صدر ٹرمپ کا ’روس کے قریب‘ جوہری آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) صدر ٹرمپ کا ’روس کے قریب‘ جوہری آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو جوہری آبدوزیں ’روس کے قریب‘ مناسب علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ پیشرفت واشنگٹن اور ماسکو کے مابین جاری لفظی جنگ کو ایک سنگین عسکری رخ دے رہی ہے۔
ٹرمپ نے روسی قومی سکیورٹی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین دمتری میدویدیف کے حالیہ بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ انہوں نے یہ قدم ’’احمقانہ اور اشتعال انگیز‘‘ روسی بیانات کے تناظر میں اُٹھایا ہے تاکہ اگر ان بیانات سے آگے کوئی اقدام ہوا تو امریکہ تیار ہو۔(جاری ہے)
جمعہ کی شب نیوز میکس ٹی وی کو انٹرویو میں ٹرمپ نے واضح کیا کہ آبدوزیں ’’روس کے قریب‘‘ تعینات کی گئی ہیں اور یہ فیصلہ انہوں نے میدویدیف کے ’’جوہری‘‘ حوالے سے دیے گئے بیانات کے بعد کیا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’جب کوئی جوہری کا لفظ استعمال کرے، تو میں سنجیدگی سے لیتا ہوں۔ یہ حتمی خطرہ ہوتا ہے۔‘‘یہ کشیدگی ایسے وقت میں بڑھی ہے، جب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ملک نے اوریشنک نامی ہائپرسانک جوہری صلاحیت والے میزائل کی بڑے پیمانے پر تیاری شروع کر دی ہے، جنہیں سال کے اختتام تک بیلا روس میں نصب کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ نے روس کو اگلے ہفتے تک یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کا الٹی میٹم دیا ہے، بصورتِ دیگر نئی پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔ اس کے باوجود روسی افواج یوکرین پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں جولائی کے دوران ڈرون حملوں کی ریکارڈ تعداد دیکھی گئی ہے۔
دوسری طرف میدویدیف نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کو ’’الٹی میٹم کھیلنے والا‘‘ قرار دیا اور روس کی جوہری طاقت کی یاد دہانی کرواتے ہوئے ’’ڈیڈ ہینڈ‘‘ سسٹم کا حوالہ دیا، جو سرد جنگ کے دوران تیار کردہ ایک خفیہ خودکار جوہری ردعمل کا نظام تھا۔
ٹرمپ نے جواباً انہیں ’’ناکام سابق صدر‘‘ قرار دے کر خبردار کیا کہ وہ ’’خطرناک حدود‘‘ میں داخل ہو رہے ہیں۔میدویدیف، جو 2008 سے 2012 تک روس کے صدر رہے اور بعد ازاں پوٹن کے صدر بننے کی راہ ہموار کرتے رہے، اب روسی بیانیے کے ایک جارح آن لائن ترجمان بن چکے ہیں، اگرچہ ان کا اصل سیاسی اثر ورسوخ محدود سمجھا جاتا ہے۔
ادھر یوکرین میں جمعے کو دارالحکومت کییف میں حالیہ روسی حملے میں ہلاک ہونے والے 31 افراد کی یاد میں یوم سوگ منایا گیا، جن میں پانچ بچے بھی شامل تھے۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک بار پھر پوتن سے براہ راست ملاقات کی پیشکش دہرائی، یہ مؤقف اپناتے ہوئے کہ جنگ کا خاتمہ صرف پوٹن کے ہاتھ میں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے روس کے قریب جوہری ا ٹرمپ کا کا حکم
پڑھیں:
ایران میں جوہری معائنہ کاروں کی واپسی مفاہمت کی جیت، رافائل گروسی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 15 ستمبر 2025ء) جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی نے کہا ہے کہ ایران میں ادارے کے معائنہ کاروں کی واپسی اور تنصیبات پر حفاظتی انتظامات کی بحالی سے ملک کے جوہری مسئلے کو حل کرنے کے لیے معاہدوں اور مفاہمت میں مدد ملے گی۔
'آئی اے ای اے' کی جنرل کانفرنس کے 69 ویں باقاعدہ اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ دنیا کو نہایت مشکل وقت کا سامنا ہے اور عالمگیر جوہری مسائل کا پائیدار حل نکالنے کے لیے بات چیت کا کوئی متبادل نہیں۔
Tweet URLانہوں نے کہا کہ جون میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد 'آئی اے ای اے' کو اپنے معائنہ کار ملک سے واپس بلانا پڑے لیکن گزشتہ ہفتوں میں اس نے جوہری حفاظتی اقدامات پر مکمل عملدرآمد کو بحال کرنے کی غرض سے ایران کے ساتھ عملی اقدامات کیے ہیں۔
(جاری ہے)
ان کوششوں کے نتیجے میں گزشتہ ہفتے فریقین کے مابین قاہرہ میں ایک معاہدہ طے پایا اور اب اس معاہدے پر عملدرآمد کا وقت آ پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ ادارہ شام میں بھی اپنا تصدیقی کام انجام دے رہا ہے جہاں نئی (عبوری) حکومت نے مکمل شفافیت کے ساتھ تعاون پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ جب یہ عمل مکمل ہو جائے گا تو اس سے شام کی سابقہ جوہری سرگرمیوں کے مسئلے کا مستقل حل برآمد ہو گا اور ملک کے لیے بین الاقوامی برادری میں دوبارہ شامل ہونے کی راہ ہموار ہو گی۔
جوہری عدم پھیلاؤ کے مسائلڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کا عالمی نظام شدید دباؤ کا شکار ہے جس کا تحفظ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ اب ایسے ممالک کی جانب سے بھی مسائل سامنے آ رہے ہیں جن کی این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ) کے تحت وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے اچھی شہرت رہی ہے۔
اب یہ ممالک کھلے عام بات کر رہے ہیں کہ انہیں جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہئیں یا نہیں۔انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اس نظام سے دوبارہ وابستگی اختیار کریں جو انتہائی پرآشوب دور میں بھی بین الاقوامی امن کی ایک اہم ترین بنیاد رہا ہے۔
موسمیاتی مسائل کا جوہری حلڈائریکٹر جنرل نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں جوہری توانائی کے کردار کو بھی اجاگر کیا اور کہا اب توقع کی جا رہی ہے کہ 2050 تک جوہری توانائی کی پیداواری صلاحیت میں دو اعشاریہ پانچ گنا اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ جوہری توانائی کے فوائد اور تحفظ کے حوالے سے اس کے شاندار ریکارڈ کی بدولت دنیا بھر میں اس کے لیے دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت 40 ممالک جوہری توانائی کے مختلف مراحل پر کام کر رہے ہیں جبکہ مزید 20 ممالک اسے اپنے توانائی کے نئے نظام کا حصہ بنانے پر غور کر رہے ہیں۔
رافائل گروسی کا کہنا تھا کہ جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مدد کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے جوہری ضوابط کو نئی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا اور ان ممالک کو ضروری مالی معاونت بھی مہیا کرنا ہو گی۔