بلیو اکانومی میں اہم پیشرفت، پاکستان اور عراق کے درمیان فیری سروس شروع کرنے کا معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
پاکستان اورعراق نے مذہبی سیاحت اوردو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے گوادر بندرگاہ اور ام القصر بندرگاہ کے درمیان فیری سروس شروع کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
یہ مفاہمتی یادداشت وزیر برائے بحری امور محمد جنید انور چوہدری اور اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے کے نائب سربراہ عبدالقادر سلیمان الحمیری کی قیادت میں آنے والے 3 رکنی وفد کے درمیان ملاقات کے دوران طے پائی۔
جنید چوہدری نے اس معاہدے کو دو طرفہ تعلقات میں ایک نئے باب سے تعبیر کرتے ہوئے بحری مسافر اور مال بردار روابط کے قیام کی اہمیت پر زور دیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ فیری سروس ہمارے مشترکہ ثقافتی و مذہبی رشتوں کو فروغ دے سکتی ہے اور نئی کاروباری راہیں کھول سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
’اس اقدام سے پاکستان کی بلیو اکانومی حکمتِ عملی کے تحت بندرگاہی سرگرمیوں اور سپلائی چین کے فروغ کو تقویت ملے گی۔‘
یہ فیری سروس بالخصوص ان پاکستانی زائرین کے لیے مفید ثابت ہو گی جو خاص طور پر اربعین یعنی امام حسینؑ کے چہلم کے موقع پر زیارت اور عبادات کے لیے عراق کا سفر کرتے ہیں۔
حال ہی میں حکومت نے ایران کے زمینی راستے سے سفر پر پابندی عائد کی ہے، جو اس سے پہلے ایک مرکزی ٹرانزٹ راستہ تھا، اس لیے سمندری راستہ ایک متبادل اور محفوظ ذریعہ فراہم کرے گا، ہر سال تقریباً 10 لاکھ پاکستانی زائرین نجف اور کربلا کی زیارت کے لیے عراق جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
ملاقات کے دوران وزیر بحری امور جنید چوہدری نے ایران اور خلیج تعاون کونسل کے ساتھ بھی فیری سروس شروع کرنے کی حکومتی کوششوں سے وفد کو آگاہ کیا، انہوں نے عراق کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی تجویز پیش کی، جس میں پاکستان سے ادویات، گوشت اور چاول کی برآمدات میں اضافہ اور عراق سے تیل کی درآمد کو بڑھانے کی بات شامل تھی۔
اس کے ساتھ ہی وزیر برائے بحری امور نے بتایا کہ پاکستان گوادر فری زون میں موجود سہولت کے ذریعے عراق کی پوٹاشیم سلفیٹ کی مانگ بھی پوری کر سکتا ہے۔
مالی سال 2024 کے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے عراق کو 5 کروڑ 42 لاکھ 90 ہزار ڈالر کی برآمدات کیں، جبکہ عراق سے 14 کروڑ 54 لاکھ 60 ہزار ڈالر مالیت کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کیں۔
مزید پڑھیں:
وزیر برائے بحری امور کے مطابق پاکستان جلد ہی انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے انتخابات میں حصہ لینے جا رہا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے عراق سے حمایت کی درخواست کی، جس پر عبدالقادر الحمیری نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن بحری امور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن فیری سروس کے لیے
پڑھیں:
ہمت ہے تو اپنی کشتیوں پر اسرائیلی پرچم لہرا کر دکھاو
اسلام ٹائمز: انصاراللہ کی کارروائیاں صیہونی رجیم کی سپلائی چین میں خلل ڈالنے پر مرکوز ہین، جو ایک کامباب حکمت عملی کی علامت ہے، جس سے اسرائیل کی اقتصادی اور لاجسٹک کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ مقامی ہتھیاروں اور بحری گوریلا حکمت عملی پر انحصار کرتے ہوئے، ان کارروائیوں کے ذریعے نہ صرف اہم بندرگاہوں جیسے ایلات، حیفہ اور اشدود کو بند کر دیا گیا ہے بلکہ اسرائیل کی انشورنس اور شپنگ کے اخراجات میں بھی نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقتصادی رپورٹوں کے مطابق بحیرہ احمر کے ذریعے عالمی تجارت میں 12 فیصد تک رکاوٹ پیدا ہونے کی وجہ سے اسرائیلی معیشت پر غیر معمولی دباؤ ہے، جس سے صیہونی حکومت کو اپنے بحری جہازوں کو چلانے کے لیے غیر ملکی جھنڈوں کا استعمال کرنا پڑا رہا ہے، یہ یمنی دباؤ کے سامنے کمزوری کا ثبوت ہے۔ خصوصی رپورٹ:
انصاراللہ یمن کی سیاسی بیورو کے ایک رکن نے، اسرائیل کی نسل پرست حکومت کے وزیر جنگ کی دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ تم صنعاء کو فتح کرنے کی بات کرتے ہو، جب کہ تم یمن سے اپنی کشتیاں واپس لینے کے لیے بے بس اور عاجز ہو۔ صیہونی نے صنعا کی سرزمین پر اسرائیلی جھنڈا لہرانے کا دعویٰ کیا تھا۔ جب مشرق وسطی میں تبدیلی کی ہوائیں چل رہی تھیں، یمنی مزاحمت نے 19 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی حکومت اور اس کے زیر قبضہ علاقوں پر اپنے پہلے میزائل اور ڈرون فائر کر کے بحیرہ احمر کو ایک بحری میدان جنگ میں تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد اسرائیلی حکومت کی سپلائی لائنوں کو مفلوج کرنا تھا، تیزی سے شاندار کامیابیوں میں بدل گیا۔ انصار اللہ نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے سو سے زائد بحری جہازوں کو نشانہ بنایا، چار سمندر کی گہرائیوں میں غرق کیے اور کم از کم آٹھ بحری اہلکاروں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
یمنی حملوں سے عالمی تجارت کا 12 فیصد متاثر کر کے اسرائیلی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا۔ یمنی حملوں نے نہ صرف 9 جنوری 2024 کو امریکی بحری جہازوں کو پس قدمی پر مجبور کیا، ہتھیاروں سے لدے بحری جہازوں کو سمندر برد کر کے غاصب صیہونی رجیم کو اہم بندرگاہوں تک رسائی سے محروم کر دیا اور ان کے لاجسٹک اخراجات کو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچا دیا، مغربی عبری اتحاد ہزاروں فوجیوں کی موجودگی کے باوجود یمن کو روک نہیں سکا۔ 4 مئی 2025 کو انصار اللہ نے اسرائیلی حکومت کی مکمل فضائی ناکہ بندی کا اعلان کرتے ہوئے بین گوریون ہوائی اڈے کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا اور اس کی پروازوں کو مفلوج کر دیا۔ اس کے علاوہ، 29 جولائی 2025 کو، ایک وقفے کے بعد، اس نے اسرائیلی بندرگاہوں پر جانے والے بحری جہازوں پر دوبارہ حملے شروع کیے اور امریکی اسرائیلی سپلائی چین کو منقطع یا کم از کم معطل کر دیا۔
یہ کامیابیاں، جن میں نشانہ بنائے گئے بحری جہازوں میں سے آدھے سے زیادہ کو زیادہ دور کی بندرگاہوں کی طرف موڑ دیا گیا، نہ صرف سپر پاورز کے خلاف یمنی مزاحمت کی طاقت کو ثابت کرتی ہیں، بلکہ اس سے صیہونی حکومت کو ایک گہرے اقتصادی بحران کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بحری جہازوں کی انشورنس کی شرحیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور حیفہ اور اشدود کی بندرگاہیں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ اس غیر مساوی جنگ میں یمن نے مقامی ہتھیاروں سے بحیرہ احمر کو مزاحمتی محور کی فتح کی علامت بنا کر دکھایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ قوموں کی قوت ارادی دیوہیکل بحری جہازوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ ان کارروائیوں سے امریکی، یورپی اور اسرائیلی ظالموں کی نیندیں اڑ گئی ہیں، وہ اس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ یا تو ان کی کشتیاں بحیرہ احمر کا رخ نہ کریں یا پھر اپنے جھنڈے اور پرچم نہ لہرائیں۔
اب اسی دہشت زدہ اسرائیل نے، جو اپنے جہازوں کو چھپاتا اور دوسرے ملکوں کے جھنڈوں پر انحصار کرتا ہے، صنعا کو فتح کرنے اور یمنی سرزمین پر اپنا جھنڈا لہرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسرائیل کے جنگی وزیر کاٹز نے سوشل نیٹ ورک X پر (ستمبر 19، 2025 کو) ایک پوسٹ میں انصار اللہ اور یمنی مزاحمت کے رہنما عبدالملک الحوثی کو براہ راست قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ عبدالمالک الحوثی، آپ کی باری آئے گی۔ حوثی پرچم پر یہودیوں کی جگہ اسرائیل کے نیلے اور سفید پرچم کو تبدیل کیا جائے گا، جسے یمن کے متحدہ دارالحکومت صنعا کے اوپر لہرایا جائے گا۔ حالانکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر اسرائیلیوں میں ہمت ہے تو اپنے جہازوں پر صیہونی جھنڈا لہرا کر دکھائیں۔ المیادین کے مطابق یمن کی انصار اللہ تحریک کے سیاسی بیورو کے رکن محمد الفرح نے اسرائیلی نسل پرست حکومت کے جنگ کے سوڈانی وزیر ازرائیل کاٹز کی دھمکیوں کا جواب دیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ تم صنعاء پر قبضہ کرنے کی بات کر رہے ہو، جب کہ تم بے بس اور لاچار ہو کر یمن کے لوگوں سے اپنی کشتیاں تک واپس نہیں لے سکتے ہو۔ الفرح نے کہا کہ صنعا میں اپنا جھنڈا بلند کرنے سے پہلے آپ کو ایلات کی بندرگاہ کو کھولنا ہوگا، جو یمنی حملوں کے نتیجے میں بند کر ہو چکی ہے۔ کاٹز کی جانب سے صنعا میں اسرائیلی پرچم بلند کرنے کی دھمکی ایسے وقت میں آئی ہے جب اسرائیلی جہاز یمن کے حملوں کے خوف سے چھپ کر دوسرے ممالک کے بحری جہازوں کے ساتھ سفر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انصار اللہ کی سیاسی بیورو کے ایک اور رکن حزام الاسد نے اسرائیلی وزیر جنگ کے حالیہ بیانات کو اسرائیلی حکومت کے خلاف یمن کی جاری کارروائیوں کے سامنے "شکست" کا اظہار قرار دیا ہے۔ رشیا ٹوڈے نے اسے رپورٹ کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ قابض حکومت کے رہنماؤں کی دھمکیاں ہمیں خوفزدہ نہیں کرتی ہیں اور میں ازرائیل کاٹز سے کہتا ہوں کہ جہنم تمہارا انتظار کر رہی ہے، صنعا پر صیہونی حکومت کا جھنڈا بلند کرنے کی کاٹز کی دھمکی مسخرے کا کھیل ہے اور یمن میں ایسا واقعہ ناممکن ہے، یمن غزہ میں جنگ اور بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کے بند ہونے تک تحریک مزاحمت کی حمایت میں اپنے موقف پر مضبوطی اور ثابت قدمی سے قائم ہے۔ حزام الاسد نے غزہ کی حمایت اور مدد کے لیے میدان جنگ میں نئے ہتھیاروں کی آمد کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ ہم اسرائیلی دشمن کے لیے حیران کن اور اچانک کارروائیوں کی تیاری کر رہے ہیں۔ غور طلب ہے کہ بحیرہ احمر اور اس سے آگے یمن اور اسرائیلی حکومت کے درمیان محاذ آرائی ایک فوجی تصادم سے آگے نکل چکی ہے، یہ غیر متناسب ارادوں اور صلاحیتوں کے تصادم کا مظہر ہے۔
انصاراللہ کی کارروائیاں صیہونی رجیم کی سپلائی چین میں خلل ڈالنے پر مرکوز ہین، جو ایک کامباب حکمت عملی کی علامت ہے، جس سے اسرائیل کی اقتصادی اور لاجسٹک کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ مقامی ہتھیاروں اور بحری گوریلا حکمت عملی پر انحصار کرتے ہوئے، ان کارروائیوں کے ذریعے نہ صرف اہم بندرگاہوں جیسے ایلات، حیفہ اور اشدود کو بند کر دیا گیا ہے بلکہ اسرائیل کی انشورنس اور شپنگ کے اخراجات میں بھی نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقتصادی رپورٹوں کے مطابق بحیرہ احمر کے ذریعے عالمی تجارت میں 12 فیصد تک رکاوٹ پیدا ہونے کی وجہ سے اسرائیلی معیشت پر غیر معمولی دباؤ ہے، جس سے صیہونی حکومت کو اپنے بحری جہازوں کو چلانے کے لیے غیر ملکی جھنڈوں کا استعمال کرنا پڑا رہا ہے، یہ یمنی دباؤ کے سامنے کمزوری کا ثبوت ہے۔
اسرائیلی حکام کی طرف سے دھمکیاں، بشمول نسل پرست حکومت کے وزیر جنگ کا یہ بیان کہ وہ صنعا میں اسرائیلی پرچم بلند کرے گا، یمنی مزاحمت کے سامنے ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ دھمکیاں بحیرہ احمر میں پہل کرنے میں بار بار اسرائیلی ناکامیوں اور یمنی حملوں پر قابو پانے میں مغربی اتحاد کی ناکامی کے تناظر میں دی گئی ہیں، دشمن کو
آپریشنل سپورٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ انصار اللہ، اسٹریٹجک آبی گزرگاہوں پر غلبہ حاصل کرنے اور درست ڈرون اور میزائلوں کے استعمال سے خطے میں طاقت کے توازن کو مزاحمتی محور کے حق میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ کارروائیوں کو مقبوضہ علاقوں تک پھیلا جا رہا رہا ہے۔ تصادم ایک گہری جغرافیائی سیاسی حقیقت کی عکاسی ہے کہ یمنی مزاحمت، پورے خطے میں محدود وسائل کے ساتھ صیہونی حکومت اور اس کے مغربی حمایتیوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے میں کامیاب رہی ہے۔ فلسطینی عوام کے لیے انصار اللہ کی واضح حمایت کے ساتھ اس کامیابی نے خطے میں ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پر یمن کی پوزیشن مستحکم کر دی ہے۔