ویب ڈیسک:دفتر خارجہ پاکستان نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزراء کی جانب سے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہے، دنیا اس پر خاموش نہ رہے بلکہ اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرائے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان مسجد اقصیٰ کی اشتعال انگیز اور جارحانہ بے حرمتی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اسرائیلی وزراء، عہدیداروں اور کنیسٹ کے ارکان سمیت ہزاروں اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے بے حرمتی کی گئی۔

پی ٹی آئی 5 اگست احتجاج پر واضح حکمت عملی بنانے میں ناکام، قیادت تقسیم

ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی حکام کی موجودگی میں ’’ٹیمپل ماؤنٹ ہمارا ہے‘‘ جیسے نفرت آمیز اعلانات کیے گئے، یہ اعلانات دنیا بھر میں مذہبی جذبات کو بھڑکانے اور تناؤ کو بڑھانے کی کوشش ہیں، اعلانات مسجد اقصیٰ کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی ایک خطرناک اور دانستہ کوشش ہیں۔

 وزارت خارجہ کے مطابق اسرائیل کی توسیع پسندانہ کوششیں خطے کو غیر مستحکم کرنے اور امن کو خراب کرنے کی کوشش ہیں، دنیا کو غیر قانونی، غیر انسانی جارحیت پر خاموش نہیں رہنا چاہئے، اس طرح کے اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

پرانی گاڑیوں کی نیلامی،تمام محکموں سے گاڑیوں کی تفصیل طلب

 ترجمان نے کہا کہ یہ اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور او آئی سی کی مختلف قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہیں، پاکستان عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ اسرائیل کو اس پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری مسجد اقصیٰ کے مذہبی تقدس کے لیے اقدامات کرے، عالمی برادری فلسطینی عوام کے حقوق اور حق خودارادیت کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے۔

نئے گیس کنکشن حاصل کرنے والوں کو  سستی آر ایل این جی دینے کا فیصلہ  

وزارت خارجہ کے بیان میں پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ ایک خودمختار، آزاد، قابلِ عمل اور باہم مربوط فلسطینی ریاست کا قیام ہی مسئلہ فلسطین کا پائیدار ہے، فلسطین کا قیام جون 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی ہو اور دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: کہ اسرائیل نے کہا کہ بے حرمتی

پڑھیں:

اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات

اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان

امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے  چکائی جاتی ہے۔

امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے  واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ  ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل  کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ترکیہ میں غزہ اجلاس آج، پاکستان اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کرے گا
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ترکیہ میں غزہ امن منصوبے پر مشاورتی اجلاس آج، پاکستان جنگ بندی کے مکمل نفاذ اور اسرائیلی فوج کے انخلاکا مطالبہ کرےگا
  • ترکیہ، غزہ امن منصوبے پر مشاورتی اجلاس، پاکستان جنگ بندی کے مکمل نفاذ اور اسرائیلی فوج کے انخلا کا مطالبہ کریگا
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں