صدر میں خلاف ضابطہ خطرناک عمارت تعمیر
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
فائر سیفٹی اور پارکنگ قوانین نظر انداز،بغیر نقشہ منظوری امور جاری
ڈائریکٹرجنرل شاہ میر بھٹو اور ڈپٹی ڈائریکٹر الطاف کی مجرمانہ غفلت
صدر کی فضا میں عمارتیں چڑھتی گئیں، اور ضمیر مٹی تلے دبتا گیانقشہ نہ منظوری فائر سیفٹی اور پارکنگ قوانین سب روند ڈالے گئے ،پلاٹ نمبر 7 میر کرم علی تالپور روڈ صدر میں خلاف ضابطہ تعمیرات سے خطیر رقوم کی بندر بانٹ ۔کراچی کا تاریخی علاقہ صدر آج ایک خطرناک تبدیلی کا شکار ہے ایک جانب بلند و بالا عمارتیں راتوں رات کھڑی ہو رہی ہیںتو دوسری جانب ان عمارتوں کی بنیادوں میں قانون ضمیر اور شہری تحفظ کی دیواریں منہدم ہوتی جا رہی ہیںجرآت سروے کے مطابق صدر میں متعدد عمارتیں ایسی تعمیر ہو رہی ہیں جو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہیں ان میں نہ تو فائر سیفٹی کے اصولوں کا خیال رکھا گیا ہے نہ ہی نقشے کی منظوری لی گئی ہے اور پارکنگ جیسی بنیادی سہولتوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتااہم بات یہ ہے کہ ان تمام سرگرمیوں کے باوجود ڈی جی شاہ میر خان بھٹو کی جانب سے ڈپٹی ڈائریکٹر الطاف کھوکھر کی کرپشن پر مکمل خاموشی اور چشم پوشی اختیار کی گئی ہے جسے شہری حلقے مجرمانہ غفلت قرار دے رہے ہیںمقامی افراد کا کہنا ہے کہ صدر میں تعمیرات کا یہ غیر قانونی سلسلہ نہ صرف ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ پانی سیوریج روشنی اور سیکیورٹی جیسے اہم شہری ڈھانچوں پر بھی دبا ڈال رہا ہے علاقہ مکینوں کے مطابق ہر نئی عمارت کے ساتھ علاقے کی سہولتیں کم ہوتی جا رہی ہیں جبکہ بلڈر مافیا منافع سمیٹ کر آگے نکل جاتی ہے اس وقت بھی پلاٹ نمبر 7 میر کرم علی تالپور روڈ صدر میں خلاف ضابطہ تعمیرات کی خطیر رقوم کی بندر بانٹ کے بعد چھوٹ دے دی گئی ہے شہریوںتاجر برادری اور سماجی تنظیموں نے سندھ حکومت اینٹی کرپشن اور عدلیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری نوٹس لے کر ان غیر قانونی تعمیرات کو روکا جائیاور ان افسران کے خلاف کارروائی کی جائے جو اس بگاڑ کے اصل ذمہ دار ہیںجرآت سروے ٹیم کی جانب سے موقف لینے کے لئے ڈی جی ہاس رابطے کی کوشش کی گئی مگر رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
اسمارٹ فون کا استعمال بچوں کی ذہنی صحت کیلیے خطرناک ہے، تحقیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: ایک تازہ عالمی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ جن بچوں کو 13 سال کی عمر سے پہلے اسمارٹ فون دیا جاتا ہے، ان میں بڑے ہونے پر ذہنی صحت کے سنگین مسائل پیدا ہونے کا خطرہ نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم نے اس تحقیق کے دوران ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں (عمر 18 تا 24 سال) کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا، جس کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ جن بچوں نے 12 سال یا اس سے کم عمر میں فون کا استعمال شروع کیا، وہ جوانی میں ڈپریشن، اضطراب، خوداعتمادی کی کمی، اور خودکشی کے خیالات جیسے مسائل کا زیادہ شکار پائے گئے۔
تحقیق کے مطابق 10 سے 13 سال کی عمر انسانی دماغی نشوونما اور شخصیت کی تعمیر کا نہایت نازک مرحلہ ہے، اس عمر میں مسلسل فون یا سوشل میڈیا کے استعمال سے بچوں کی جذباتی توازن، توجہ اور سماجی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں خاص طور پر لڑکیوں میں خطرے کی شرح زیادہ دیکھی گئی، جن لڑکیوں نے 5 یا 6 سال کی عمر میں فون استعمال کرنا شروع کیا، ان میں سے 48 فیصد نے کسی مرحلے پر خودکشی کے خیالات ظاہر کیے جب کہ وہ لڑکیاں جنہیں فون 13 سال کے بعد ملا، ان میں یہ شرح صرف 28 فیصد رہی۔
تحقیق میں تجویز دی گئی ہے کہ بچوں کو 13 سال کی عمر سے پہلے اسمارٹ فون نہ دیا جائے، سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے وقت اور اصول مقرر کیے جائیں، والدین اور اساتذہ بچوں کو آن لائن سرگرمیوں کے نقصانات سے آگاہ کریں،اسکولوں میں ڈیجیٹل ویلفیئر پروگرام متعارف کرائے جائیں۔
ماہرین نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گھر میں فون فری زونز قائم کریں اور بچوں کو حقیقی دنیا کی سرگرمیوں جیسے کھیل، مطالعہ اور دوستوں سے بالمشافہ میل جول کی ترغیب دیں تاکہ ان کی ذہنی اور جذباتی صحت متوازن رہے۔