مائیکل جیکسن کی جراب کتنے ڈالرز میں نیلام ہوئی؟ جان کر حیران رہ جائیں گے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
آنجہانی پاپ سپر اسٹار مائیکل جیکسن نے 1990 کی دہائی میں فرانس کے ایک کنسرٹ کے دوران جو جراب پہنی تھی وہ بغیر دھلی ہوئی حالت میں نیلام کردی گئی۔
نیلامی کرنے والے اورور ایلی نے اے ایف پی کو بتایا کہ مائیکل جیکسن نے اپنے عالمی شہرت یافتہ نغمے ’’بلی جین‘‘ پر پرفارم کرتے ہوئے متعدد بار بار سفید رنگ کے یہ موزے پہنے تھے۔
انھوں نے مزید کہا کہ جولائی 1997 میں جنوبی شہر نیمز میں کنسرٹ کے بعد ایک ٹیکنیشن نے استعمال شدہ جراب کو مائیکل جیکسن کے ڈریسنگ روم کے قریب چھوڑ دیا تھا۔
تاہم اس کے بعد اس جراب کو 28 سال قبل احتیاط سے محفوظ کیا گیا اور اب نیلامی کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
ابتدائی طور پر اس جراب کی قیمت 3,000 سے 4,000 یورو ($3,400-4,500) تھی جو Nimes کے نیلام گھر میں 7,688 یورو ($8,822) میں فروخت ہوئی۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مائیکل جیکسن کے لباس خاص طور پر ان کی پرفارمنس اور میوزک ویڈیوز کے دوران پہنے جانے والی اشیاء کو بڑی رقم میں فروخت کیا گیا ہے۔
2009 میں مکاؤ کے ایک گیمنگ ریزورٹ نے 1983 میں اپنا پہلا "مون واک” رقص کرتے وقت مائیکل جیکسن کے پہننے والے چمکدار دستانے کے لیے 350,000 ڈالر ادا کیے تھے۔
اس کے علاوہ، اس پرفارمنس سے ٹھیک پہلے پہنی ہوئی مائیکل جیکسن کی ایک ٹوپی 2023 میں 80,000 ہزار دالر سے زائد میں فروخت ہوئی۔
اسی سال یعنی 1984 میں کولڈ ڈرنک کے ایک اشتہار میں گلوکار کی پہنی ہوئی چمڑے کی جیکٹ 3 لاکھ ڈالر سے زائد میں فروخت ہوئی۔
یاد رہے کہ مائیکل جیکسن 2009 میں 50 سال کی عمر میں ایک مہلک اوور ڈوز کی وجہ سے انتقال کرگئے تھے۔
دنیا بھر میں کروڑوں دلوں کی دھڑکن مائیکل جیکسن کی زندگی میں ان کے خلاف بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات سامنے آئے تھے تاہم ان کی مقبولیت میں آج تک کوئی کمی نہیں آئی۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: مائیکل جیکسن
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔