لاہور (خبر نگار +این این آئی)پنجاب کے 17اضلاع میں قائم صارف عدالتوں کو ختم کر دیا گیا، کیس سیشن کورٹس منتقل ہوں گے جبکہ صارف عدالتوں کے ججز کو لاہور ہائیکورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں صارف عدالتوں کے کیس متعلقہ سیشن کورٹس کو منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔پنجاب کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2025 میں ترمیم کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے حکم نامہ جاری کیا ہے، چیف جسٹس عالیہ نیلم کی منظوری کے بعد ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشل نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق سیشن ججز، ایڈیشنل سیشن ججز کو کنزیومر کورٹس کے کیسز سننے کا اختیار حاصل ہے، ہر ضلع کا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کنزیومر کورٹس کا انتظامی جج ہوگا۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو کنزیومر کورٹس کے نئے کیسز کے حوالے سے اختیار حاصل ہوگا، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو پرانی کنزیومر کورٹس میں چلنے والے کیسز کے حوالے سے بھی اختیار حاصل ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعلی پنجاب پرویز الٰہی کے دور میں صارفین کے تحفظ کے لیے ابتدائی مرحلے میں پنجاب میں 11صارف عدالتیں 2007میں قائم کی گئی تھیں، بعد میں ان عدالتوں کی تعداد بڑھا کر 17کردی گئی لیکن موجودہ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت نے ان عدالتوں کو قومی خزانہ پر بوجھ قرار دیتے ہوئے قانون میں ترمیم کے ذریعے ختم کردیا ہے۔پنجاب کے 17اضلاع لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، منڈی بہائوالدین ، گجرات ، روالپنڈی، سرگودھا، فیص آباد ، میانوالی ، لیہ ، بھکر ، ملتان، بہاولپور ، ڈی جی خان ، رحیم یار خان ، ساہیوال میں عدالتیں قائم تھیں، صارفین کے کیسز کی سماعت اب سیشن عدالتوں میں ہوگی۔کنزیومر کورٹس سیالکوٹ کے جج شمشاد علی رانا، گوجرانوالہ کے جج محمد مظہر سلیم، سرگودھا کے جج عمران رضا نقوی کو بھی ہائیکورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: کنزیومر کورٹس کرنے کا ججز کو

پڑھیں:

26 ویں ترمیم، انتظامیہ عدلیہ سے اہم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب

اسلام آباد:

26 ویں ترمیم  کے بعد انتظامیہ عدالتوں سے اہم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی،ان میں بڑی پیش رفت 9 مئی کے مقدمات پی ٹی آئی کے204 رہنماؤں و کارکنوں کو سزائیں ہیں۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 9 مئی کے مقامات کی تیز سماعت میں اہم کردار اور ان کی سربراہی میں بینچ نے چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ڈیڈلائن دی۔

اسی ترمیم کے تحت آئینی بینچ نے 103سویلین کیسز  کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی توثیق کی،عمران خان کے بھانجے سمیت بیشتر سزایافتہ جیل میں فوجی عدالتوں میں سزاؤں کے خلاف اپیل کا حق ملنے کی مجوزہ قانون سازی کے منتظر ہیں۔

حکومت نے اپیل کے اس حق کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ گرما تعطیلات کے باعث  تین اہم کیسز مخصوص نشستیں، ججوں کی ٹرانسفر اور فوجی عدالتوں پر فیصلے ہوئے ہیں، ادھر حکومت27 ویں آئینی ترمیم کے لیے موزوں وقت کی منتظر ہے۔9 مئی کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی محاذ آرائی نے عدلیہ کا کردار اہم بنایا، اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت  مایوسی ہوئی جب سابق چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت سے عمران خان کی گرفتاری کا نوٹس اور انہیں بینچ میں پیش کرنے کی ہدایت کی، پھر ریلیف دے کر انتظامیہ کو مزید پریشان کیا۔

 سابق چیف جسٹس پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز میں کرانا چاہتے تھے مگر ایسا نہ کر سکے۔ ان کے پیشرو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کسی معاملے پر حکومت کو مایوس نہ کیا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں  اور انتخابی دھاندلی کے الزامات کا نوٹس نہ لیا۔

 انہوں نے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل غیر آئینی ہونے کا فیصلہ  معطل کر دیا، پی ٹی آئی انتخابی نشان بلے سے محروم، خواتین رہنما ضمانت حاصل نہ کر سکیں ، جیل ٹرائل میں عمران خان کو تین الزامات میں سزائیں دی گئیں، اس سب کے باوجود 8 فروری کے انتخابی نتائج پی ٹی آئی مخالفین کے لیے حیران کن تھے۔

 سابق چیف جسٹس قائز عیسیٰ کو 8 فروری کے بعد تشکیل نظام کا ضامن خیال کیا جاتا ہے، انہوں نے عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت پر اظہار تشویش کرنیوالوں ججوں کا ساتھ نہ دیا۔ وکلاء کی نظر میں جسٹس فائز عیسیٰ کا بڑا احسان سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد کو سپریم کورٹ میں لانے کی حمایت ہے، جسٹس ملک شہزاد نے انتخابی اور 9 مئی مقدمات کی شفاف سماعت یقینی بنانے کے لیے اہم اقدامات کئے جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔

بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بھی وہ  9 مئی مقدمات کی چھیڑ چھاڑ میں رکاوٹ بنے رہے، انہیں سپریم کورٹ بھیجنے کے بعد انسداد دہشت گردی عدالتوں کے ججوں کے تبادلے کر دیئے گئے۔گزشتہ سال مارچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے خط کے بعد انتظامیہ نے اعلیٰ عدلیہ کو کنٹرول کرنے پر کام شروع کر دیا۔

26 ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک ہونے کے بجائے سپریم کورٹ کے جج دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئے، ترمیم سے مستفید ہونیوالوں نے حکومت کو  مایوس نہ کیا، انتظامیہ ہائیکورٹس کیساتھ بھی مطمئن ہے، اختلاف کرنیوالوں کی اکثریت سائیڈ لائن کر دی گئی۔

 ہائیکورٹس کا چیف جسٹس  کی تقرری میں ناپسندیدہ جج نظر انداز کر دیئے گئے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں پسندیدہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو بٹھانے کا حکومتی منصوبہ کامیاب رہا۔  26 ویں ترمیم کے بعد اعلیٰ عدلیہ پر انتظامیہ کا مکمل غلبہ ہے، اس لئے پی ٹی آئی کے سزا یافتہ رہنمائوں و کارکنوں کو کسی معاملے پر قابل ذکر ریلیف ملنے کا امکان نہیں۔

 وکلا ء نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ  اگرقانونی تقاضے پورے کئے بغیر سزائیں دینے کا سلسلہ جاری رہا تو عوام کا عدلیہ پر اعتماد مکمل ختم ہو جائیگاجس کا نقصان نظام عدل کو پہنچے گا، 26 ویں ترمیم کے بعد انتظامیہ کے زیر اثر کام کرنے کے تاثر ختم کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے ججوںکو ہی میکانزم بنانا ہو گا۔

 

متعلقہ مضامین

  • 26 ویں ترمیم، انتظامیہ عدلیہ سے اہم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب
  • پنجاب میں صارف عدالتیں ختم، کیس سیشن کورٹس کو منتقل کرنے کا حکم
  • سابق وفاقی وزیر کیخلاف موٹر سائیکل چوری کا مقدمہ سیشن کورٹ منتقل
  • پنجاب میں صارف عدالتیں ختم، اختیارات سیشن کورٹس کو منتقل
  • لاہور سمیت پنجاب بھر میں صارف عدالتیں ختم کر دی گئیں
  • پی ٹی آئی کی جلسے کیلئے اجازت کی درخواست، رجسٹرار ہائیکورٹ نے اعتراض لگا دیا
  • وزیراعظم کے بیٹے کو ریلیف، لاہور ہائیکورٹ نے مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا
  • لاہور ہائیکورٹ: سلیمان شہباز کی کمپنی کیخلاف مقدمے کا حکم کالعدم قرار
  • وزیراعظم کے بیٹے کو ریلیف؛ لاہور ہائیکورٹ نے مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا