Express News:
2025-08-07@00:10:02 GMT

تنازع جموں و کشمیر کا منصفانہ حل

اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT

مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے غیر قانونی اقدامات کو 6 سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اور کنٹرول لائن کے دونوں جانب کشمیریوں نے یوم استحصال کشمیر منایا۔ اس دن کی مناسبت سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور مظاہرے کیے گئے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مذمتی قراردادیں منظور کی گئیں۔ ا

س دن کی مناسبت سے لندن میں کشمیریوں اور پاکستانیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے 10ڈاؤننگ اسٹریٹ سے بھارتی ہائی کمیشن تک مارچ کیا اور بھارت مخالف نعرے بازی کی۔

 پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ دن منانا نہ صرف بھارت کی جانب سے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی یاد دلاتا ہے بلکہ عالمی برادری کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی ابھی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی اسے طاقت، قانون سازی یا ریاستی جبر سے دبایا جا سکتا ہے۔

5 اگست 2019 کو بھارت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے دفعہ 370 اور 35-A کو منسوخ کیا۔ یہ وہ دفعات تھیں جن کے تحت مقبوضہ کشمیر کو ایک نیم خود مختار حیثیت حاصل تھی اور کشمیری عوام کو اپنی شناخت اور زمین پر حقِ ملکیت حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کا مقصد نہ صرف مقبوضہ علاقے کو بھارت میں ضم کرنا تھا بلکہ کشمیریوں کی شناخت، زمین اور وجود کو مٹانا بھی تھا۔

بھارت نے اس اقدام کو پارلیمنٹ کے ذریعے قانونی شکل دی، مگر بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں یہ اقدام سراسر غیرقانونی، یکطرفہ اور جابرانہ تھا۔ اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا گیا، جہاں انسانی حقوق کی پامالی معمول بن گئی۔ درحقیقت پانچ اگست 2019کا دن تاریخ میں ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز بھارت نے بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔

یہ اقدام نہ صرف اقوامِ عالم کے ضمیر پر ایک زوردار ضرب تھا بلکہ ایک ایسے خطے کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر بھی حملہ تھا جو گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بھارت نے پانچ اگست 2019 کو یکطرفہ طور پر آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کو براہِ راست مرکز کے ماتحت کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے، کشمیریوں کو بے دخل کرنے اور وہاں کی سیاسی، مذہبی اور ثقافتی شناخت مٹانے کے لیے اقدامات شروع کیے۔

یہ تمام اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں، جو جموں و کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہیں اور وہاں رائے شماری کے انعقاد پر زور دیتی ہیں۔ آج مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو ان کی قیادت سے محروم کیا گیا ہے، میڈیا پر سخت پابندیاں عائد ہیں اور اظہارِ رائے کا حق سلب کر لیا گیا ہے۔ ہر روز بے گناہ کشمیریوں کو سرچ آپریشنز کی آڑ میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ خواتین، بچے اور بزرگ بھارتی قابض افواج کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے اختیار کی گئی یہ پالیسیاں دراصل سیٹلرکالونیلزم کی بدترین مثال ہیں، جن کا مقصد کشمیری عوام کی شناخت کو مٹانا اور انھیں ان کے حقِ خودارادیت سے محروم کرنا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں آج بھی حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ بھارت نے وہاں ایک کرفیو زدہ ماحول قائم کر رکھا ہے۔ کشمیری قیادت کو نظر بند یا جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ میڈیا پر قدغن ہے، انٹرنیٹ بند یا محدود کر دیا جاتا ہے، اور عوام کو خوف کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ہر روز نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگی اور جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارتی فورسز کی جانب سے ’’ کورڈن اینڈ سرچ آپریشنز‘‘ کے نام پر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ سب اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر کی صریح خلاف ورزیاں ہیں، جن پر عالمی برادری کو فوری اور موثرکارروائی کرنی چاہیے۔ بھارت 5 اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں ایک منظم طریقے سے آبادیاتی تبدیلی کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی شہریوں کو مقبوضہ علاقے میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے، انھیں زمین خریدنے اور مستقل رہائش کے حقوق دیے جا رہے ہیں۔ اس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے تاکہ ریفرنڈم یا حقِ خودارادیت کی صورت میں بھارت کو نتائج اپنے حق میں مل سکیں۔

 آزاد جموں و کشمیر ہو یا مقبوضہ کشمیر، تقسیم ہند کے طے کردہ فارمولے کے مطابق بھی پاکستان کا ہے اور اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں کے مطابق بھی ہمارا ہے۔ یہ بات صرف پاکستان ہی نہیں کہہ رہا ہے بلکہ یہ بات بھارتی قیادت، جواہر لعل نہرو سے لے کر نریندر مودی تک مانتے رہے ہیں۔

مودی سرکار 5اگست 2019تک ان تمام حقائق کے ساتھ رہی۔ حتیٰ کہ مودی سرکار نے متنازع کشمیر یعنی مقبوضہ کشمیر کا ہندوستانی آئین کے مطابق خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارتی یونین کا حصہ بنا ڈالا۔ اس بات کو کشمیریوں نے ہی نہیں بلکہ اقوام عالم نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ اس دن سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی تحریک میں ایک نئی جان اور طاقت پیدا ہو گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اپنی قراردادوں میں تسلیم کیا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے، جس کا فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی سے ہونا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو بین الاقوامی اصولوں کے تحت تسلیم کرتا ہے۔

 برصغیر کی تقسیم کے وقت برطانوی راج کے زیر انتظام 562 ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کریں جب 1947 میں برصغیر کی تقسیم ہوئی تو ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی، کشمیر کا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ ایک ظالم اور خود غرض حکمران تھا جو ڈوگرہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا، 1925 سے 1947 تک ریاست جموں و کشمیر کا حکمران رہا۔ کشمیری عوام کی اکثریت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش ظاہر کی۔

قائداعظم محمد علی جناح کے نظریے کے تحت مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ، کشمیری عوام کے دل کی آواز بنا۔ پاکستان سے مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی قربت کے باعث کشمیری عوام کا جھکاؤ فطری طور پر پاکستان کی طرف تھا۔ 19جولائی 1947کو ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی نمایندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے سری نگر میں ایک تاریخی قرارداد منظورکی، جس میں ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ برصغیر انگریز سے آزاد ہوا ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں تھیں۔

اس لیے دوقومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں نے اپنا الگ ملک بنانے کا فیصلہ کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے 14اگست 1947کو ایک علیحدہ ریاست پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا۔

 پاکستان کا موقف بالکل واضح اور اصولی ہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن و استحکام کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک جموں و کشمیر کے تنازع کا منصفانہ حل تلاش نہ کیا جائے۔ بھارت کی طرف سے طاقت اور تشدد کے ذریعے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوششیں ان کی جدوجہد کو مزید تقویت بخشتی ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آزادی کی تڑپ کو کبھی بھی زنجیروں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔

اقوامِ عالم پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو اس کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات واپس لینے پر مجبور کریں۔ اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، تاکہ کشمیری عوام کو وہ حق دیا جا سکے جس کا وعدہ ان سے سات دہائیوں قبل کیا گیا تھا۔ پاکستان تین جنگیں لڑ چکا ہے، لیکن اس کے باوجود امن کے راستے پر قائم ہے۔ پاکستان ہر بین الاقوامی فورم پر یہ پیغام دیتا رہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کا واحد راستہ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل ہے۔ بھارت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فوجی طاقت سے کشمیریوں کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔

اس کی ہر چال، ہر قانون اور ہر عدالتی فیصلہ کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کو دبا نہیں سکتا۔ یومِ استحصال ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ کشمیری عوام آج بھی ظلم، جبر اور ناانصافی کا شکار ہیں، مگر ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کے جذبے، حوصلے اور پاکستان کے ساتھ ناقابلِ شکست رشتے بھارت کی ہر سازش کو ناکام بنا رہے ہیں۔

ہمیں بطور قوم عہد کرنا ہو گا کہ ہم کشمیری عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے، جب تک وہ اپنا جائز اور ناقابلِ تنسیخ حقِ خود ارادیت حاصل نہیں کر لیتے۔ انصاف کی دیر، امن کی موت ہے دنیا اگر آج بھی خاموش رہی تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر صرف ایک انسانی المیہ نہیں، بلکہ ایٹمی تصادم کا میدان بن سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری اب خوابِ غفلت سے جاگے اور کشمیریوں کے اس جائز اور قانونی حقِ خودارادیت کو تسلیم کرے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: متحدہ کی قراردادوں ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے ساتھ جموں و کشمیر کے کشمیری عوام کی اقوام متحدہ کی بین الاقوامی کشمیریوں کی اور کشمیری کہ کشمیری بھارت نے کے مطابق کشمیر کو بھارت کی کشمیر کا کیا گیا رہے ہیں عوام کو میں ایک گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

اس سال یومِ استحصال کی غیر معمولی اہمیت ہے، صدر مملکت

فائل فوٹو

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ بھارت کی جارحیت کے تناظر میں اس سال کا یومِ استحصال غیر معمولی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ آپریشن بنیان مرصوص کی شاندار کامیابی پاکستانی عوام کے لیے باعثِ فخر ہے۔

یوم استحصال کشمیر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی۔ بھارتی اقدام کا مقصد کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو کمزور کرنا تھا۔

صدر مملکت نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت اور سیاسی نقشے کو بدلنے کے لیے متعدد اقدامات کیے، من مانی حلقہ بندیاں، غیر کشمیریوں کو ووٹر لسٹ میں شامل کرنا بھارتی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیری عوام کو اپنے ہی وطن میں بے اختیار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام دھمکیوں، بلاجواز گرفتاریوں اور محاصروں کا شکار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • دیرپا امن کا قیام مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے جڑا ہوا ہے.علی امین گنڈاپور
  • جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے. آصف زرداری
  • بھارت 5 اگست کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات واپس لے،وزیراعظم
  • ظلم کی کوئی عمر نہیں ہوتی، وہ دن ضرور آئے گا جب جموں و کشمیر کے مظلوم عوام آزادی کا سورج طلوع ہوتا دیکھیں گے، وفاقی وزیر پروفیسراحسن اقبال کا یوم استحصال کشمیر پر پیغام
  • دیرپا امن کا قیام مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے جڑا ہوا ہے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور
  • یوم استحصال کشمیر پر صدر زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کے خصوصی پیغامات
  • یومِ استحصال کشمیر، پاکستان کشمیریوں کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا ہے، وفاقی وزرا کا عزم
  • اس سال یومِ استحصال کی غیر معمولی اہمیت ہے، صدر مملکت
  • آج بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو چھ برس مکمل ہو رہے ہیں؛ صدرِ مملکت