں لیکن بلوچستان مسلسل خشک سالی کی لپیٹ میں ہے۔

ان کے مطابق صوبے کے شمالی علاقوں میں زیر زمین پانی کو سولر ٹیوب ویل کے ذریعے بے تحاشہ نکالا جا رہا ہے مگر اس کی بحالی کے لیے بارشیں نہیں ہو رہیں اور نتیجتاً ہر گزرتے سال پانی کی سطح مزید نیچے جا رہی ہے۔

دین محمد کاکڑ نے ماضی کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے شمالی اضلاع میں کبھی کاریزوں (زیر زمین آبپاشی کی نقل و حمل کا نظام) کے ذریعے باغبانی ہوتی تھی جہاں پانی کے منظم استعمال نے زراعت کو سہارا دیا مگر آج تقریباً تمام کاریزیں خشک ہیں اور کسان صرف زیر زمین پانی پر ہی انحصار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر واٹر مینجمنٹ پالیسی نہ بنائی تو آنے والے برسوں میں بلوچستان کے سرسبز علاقے ریگستان کا منظر پیش کرنے لگیں گے۔

یہ بھی پڑھیے: کوئٹہ کے پھل اسلام آباد میں آن لائن کیسے فروخت ہو رہے ہیں؟

خشک سالی کی یہ داستان بلوچستان کے قدرتی حسن، زراعت اور معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور سیب کے باغات، انگور کی بیلیں اور انار کے باغ سب ہی پانی کے منتظر ہیں۔ مقدس احمد اور ان جیسے ہزاروں باغبان آج صرف بارش کے چند قطروں کی دعا کر رہے ہیں تاکہ ان کے باغات جن پر ان کی نسلوں کی محنت لکھی ہے ہمیشہ سرسبز رہ سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان بلوچستان سیب بلوچستان فروٹ بلوچستان فصلیں زیارت زیارت سیب

متعلقہ مضامین

  • اسکرین پر والد کے دوست کی دوسری بیوی بنی، عجیب کیفیت کا سامنا رہا، تارا محمود
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، سوشل میڈیا پر لوگوں کی خوشی دیدنی
  • اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ رانا تنویر حسین گنے کی فصل پر کیڑوںکے حملے کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں
  • راولپنڈی:وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار محمد رضا حیات سے ایران کے سفیر رضا امیری مقدم ملاقات کررہے ہیں
  • وزیراعظم نے جاپان کے ساتھ صنعتی تعاون بڑھانے کیلئے اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کر دی
  • معاشی بہتری کے حکومتی دعووں کی قلعی کھل گئی
  • سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے عالمی اداروں کو شامل کرنے کا فیصلہ
  • زیارت: خشک سالی اور حکومتی بے توجہی نے پھلوں کے بیشتر باغات اجاڑ دیے
  • کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک ملاقات کررہے ہیں
  • وفاقی وزیر برائے آبی وسائل کی سیلابی صورتحال پر بریفنگ