جرمنی میں شرح پیدائش مسلسل کم کیوں ہو رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اگست 2025ء) جب یولیا برانڈنر نے حال ہی میں اپنی کتاب ’’آئی ایم ناٹ کڈِنگ‘‘ یعنی (میں مذاق نہیں کر رہی) پیش کی، تو 30 سالہ انفلوئنسر اور کامیڈین کو توہین آمیز جملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ برانڈنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک 72 سالہ خاتون، جو تین بچوں کی ماں تھیں، نے اسٹیج پر آ کر ان پر خود غرض ہونے کا الزام لگایا اور حاضرین کے سامنے ان پر حملہ کر دیا۔
تاہم، اس کتاب، جس میں آسٹریا میں پیدا ہونے والی اور برلن میں مقیم برانڈنر نے بڑی صاف گوئی اور مزاح کے ساتھ یہ بیان کیا ہے کہ وہ کبھی ماں کیوں نہیں بننا چاہتی تھیں اور اسی وجہ سے انہوں نے نس بندی کا انتخاب کیا۔ انہیں اپنی کتاب پر کئی مثبت ردعمل بھی موصول ہوئے۔
(جاری ہے)
کئی حلقوں سے نفرت انگیز رویے کا سامنا کرنے پر، انہوں نے کہا، ’’آپ کو ایک انقلابی کا لیبل دے دیا جاتا ہے۔
اگر آپ یہ کہیں کہ آپ بچوں کی خواہش نہیں رکھتیں، تو فوراً آپ پر پنشن نظام کو تباہ کرنے، بین النسلی معاہدے کو سبوتاژ کرنے، اور دراصل انسانوں کی نسل ختم کرنے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔‘‘اس تنقید نے ایک ایسے عدد یعنی 1.
وفاقی محکمہ شماریات کے مطابق یہ وہ اوسط تعداد ہے جتنے بچے جرمنی میں خواتین نے 2024 میں پیدا کیے۔
جرمن شہریت رکھنے والی خواتین کے لیے اوسط شرح پیدائش صرف 1.23 تھی، جبکہ غیر جرمن خواتین کے لیے یہ شرح 1.89 رہی۔
مجموعی طور پر، جرمنی میں 2024 میں چھ لاکھ ستہتر ہزار117 (677,117) بچے پیدا ہوئے، جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 15,872 کم تھے۔
دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی شرح پیدائش بڑھانے کی اپیلبرنڈنر کی عمر صرف 28 سال تھی جب انہوں نے نس بندی کروائی۔ ان کی ماہر امراضِ نسواں نے یہ عمل انجام دینے سے پہلے ان کی ذہنی صلاحیت کا نفسیاتی تجزیہ کروانے کا مطالبہ کیا۔
برنر کو اپنی کتاب سے پیدا ہونے والے تنازعے پر حیرت ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ پرآشوب دور میں دائیں بازو کی طرف بڑھتا ہوا رجحان محسوس کر رہی ہیں، جہاں روایتی اقدار کی طرف واپسی ہو رہی ہے، یعنی خواتین کا چولہے کے سامنے کھڑا ہونا اور بچوں کی دیکھ بھال کرنا۔
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) بھی شرح پیدائش میں کمی کے مسئلے کو اٹھا رہی ہے اور ہنر مند افراد کی کمی سے نمٹنے کے لیے امیگریشن کے بجائے زیادہ بچوں کی پیدائش پر زور دے رہی ہے۔
برنر کا کہنا ہے کہ 2025 تک بھی بچوں کے موضوع کو صرف خواتین کا معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ ’’بہت سی اکیلی مائیں اپنے مسائل سے خود نمٹ رہی ہیں، جب کہ باپ اکثر ذمے داری سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
خواتین کے لیے بچوں کی پیدائش غربت کے بڑے خطرے کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آج بھی ایک عورت کو معاشرے کی خوشحالی کے لیے اپنی ذاتی خوشحالی قربان کرنا پڑے۔" دنیا بھر میں شرح پیدائش میں کمیلیکن صرف جرمنی ہی وہ ملک نہیں ہے جہاں شرح پیدائش میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دنیا بھر میں یہ اعداد و شمار تیزی سے نیچے جا رہے ہیں۔
جنوبی کوریا میں یہ شرح 0.75 تک پہنچ چکی ہے۔ ویت نام نے اس سال کے شروع میں خطرے کی گھنٹی بجائی جب اس کی شرح پیدائش ایک تاریخی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ صرف ساحل کے خطے کو استثنا حاصل ہے، جہاں عورتیں اوسطاً پانچ سے زائد بچے پیدا کر رہی ہیں۔میخائلا کرائین فیلڈ ایک ماہر سماجیات ہیں اور وہ جرمن حکومت کی خاندانی رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین میں شامل تھیں۔
ان کا ماننا ہے کہ معاشی بحرانوں اور غیر یقینی صورتحال کا شرح پیدائش سے گہرا تعلق ہے۔انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’کیا یہ خود غرضی ہے یا محض خودمختار طرزِ عمل، کہ خواتین بچے پیدا نہیں کرنا چاہتیں؟ ہم اس بارے میں کم از کم 1970 کی دہائی سے بات کر رہے ہیں، لہٰذا یہ کوئی نئی بات نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جو چیز نئی ہے وہ متعدد بحرانوں کا بیک وقت ہونا ہے۔
کرائین فیلڈ نے کہا،’’کورونا وبا، بے قابو موسمیاتی تبدیلی، اور بلند مہنگائی۔ خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے یہ ایک نئی صورتحال ہے۔‘‘
امریکہ میں ایک مخالف رجحان اُبھر رہا ہے، جو اس عام رویے کے برخلاف ہے۔ اور دنیا کے امیر ترین انسان، ایلون مسک، کو اس کا نمایاں نمائندہ سمجھا جا رہا ہے۔ وہ 'پرونَیٹلسٹ‘ (بچے پیدا کرنے کو فروغ دینے والے) اور زیادہ سے زیادہ بچوں کی پیدائش کے حامی ہیں۔
تاہم، کرائین فیلڈ نے مشرقی یورپ کی تاریخ سے رومانیہ کی ایک مثال کو بطور انتباہ پیش کیا۔
انہوں نے بتایا کہ صدر چاؤشیسکو نے شرح پیدائش کو 1.8 سے بڑھا کر ایک سال کے اندر اندر چار تک لے جانے کے لیے انتہائی اقدامات کیے، جیسے مانع حمل اشیاء تک رسائی محدود کرنا اور اسقاطِ حمل پر سخت سزائیں نافذ کرنا۔ ’’اس کا نتیجہ رومانیہ کی 'کھوئی ہوئی نسل‘ کی صورت میں نکلا۔
ایسی نسل جس میں والدین نے بچوں کی پرورش نہیں کی کیونکہ وہ ان بچوں کو چاہتے ہی نہیں تھے۔‘‘ جرمنی 'شرح پیدائش کے خلا‘ کو کیسے پُر کر سکتا ہے؟تو پھر بغیر ریاستی دباؤ کے شرح پیدائش کو دوبارہ کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟ وفاقی ادارہ برائے آبادیاتی تحقیق کے نائب ڈائریکٹر مارٹن بوجارڈ اس کا جواب دیتے ہیں۔
بوجارڈ، جو جرمنی میں شرح پیدائش کے ماہر ہیں اور پچھلی دو دہائیوں کے اعداد و شمار تک مکمل واقفیت رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان خواتین پر ہونے والی بحث جو شعوری طور پر ماں نہ بننے کا فیصلہ کرتی ہیں، اصل مسئلے سے توجہ ہٹا دیتی ہے۔
انہوں نے کہا،’’اگر کوئی بچہ پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو یہ اس کا ذاتی فیصلہ ہے۔ اس پر الزام یا تنقید نہیں ہونی چاہیے، اور حقیقت یہ ہے کہ بغیر بچوں کے زندگی گزارنا اب زیادہ قابلِ قبول ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔
’’ہم نے لوگوں سے پوچھا کہ وہ کتنے بچے چاہتے ہیں، اور اس سے یہ بات سامنے آئی کہ 2024 میں مرد و خواتین اوسطاً تقریباً 1.8 بچے چاہتے تھے۔
یعنی موجودہ شرح پیدائش 1.35 سے کہیں زیادہ۔ اگر بچوں کے لیے موجود یہ خواہش پوری ہو جائے، تو ہمیں آبادی کے حوالے سے کم مسائل کا سامنا ہو گا اور طویل مدت میں زیادہ خوشحالی حاصل ہو گی۔‘‘’شرحِ پیدائش کا خلا‘ سے مراد مطلوبہ بچوں کی تعداد اور اصل پیدائش کی شرح کے درمیان فرق ہے۔ جیسے کہ جب بہت سی خواتین وہ دو بچے نہیں کر پاتیں جو وہ چاہتی ہیں اور صرف ایک بچے تک محدود رہ جاتی ہیں۔
اس کی وجوہات میں یہ شامل ہو سکتا ہے کہ انہیں زندگی میں دیر سے ایک مستحکم شریکِ حیات ملتا ہے، یا معاشرتی مباحثوں میں بچوں کو ایک مسئلہ سمجھا جانے لگا ہے، نہ کہ ایک نعمت، اور/یا ریاست وہ سب کچھ نہیں کر رہی جو خاندان بنانے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
جرمنی کو کام اور ذاتی زندگی میں توازن بہتر بنانے کی ضرورتبوجارڈ نے جرمن ریاست کی ماضی میں نافذ کی گئی خاندانی دوستانہ پالیسیوں کی تعریف کی، جیسے کہ بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز اور پورے دن کے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ، اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں والدین کے الاؤنس کا آغاز۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک نظریاتی تبدیلی تھی جسے بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر سراہا گیا، کیونکہ ایک وقت میں جرمنی کی شرح پیدائش دنیا میں سب سے کم تھی۔ تاہم، وہ موجودہ صورتحال پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’سن 2013 سے، ہمارے پاس بچوں کی دیکھ بھال کا قانونی حق موجود ہے، لیکن اب یہ قابلِ بھروسہ نہیں رہا، کیونکہ اکثر یہ سہولت منسوخ کر دی جاتی ہے۔
بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی کمی ہے، اور اس نظام کو آخر میں بہت کم مالی وسائل ملتے ہیں۔ اگر اس میں کافی پیسہ ہو، تو بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کو زیادہ تنخواہ دینے کی بات کی جا سکتی ہے۔‘‘جرمنی کو اپنی خاندانی پالیسیوں پر دوبارہ سنجیدہ توجہ دینی ہو گی، کیونکہ موجودہ رجحان تشویشناک ہے۔ وفاقی وزارت برائے خاندانی امور، معمر شہری، خواتین اور نوجوانان کے مطابق، 30 سے 50 سال کی عمر کی 22 فیصد خواتین اور 36 فیصد مردوں کے ہاں بچے نہیں ہیں۔
وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق، جرمنی میں مردوں کے ہاں 2024 میں اوسطاً صرف 1.24 بچے تھے۔سب سے بڑھ کر، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان خواتین کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد بچے پیدا نہیں کر رہی۔ اسی لیے بوجارڈ کا کہنا ہے کہ واحد حل یہ ہے کہ کام اور خاندان کے درمیان ہم آہنگی کو بہتر بنایا جائے۔
انہوں نے کہا، ’’بدترین صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ 2030 میں مسلسل گرتی ہوئی شرح پیدائش کے ساتھ طویل مدتی طور پر سماجی انشورنس کے نظامکو شدید مسائل کا سامنا ہو۔
یہ خوشحالی کو بری طرح متاثر کرے گا۔ سماجی انشورنس کے لیے شراکتیں بڑھانی پڑیں گی، پنشن کم ہو جائیں گی، اور صحت اور نگہداشت کے نظام میں مزید کٹوتیاں کرنی پڑیں گی۔‘‘ادارت: صلاح الدین زین
یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا شرح پیدائش پیدائش کے بچے پیدا کا سامنا نہیں کر سکتا ہے کا کہنا اور اس کر رہی کے لیے کی شرح رہی ہے
پڑھیں:
غزہ پر قبضے کا صیہونی منصوبہ؛ جرمنی کا اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی بند کرنے کا اعلان
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے کے اعلان پر جرمنی نے شدید تنقید کرتے ہوئے اہم اقدام کا فیصلہ کرلیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا کہ ہماری حکومت اب غزہ میں استعمال ہونے والے کسی بھی فوجی سامان کی اسرائیل کو فروخت کی منظوری نہیں دے گی۔
جرمنی کی حکومت کے اس فیصلے کے بعد سے اب اسرائیل کو جاری خودکار اسلحہ کی فروخت بند ہوجائے گی جب کہ جرمنی صیہونی ریاست کو اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک بن کر سامنے آیا تھا۔
یاد رہے کہ 2019 سے 2023 تک جرمنی نے اسرائیل کو 30 فیصد بڑے ہتھیار فراہم کیے جن میں جدید نیول آلات اور جنگی بحری جہاز شامل ہیں۔
جرمنی سے خریدے گئے ان ہتھیاروں کو اسرائیل 2023 سے غزہ میں جاری جارحیت میں استعمال کر رہا ہے۔ جس میں 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے جرمنی کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ اقدام حماس کے دہشت گردی کو انعام دینے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا مقصد غزہ پر قبضہ کرنا نہیں بلکہ حماس سے آزادی دلانا ہے تاکہ ایک پرامن حکومت قائم ہوسکے۔
جرمنی کے علاوہ یورپی یونین، برطانیہ، چین، روس اور عرب ممالک نے بھی اسرائیل کے غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے کی شدید مذمت کی ہے۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی کہا کہ امریکا اور اسرائیل کے مقاصد مشترک ضرور ہیں لیکن عملدرآمد کے طریقہ کار پر اختلافات موجود ہیں۔ غزہ میں انسانی المیہ فوری حل طلب ہے۔
یورپی یونین کی صدر ارسولا وان ڈیر لائن نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی فوری طور پر روکی جائے۔