ہمارے ملک میں برسوں سے بے حسی، مفاد پرستی اور ریاستی غفلت عروج پہ ہیں اورکراچی کا تو لگتا ہے، گویا کوئی پرسان حال نہیں۔ لیاری کی ایک پرانی بوسیدہ عمارت گرگئی،کئی زندگیاں ملبے تلے دفن ہوگئیں اور تب احساس ہوا کہ ہم میں سے بہت سوں کی چھتیں کمزور ہو چکی ہیں۔
جب لیاری کی اس عمارت کی اینٹیں زمین سے ٹکرائیں توکوئی ایک گھر نہیں ٹوٹا، کئی خاندان بکھرگئے اور پھر ایک بار پھر ہماری حکومت بیدار ہوئی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے ہنگامی سرکلر جاری کیے جس کے بعد گلستانِ جوہر، شاہ فیصل کالونی اور دیگر علاقوں میں مخدوش قرار دی گئی عمارتوں کو فوری خالی کرانے کے احکامات دیے گئے۔اگر کوئی عمارت انسانی جان کے لیے خطرہ ہے تو اس میں رہنا انتہائی تشویش کی بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب یہ عمارتیں بن رہی تھیں تو ریاست کہاں تھی؟ جب رہائشی پلاٹوں پر آٹھ آٹھ منزلہ کمرشل عمارتیں بن رہی تھیں، جب یہ سب ہو رہا تھا، جب غیرقانونی تعمیرات ہو رہی تھیں تو تب ان اداروں نے آنکھیں بند کیوں کیں؟
گلستانِ جوہر میں آج قدم قدم پر ایسی عمارتیں ہیں جو قانون اور انجینئرنگ کے ہر اصول کی خلاف ورزی ہیں۔ جہاں صرف دو منزلوں کی اجازت ہے، وہاں آٹھ منزلہ فلیٹس تعمیر ہو چکے ہیں اور سب لیز ہو چکے ہیں۔ پلاٹ رہائشی تھے، عمارت کمرشل بنی اور مکینوں کو پتا ہی نہیں کہ وہ جس گھر میں رہتے ہیں وہ دراصل ایک خطرناک دھوکا ہے۔ یہ دھوکا اکیلا بلڈر نہیں دیتا، یہ پورا نظام دیتا ہے۔ہم جانتے ہیں ان سب کی پشت پر وہ ادارے کھڑے ہوتے ہیں جنھیں ان عمارتوں کی منظوری دینی ہوتی ہے یا جن کی ذمے داری ہوتی ہے کہ غیرقانونی تعمیرات کو روکا جائے مگر یہاں سب کچھ پیسہ طے کرتا ہے۔ کسی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کے ایک غلط فیصلے یا دستخط سے آگے جا کر املاک کا یا انسانی جان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ کیسا نظام ہے کہ جو جرم کرتا ہے، وہ بلڈرکروڑوں کماتا ہے، جو مجرمانہ غفلت کرتا ہے، وہ افسر ترقی پاتا ہے اور جو بے قصور ہے یعنی عام مکین، وہ بے گھر ہوتا ہے؟ یہ کون سا انصاف ہے کہ ادارے برسوں سے خاموش ہیں اور پھر اچانک دروازے پر نوٹس چسپاں کر دیا جاتا ہے کہ یہ عمارت خالی کریں اور پھر وہ لوگ جن کا اس شہر میں نہ کوئی پرسان حال ہے نہ کوئی آسرا، وہ کہاں جائیں؟
میں خود گلستانِ جوہرکے ایک فلیٹ میں زندگی گزار رہی ہوں، میں ایک لکھاری ہوں، میری طاقت میرا قلم ہے اور میری چھت ہی میرا واحد ٹھکانہ۔ اس گھرکو میں نے برسوں پہلے قسطوں پر خریدا تھا اور چند برس قبل تک اس کی قسط جاتی رہی ہے۔ اس عمارت کے فلیٹوں کی حالت اچھی نہیں مگر مکینوں کے لیے یہ آسان نہیں کہ وہ اس میں رنگ روغن یا دیگر کام کروا سکیں، اگر کل کو مجھے یا یہاں رہنے والوں کو یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ یہ عمارت مخدوش ہے تو یہ ریاست اور حکومت ہمارے لیے کیا کرسکے گی۔
ہمیں تحفظ کون فراہم کرے گا، یہ ہزاروں لوگوں کا مسئلہ ہے۔ لوگ بڑی مشکلوں سے اپنے لیے ایک گھر بنا پاتے ہیں۔ میں اور میرے جیسے لوگ ساری عمر محنت مشقت کرتے ہیں تب کہیں جاکر ایک فلیٹ بک کروا پاتے ہیں اور برسوں اس کی قسط ادا کرتے ہیں، جب قسط ادا ہوجاتی ہے تو ہم عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں کہ صحت اور وقت دونوں ساتھ چھوڑ چکے ہوتے ہیں مگر یہ اطمینان ہوتا ہے کہ اپنی چھت ہے اور پھر یہ پتا چلتا ہے کہ وہ چھت تو مخدوش ہے اور حکومت اس پر ایکشن لے سکتی ہے اور وہ عمارت خالی کروائی جاسکتی ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جیسے لوگ کہاں جائیں اور کیا کریں؟ آج کراچی میں ہر دوسری عمارت سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ رہائش ایک کاروبار بن چکا ہے جس میں انسانی ضرورت کی جگہ منافع نے لے لی ہے۔ زمین جو پہلے زمیندار کے قبضے میں تھی اب بلڈر کے ہاتھ میں ہے۔
یہ نظام سرمایہ دارانہ حرص کا عکاس ہے جہاں رہائشی منصوبے نہیں بنتے صرف منافع کے قلعے کھڑے کیے جاتے ہیں اور جب وہ قلعے گرنے لگیں تو کہا جاتا ہے قصور مکینوں کا ہے کہ انھوں نے اچھے سے چھان بین کیے بغیر فلیٹ خرید لیا۔ یہ وہی سوچ ہے جو غریب کی غربت کو اس کا جرم سمجھتی ہے اور امیرکی چوری کو ترقی کا نام دیتی ہے۔
لیاری میں گرنے والی عمارت نے صرف زمین پر ایک ملبہ نہیں چھوڑا، اس نے ہمارے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ثبت کیا ہے اور یہ سوال صرف حکومت سے نہیں ہم سب سے ہے کیا ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے یا ہم سوال کریں گے کیوں ہمارے خواب اینٹوں تلے دفن ہو رہے ہیں؟ کیوں ہماری چھتیں غیر محفوظ ہیں؟ اور کب تک یہ سلسلہ یوں ہی چلے گا؟
یہ عمارتیں صرف اینٹوں کی نہیں خوابوں کی بھی قبریں ہیں۔جب عمارتیں اپنی جڑوں سے ہلتی ہیں تو صرف دیواریں نہیں گرتیں، رشتے یادیں خواب اور زندگی کے وہ لمحے بھی ملبے تلے دفن ہو جاتے ہیں جو برسوں میں ترتیب پاتے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں لاکھوں لوگ اپنے روزمرہ کے مسائل سے لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں، وہاں چھت کا ملنا گویا ایک نعمت ہے مگر جب یہی چھت موت کا سبب بن جائے تو یہ کیسی ستم ظریفی ہے۔
ہم اس شہر کے باسی، ہیں جہاں اپنے گھر کے دروازے پر لگا ایک نوٹس بتاتا ہے کہ اب یہاں مزید نہیں رہ سکتے۔ اب کون سا در ہے جہاں دستک دیں۔
اس سماج میں عمارتوں کی تعمیرکا معیار جانچنے والے ادارے صرف فائلوں پر دستخط کرتے ہیں۔ فائل موٹی ہو، لفافہ بھرا ہوا ہو تو ہر کاغذ درست ہو جاتا ہے، مگر جب وہی عمارت انسانی جانوں کو نگلنے لگے تو وہی ادارے اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ ایک مشترکہ جرم کو انفرادی ذمے داری بنا دیا جاتا ہے اور جس کے پاس طاقت نہ ہو وہی سب سے زیادہ قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔
یہاں ایسے سیکڑوں فلیٹ ہیں جن کی کھوکھلی بنیادیں ہیں مگر مکینوں کو یہ تب پتہ چلتا ہے جب کوئی دیوار میں دراڑ آ جائے یا کوئی چھت بیٹھ جائے اور پھر اخبارکی ایک خبر یا نوٹس کے ایک ٹکڑے سے ان کی پوری زندگی بدل جاتی ہے۔ اس خبر میں صرف چند جملے ہوتے ہیں مگر ان کے پیچھے چھپی ہوئی بے بسی اور خوف کو کوئی نہیں سمجھتا۔مجھے اکثر وہ معمر جوڑے یاد آتے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹا سا فلیٹ خریدتے ہیں تاکہ زندگی کا آخری دور سکون سے گزار سکیں۔
ان کے پاس نہ کرایہ دینے کی سکت ہوتی ہے نہ نئے گھر میں شفٹ ہونے کا حوصلہ اور پھر ایک دن ان سے کہا جاتا ہے ’’ یہ عمارت خالی کریں‘‘ ان کی آنکھوں میں صرف سوال ہوتا ہے ’’ ہم کہاں جائیں؟‘‘
کیا ریاست کا کام صرف نوٹس لگانا ہے؟ کیا انسانی زندگی کی قیمت محض ایک کاغذ سے لگائی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان عمارتوں کو بنانے کی اجازت کس نے دی؟ وہ بلڈرز اب کہاں ہیں؟ وہ افسران جنھوں نے ان تعمیراتی منصوبوں کی فائلوں پہ دستخط کیے آج کہاں ہیں؟ کسی کو سزا کیوں نہیں دی جاتی؟
ایک طرف وہ طبقہ ہے جو طاقت تعلقات اور دولت کی بنیاد پر ہر غیر قانونی کام کو جائز کروا لیتا ہے اور دوسری طرف وہ عام شہری ہے جس کے پاس صرف شناختی کارڈ اور چند کاغذ ہوتے ہیں جن کی حیثیت وقت پڑنے پر صفر ہو جاتی ہے۔جب شہر صرف عمارتوں کا مجموعہ بن جائے اور ان میں بسنے والے انسانوں کی حیثیت صرف اعداد و شمار تک محدود ہو جائے تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے اپنا اصل کھو دیا ہے۔ شہر وہ ہوتے ہیں جہاں دیواروں کے پیچھے انسان بستے ہیں، احساسات ہوتے ہیں اور بہت سے ادھورے خواب ہوتے ہیں، اگر ہم ان خوابوں کو مٹی میں دفن ہونے دیں گے تو ہم صرف عمارتیں نہیں انسانیت بھی کھو دیں گے۔
آج بھی وقت ہے کہ ہم اس نظام کے خلاف آواز بلند کریں جو صرف طاقتور کو تحفظ دیتا ہے اور کمزورکو ملبے تلے چھوڑ دیتا ہے۔ ہمیں اس خواب کو زندہ رکھنا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ہر شخص کو نہ صرف ایک محفوظ چھت میسر ہو بلکہ اس چھت کے نیچے جینے کا مکمل حق بھی حاصل ہو۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتے ہیں یہ عمارت ہیں اور ہوتا ہے جاتا ہے ہیں مگر اور پھر ہے اور دفن ہو
پڑھیں:
بچے دانی فورا نکلوا دیں!
کچھ دن پہلے فون پر میسج کی گھنٹی بجی۔ اٹھا کر دیکھا تو ایک الٹرا ساؤنڈ رپورٹ تھی اور ایک میسج۔
’میں فلاں کی بہن ہوں، آپ کو فالو کرتی ہوں۔ میں نے الٹرا ساؤنڈ کروایا تھا، رپورٹ آپ کو بھیج رہی ہوں۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیے‘۔
یہ بھی پڑھیں: ماسک کیوں پہنا جائے؟
یوں تو رہنمائی فرمانے کے لیے ہمہ وقت ہم تیار رہتے ہیں مگر اس کے لیے بیک گراؤنڈ جاننا ازحد ضروری ہوتا ہے۔ حکیم صاحب تو ہم ہیں نہیں کہ پردے کے پیچھے بیٹھی خاتون کی کلائی پر بندھا دھاگہ پکڑ کر تشخیص کر ڈالیں۔
ساتھ میں کچھ نازک مزاج بھی ہیں سو عام حالات میں ادھورے پیغام پر طبعیت برہم ہو جاتی ہے مگر یہاں معاملہ شناسا کی بہن کا تھا سو مزاج پر قابو پاتے ہوئے 5،6 سوال لکھے۔ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ دیکھنے کی زحمت ہم نے نہیں کی۔ وہ بعد کی بات ہے ، دیکھ لیں گے۔
عمر ؟
ازدواجی حثیت ؟
بچے ؟
تکلیف ؟
جواب ملا ؛ عمر 42 برس ہے۔ شادی شدہ اور 3 بچوں کی ماں ہوں۔ 3،4 ماہ پہلے ماہواری کا انداز کچھ بدل گیا۔ ایک مہینے کی بجائے ڈیڑھ مہینے بعد آنے لگی۔ میں نے ڈاکٹر کو چیک کروایا۔ انہوں نے دوا کھانے کو دی۔ ماہواری پھر سے نارمل ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ہی مجھے الٹرا ساؤنڈ کروانے کا کہا تھا۔ الٹرا ساؤنڈ دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا بچے دانی فورا نکلوا دیں۔
اب رپورٹ دیکھنے کی باری تھی۔
بچے دانی کی دیواروں میں 3 رسولیاں نظر آئی ہیں۔ ایک کا حجم 4*3.1 سینٹی میٹر ہے، دوسری 3.5*2.5 سینٹی میٹر اور تیسری 1.7*1.6 سینٹی میٹر ہے۔
بچے دانی کی اندرونی جھلی نارمل ہے، دونوں بیضہ دانیاں نارمل ہیں۔
رپورٹ پڑھ کر ہم کچھ چکرائے۔ اس رپورٹ کو دیکھ کر ہم نے پھر سے پوچھا، آپ کو تکلیف کیا ہے؟
جواب ملا ؛ کچھ نہیں۔
کیا ماہواری زیادہ آتی ہے؟
نہیں۔
کیا بار بار آتی ہے؟
نہیں۔
کیا پیٹ کے نچلے حصے میں مثانے پر بوجھ پڑتا ہے؟
نہیں۔
جی چاہا قہقہہ لگا کر ہنسیں اور پھرجا کر ڈاکٹر صاحبہ سے دست بستہ ملاقات کی جائے اور ان سے ڈاکٹری کی تعلیم ہی لے لی جائے۔
ہمارا جواب تھا؛ بچے دانی نکلوانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
پھر کیا کروں؟ حیرت بھرا سوال۔
کچھ نہیں … ہمارا جواب۔
کیا کسی دوا کا استعمال کرنا ہو گا؟ ان کا اگلا سوال۔
آپ کو کیا تکلیف ہے؟ ہمارا سوال۔
کچھ نہیں … ان کا جواب۔
پھر کس بات کی دوا دوں آپ کو؟ ہمارا سوال۔
پھر یہ .. یہ الٹراساؤنڈ رپورٹ .. وہ ہکلاتے ہوئے بولیں۔
بھول جائیں اسے .. ہم نے کہا۔
وہ .. وہ رسولیاں …
جی ہیں .. دیکھ لی ہم نے رپورٹ .. ہمارا جواب۔
ان کا کیا کرنا ہے؟ انہوں نے پوچھا۔
کچھ نہیں .. بس سال 6 مہینے بعد ایک الٹرا ساؤنڈ دوبارہ کروا لیجیے گا ..حجم اور ماہیت دیکھنے کے لیے … ہم نے سمجھایا۔
پھر .. پھر .. ڈاکٹروں نے کیوں کہا کہ بچے دانی نکلوا دو؟ انہوں نے بے چینی سے پوچھا۔
کیونکہ آپ مریض نہیں، کلائنٹ ہیں .. تو کچھ تو بیچا جائے گا نا آپ کو .. ہم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
صاحب اگر آپ پڑھتے پڑھتے یہاں تک آ ہی گئے ہیں تو آپ کو ان رسولیوں کے بارے میں بتاتے چلیں۔
بچے دانی خاص قسم کے مسلز سے بنی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ مسلز آپ ہی آپ ضرورت سے زیادہ پھلنا پھولنا اور بڑھنا شروع کرتے ہیں اور پتھر جیسی سخت رسولیاں بنا دیتے ہیں۔ بچے دانی میں بننے والی ان رسولیوں کو فائبرائڈ کہتے ہیں۔
فائبرائڈ ز کا حجم ایک بیر سے لے کر تربوز کے سائز تک کا ہو سکتا ہے۔ جیسے ان صاحبہ کی پہلی رسولی ڈیڑھ انچ کی، دوسری ایک انچ کی اور تیسری آدھے انچ کی تھی۔ ماپنے والی ٹیپ پہ دیکھ لیں کہ ایک انچ کتنا بڑا ہوتا ہے اور پھر خود فاصلہ کریں کہ کھجور، جامن اور بیر کے سائز کی رسولیوں والی بچہ دانی کو فورا نکلوانے کا مشورہ کیوں؟ جب کہ خاتون کو کوئی تکلیف ہی نہیں۔
مزید پڑھیے: آپ ڈینگی، ہیپاٹائٹس سی، چیچک اور ایڈز وائرس کو مانتے ہیں، تو پھر۔۔۔
رسولی نامی لفظ کا فوبیا ہمارے معاشرے میں اس قدر ہے کہ ہر رسولی کینسر سمجھی جاتی ہے جبکہ 95 فیصد رسولیاں عام سی ہوتی ہیں جیسے کسی عضو میں کوئی گٹھلی بن جائے۔
اب آپ بتائیں کہ جب کوئی تکلیف نہیں، درد نہیں، ماہواری میں زیادہ خون نہیں پھر آپریشن کس چیز کا کیا جائے — چھوٹی یا درمیانے سائز کے لیموں جیسی رسولیوں کا جو رگ پٹھے سے بنی گٹھلیاں ہیں۔
آپریشن تب کیا جاتا ہے جب یہ رسولی خربوزے جتنی بڑی ہو جائے، درد ہونے لگے یا ماہواری کا خون کوئی ندی نالہ بن جائے۔
لیکن جناب ہمارے ہاں پرائیویٹ اسپتالوں کی روزی روٹی چونکہ انہی آپریشنز پر ہوتی ہے سو وہاں بیر جتنے فائبرائڈ کے لیے بھی مشورہ یہی دیا جاتا ہے کہ آپریشن کروائیں اور نکلوا دیں۔
لوگ رسولی کا نام سنتے ہی اتنے خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ کچھ سوال جواب کیے بنا آپریشن پر رضا مند ہو جاتے ہیں۔ جان لیجیے، چھوٹے چھوٹے فائبرائڈ اور جن کے ساتھ ماہواری نارمل ہو، نکلوا نا دانش مندی نہیں۔ ہاں ہر 6 مہینے بعد الٹرا ساؤنڈ کروا لینا چاہیے وہ بھی اس لیے کہ اگر فابرائڈ نامی رسولی میں کوئی تبدیلی آنے لگے تو اسے حل کیا جائے۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ ایسی بہت سی پیچیدگیاں بھی موجود ہیں جن میں بچے دانی نکلوانا ہی آخری حل ہوتا ہے۔ پھر کیسے جانا جائے کہ بچے دانی کب نکلوانی ہے اور کب نہیں؟
صاحب، ڈاکٹری ایک آرٹ ہے اور اس آرٹ میں ہر مریض دوسرے سے مختلف ہے اور ہر کسی کا علاج بھی اس کے جسم کے مطابق کیا جانا چاہیے ( مالی فائدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، مگر پھر پرائیویٹ اسپتال کیسے چلیں گے؟)۔
مزید پڑھیں: ڈاکٹروں کی سیاست!
کب؟ کیسے؟ کیوں؟ کا آرٹ خواتین کو سیکھنا چاہیے، جیسے ایک لباس ہر کسی کو پورا نہیں آ سکتا بالکل ویسے ہی ایک طریقہ علاج سب کے لیے نہیں ہوتا۔
پڑھیے، جانیے، سمجھیے اور حفاظت کیجیے اپنے جسم کی …
یہی ہے گائنی فیمنزم!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں