Express News:
2025-08-09@23:26:06 GMT

آزادی عنوان ہے

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

’’ باجی یہ چودہ اگست کب ہوگی؟ ‘‘

’’ چودہ اگست، چودہ اگست کو ہوگی، پر تم یہ بتاؤ کہ تمہیں چودہ اگست کوکیا کرنا ہے۔‘‘ اس کے چہرے پر مسکان دیکھ کر انھیں اچنبھا ہوا۔

’’باجی جی! میں اس دن ہرے رنگ کے کپڑے پہنوں گی،گھر میں جھنڈیاں لگاؤں گی، اور چھٹی بھی کروں گی۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ پر یہ بتاؤ کہ آخر چودہ اگست کو ہوا کیا تھا، جو تم اتنی تیاریاں کروگی۔‘‘

’’یہ تو نہیں پتا باجی! کہ چودہ اگست کوکیا ہوا تھا، آپ کو پتا ہوگا۔ آپ بتائیے ناں۔‘‘

’’چودہ اگست کو ہمیں پاکستان ملا تھا۔‘‘

’’کیا سچ باجی۔۔۔ پہلے پاکستان نہیں تھا۔‘‘

سوال میں حیرت کا عنصر پنہاں تھا۔

’’ تو۔۔۔۔ پہلے پاکستان نہیں تھا، ہمارے بڑوں نے جدوجہد کی، لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں، اپنا سب کچھ وہاں چھوڑ چھاڑ یہاں ہجرت کی اور تم لوگ تو اس وقت آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے تھے۔‘‘

وہ چڑ کر بولیں اور اپنے کاموں میں مصروف ہوگئیں۔ ان کے گھر کام کرنے والی نے ایک نظر ان پر ڈال اپنے کندھے اچکائے اور وہ بھی کاموں میں لگ گئی۔اگست کا مہینہ اپنی پوری شان و شوکت سے ہر سال ہی آتا ہے۔

جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، جھنڈیوں کی خریداری ہوتی ہے، پرچم کی شکل کے بیجز، باجے، کھلونے اورکپڑے ہر چیز سے آزادی کی خوشی چھلکتی نظر آتی ہے۔ سب خوش ہوتے ہیں، قومی ترانے بجتے ہیں، ایوان سجتے ہیں، بڑے بڑے ہال، بڑی بڑی باتیں، بڑے بڑے پکوان اور وقت گزرتے، بڑے بڑے بلز،گیس بجلی، پانی کے اور بڑے بڑے مسائل کے بھوت جو بارہ میں سے گیارہ مہینے اپنی بدصورتی سے ہمارے دل ڈراتے ہیں۔

ہمیں نظر ہی نہیں آتا، ہمارے ارد گرد دھند سی چھائی رہتی ہے۔ دو سو ارب، ڈیڑھ سو ارب، ایک ارب، چند کروڑ اور چند لاکھ روپے ہم عوام کیا جانیں۔۔۔ عوام جو پاکستان میں ہے، فلسطین میں اور انڈیا، بنگلہ دیش سے لے کر دنیا بھر میں چیخ رہے ہیں، چلا رہے ہیں پر ایوانوں کے زنگ آلود قفل جو ان کی عقلوں پر پڑے ہیں۔۔۔۔ انسانوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔

رمضان، حج اور محرم سارے ہی متبرک مہینے ہر انسان کم حیثیت، ہر بار اور ہر ایوان میں مجرم بنا مظلومیت کی تصویر بنا کھڑا ہے پر اس کا حق ہے کہ چند تھنک ٹینکرز غصب کرے چلے جا رہے ہیں۔

فلسطین کا غزہ قحط کی خطرناک صورت حال کی جانب بڑھ رہا ہے، ایک تشویش ناک حالت جو آج کی مہذب اور ترقی یافتہ حکومتوں کو نظر ہی نہیں آ رہی، غزہ کی غیر سرکاری تنظیموں ، این جی اوز نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امجد الشوا کا کہنا ہے کہ غزہ کا محصور علاقہ ایک ایسے قحط کی جانب بڑھ رہا ہے جو دو ملین سے زائد انسانی جانوں کو نگل سکتا ہے۔

غزہ میں غذائی اور طبی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے جب کہ اسرائیل کی محاصرانہ پالیسی اور امداد کی فراہمی میں جان بوجھ کر تاخیر پیدا کرنا اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا رہا ہے۔غزہ کے اسپتالوں میں روزانہ دو سو سے زائد ایسے مریضوں کی آمد ہو رہی ہے جو شدید بھوک، کمزوری اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ایسے مریضوں میں بچے، بزرگ اور جوان سب شامل ہیں۔ ان کے مطابق روزانہ ستر سے اسّی ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں جب کہ ہوائی جہاز سے گرایا جانے والا سامان پانچ سے دس ٹرکوں کے برابر ہوتا ہے جو لاکھوں شہریوں کی بنیادی ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

امجد الشوا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج امدادی ٹرکوں کو ان راستوں سے گزرنے پر مجبور کر رہی ہے جہاں مسلح گروہ اور لٹیرے ان امدادی ٹرکوں کو لوٹ لیتے ہیں، یوں جان بوجھ کر مستحقین تک پہنچنے سے روکا جا رہا ہے۔ غزہ میں نو لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں ایک خطرناک وبا پھیل رہی ہے جس کے باعث ان میں فالج یعنی پٹھوں کی کمزوری کے باعث ان کا جسم مفلوج ہو رہا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ اب تو بات اس قدر آگے جا چکی ہے کہ امداد کے منتظر مظلوم شہریوں کو دوبدو فائرنگ کرکے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ان مظلوم، مجبور اور جنگ میں نہتے شہریوں کو روتے، بلکتے، بھوک سے مرتے نہ دیکھا ہوگا۔ ہم ہر سال اپنی آزادی کا جشن بڑی شان سے مناتے ہیں، پر کیا ہم آزادی کے مفہوم سے پوری طرح واقف بھی ہیں؟

اگر ہم اپنی آزادی کو بھول رہے ہیں تو فلسطین کی جانب دیکھیں، جہاں ایک بچہ ایک روٹی کی قیمت کے بدلے اپنی پیاری سائیکل قربان کر دیتا ہے، جہاں غذا کے حصول کے لیے نہ جانے کتنے مظلوم، دہشت گرد اسرائیلیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ان کے مال و اسباب خاک ہو گئے، ان کے پیارے خاک و خون میں نہا گئے، ان گنت قربانیاں، شہادتیں، ساری دنیا کی عوام مظلوم لوگوں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں پر کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔

اکتوبر 2023 سے اب تک ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جب کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی، یہ تعداد اندازاً ہے جب کہ اصل حقیقت اس سے زیادہ تلخ ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ فلسطین کی یہ صورت حال کب تک جاری رہے گی، کیا اسرائیل اپنی آخری بازی کھیلنے کے لیے متحرک ہو چکا ہے؟اپنا ملک، اپنی زمین اور اپنا آسمان یہ نعمتیں ایک آزاد ریاست کے لیے بہت اہم ہیں اور رب العزت کی کرم نوازی ہے، ہم نے بے شمار لوگوں کی قربانیاں دے کر اسے حاصل کیا ہے، لیکن ہم ناشکرے ثابت ہو رہے ہیں۔

ہمارے معدنیات، قومی وسائل، دریا، پہاڑ، صحرا، ریگستان، ٹیلے، وسیع شہر یہ سب ہمیں میسر ہیں لیکن ہم بدانتظامی میں ماہر ہیں۔ ہمیں اپنی نعمتوں کو نہ تو اچھی طرح سے استعمال کرنا آیا ہے اور نہ ہی ہم کر سکے ہیں، کیوں کہ ہمیں ترسا تڑپا کر رکھا گیا ہے اور جتنا دیا گیا ہے اس پر بھی کھینچا تانی چل رہی ہے۔

کیوں کہ ہم بھول چکے ہیں کہ 70 سال پہلے پاکستانی قوم کس اذیت سے گزر کر اس سوہنی دھرتی پر جمع ہوئی تھی، کس طرح اپنے خون دل سے ہجرت کی داستان رقم کی تھی، ہمیں احساس دلایا گیا ہے کہ ہماری اوقات ہی نہیں کہ ہمیں اس حسین ملک کے حقوق حاصل ہوں اور ہم سمجھتے گئے، ترستے گئے آج دنیا بھر میں ہماری سیاست کی مضحکہ خیز کہانیاں پھیل رہی ہیں۔

روز روز کے دھرنے، احتجاج نے مل کر ایک تماشا بنا رکھا ہے، قرضوں کے بوجھ تلے، دشمنوں کے چکروں میں الجھا، دہشت گردوں کی اسکیموں سے نبرد آزما ہمارا ملک جیسے خاردار کانٹوں سے گھرا ہے، ان کانٹوں کو چن چن کر نکالنے کے بجائے زہر میں ڈبو ڈبو کر تیر لگائے جا رہے ہیں۔

کرپشن، عصبیت، لسانیت کے زہر کس قدر کارگر رہے ہیں، پر کسی کو نظر کیوں نہیں آ رہا؟ سہولیات اعلیٰ طبقات کے لیے بڑھتی جا رہی ہیں اور سسکتا طبقہ ان سہولیات کو دور سے دیکھ کر اس بے ترتیب نظام پر کڑھ رہا ہے، پر ہمارے سخت دل فولاد کے سے ہو چکے ہیں۔

ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ہے، کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کا زہر آلود جملہ ہماری سماعتوں کا خون کر چکا ہے، پر ہمیں کیا۔۔۔۔ ہم خوش ہیں کہ سب ٹھیک ہے، اب جسے نہیں مل رہا تو یہ اس کا نصیب۔ فلسطینیوں کا نصیب، پاکستانیوں کا نصیب، انسانوں کا نصیب۔ یہ تو نصیبوں کا کھیل ہے۔ پھر تو شکایت نصیب بنانے والے سے ہی کرنا ہوگی۔ اس میں ہمارا کیا قصور۔چودہ اگست قریب ہے، اسے منائیں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی آزادی کے لیے دعا کریں کہ آزادی کی قیمت چکانے کا سفر ابھی جاری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چودہ اگست کو رہے ہیں کا نصیب ہی نہیں بڑے بڑے رہی ہے رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

اگست 2025 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موت، دی سمپسنز نے اپنی پیشگوئی میں کیا کہا؟

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ’دی سمپسنز‘ نے 2025 میں ایک امریکی صدر کی موت کی پیش گوئی کی تھی۔

انسٹاگرام پر ایک پیج نے یہ ویڈیو کلپ شیئر کیا، جس میں ایک سمپسنز کا کردار دکھایا گیا جو موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت ملتا جلتا ہے۔

وائرل ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ ’دی سمپسنز‘ نے پیش گوئی کی ہے کہ امریکی صدر اگست 2025 میں شدید سینے کی بیماری کے باعث انتقال کر جائیں گے۔

ویڈیو کے پس منظر میں ایک آواز کہتی ہے کہ ’دی سمپسنز‘ نے تقریباً 15 سال پہلے جاری ایک پرانی قسط میں ’صدارتی موت‘ کی پیش گوئی کی تھی۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by PicLodienStories (@piclodienstories)

ویڈیو میں کہا گیا ہے، ’ایک متنازعہ صدر جس کی جلد نارنجی رنگت کی ہے، سنہری بال ہیں، اور جذباتی مزاج کا مالک ہے، وہ وائٹ ہاؤس کے اندر اکیلا چلتا ہوا دکھایا گیا ہے‘۔

ویڈیو میں یہ کردار سینے پر ہاتھ رکھ کر درد میں مبتلا ہوتا ہے اور براہ راست نشریات کے دوران گر جاتا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں ہنگامی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور طبی عملہ طلب کیا جاتا ہے، جن میں سے ایک نے کہا ’یہ صرف ذہنی دباؤ نہیں تھا، یہ ایک اشارہ تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید الیکشن لڑنے سے انکار، اپنا جانشین بھی بتا دیا

متنازعہ ویڈیو میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حال ہی میں دل کی بیماری کی تشخیص ہوئی ہے۔ ویڈیو میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس قسط کی ’درست پیش گوئی‘ کی وجہ سے اسے نشر نہیں کیا گیا اور یہ اب اسٹریمنگ پلیٹ فارمز سے غائب ہے۔

سوشل میڈیا صارفین اس پر مختلف تبصرے کرتے نظر آئے۔ کسی نے سمپسنز کی پیش گوئی پر سوال اٹھائے تو کوئی سوال پوچھتا نظر آیا کیا یہ سچ ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ کتنے لوگ ہمارے صدر کی موت کی خواہش کر رہے ہیں، یہ انسانیت کے زوال کی نشانی ہے۔ کوئی عزت یا بنیادی اخلاقیات باقی نہیں۔

ایک صارف نے سوال کیا کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ 2025 میں بچ پائیں گے؟ جبکہ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ میں کبھی کسی کی موت نہیں چاہوں گا، لیکن اگر یہ سچ ہوا تو میں بالکل بھی رونا پسند نہیں کروں گا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا سے گوشت نہ خریدنے والے ممالک ‘نوٹس’ پر ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ

واضح رہے کہ اس سال جولائی میں وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کو کرونک وینس انفیشنسی کی تشخیص ہوئی ہے، جو ایک ایسی بیماری ہے جس میں خون کو دل تک واپس لے جانے والی رگوں کو مسئلہ ہوتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کارولین لیویٹ نے یہ تشخیص بیان کی تھی جب ٹرمپ کے پیروں میں سوجن اور ہاتھ پر زخم کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ کرونک وینس انفیشنسی کا خطرہ عمر کے ساتھ بڑھتا ہے۔

 ’دی سمپسنز‘ ایک مقبول امریکی اینیمیٹڈ سِٹ کام ہے جو اپنی حیرت انگیز پیش گوئیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس اینی میٹڈ ٹی وی شو میں نائن الیون اور ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سمیت دنیا میں رونما ہونے والے متعدد اہم واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ موت

متعلقہ مضامین

  • پیغامِ ماضی پاکستان: ہم سب کا پاکستان
  • جشنِ آزادی کی تیاریاں،پی ایچ اے راولپنڈی نے شہر سجا دیا،
  • عمران خان کے بیٹوں کو پاکستان آنے سے حکومت نہیں روک سکتی: علیمہ خان
  • عمران خان کے بیٹوں کو پاکستان آنے سے حکومت نہیں روک سکتی، علیمہ خان
  • پی ٹی آئی 14 اگست کو یومِ آزادی یا یومِ احتجاج کے طور پر منائے گی؟
  • کاش مولانا ابوالکلام آزاد ہمیں اصل حقائق بتا جاتے، ڈاکٹر عائشہ جلال
  • عظمی بخاری نے پی ٹی آئی کی 14اگست کی احتجاج کی کال کو افسوسناک قرار دیدیا
  • اگست 2025 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موت، دی سمپسنز نے اپنی پیشگوئی میں کیا کہا؟
  • ملک میں 14 سے 17 اگست تک تعطیلات کا امکان