سٹی42 : اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اپوزیشن کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دے دی۔

 اسپیکر قومی اسمبلی نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات میں اپنے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرا دی۔

 ایاز صادق نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی۔

Ansa Awais Content Writer.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: سٹی42 قومی اسمبلی

پڑھیں:

سینٹ 27ویں ترمیم منظور : اپوزیشن کا ہنگامہ ، واک آئو ٹ کا پیاں بھاڑدیں : قومی اسمبلی میں آج ہیش ہوگی 

اسلام آباد (رانا فرحان اسلم/ خبرنگار+ نوائے وقت رپورٹ) ایوان بالانے دو تہائی اکثریت  کے ساتھ 27ویں آئینی ترمیم منظور کرلی۔ چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدرات سینٹ اجلاس میں  وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک پیش کی۔ اس دوران پی ٹی آئی ارکان نے چیئرمین سینٹ کے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا۔ پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو نشست پر بیٹھے رہے اور احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ ستائیسویں آئینی ترمیمی پیش کرنے کی تحریک پر ایوان میں ووٹنگ ہوئی تو سیف اللہ ابڑو آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے حق میں کھڑے ہوئے۔ اس کے علاوہ جے یو آئی کے احمد خان بھی تحریک کے حق میں کھڑے ہوئے۔ 64ارکان سینٹ نے ستائسیویں آئینی ترمیم کی تمام شقوں کی مرحلہ وار منظوری دی۔ سینٹ ارکان نے نشستوں سے کھڑے ہوکر ووٹنگ میں حصہ لیا۔ اس کے بعد  27ویں آئینی ترمیمی بل سینٹ سے حتمی منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔  ارکان نے 27 ویں ترمیم کے حق یا مخالفت میں لابیز میں جا کر ووٹ دیا اور یوں 64 ارکان نے ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہ آیا۔ چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی نے رولنگ دی کہ  27ویں آئینی ترمیمی بل سینٹ نے منظور کر لیا ہے۔  بل کی منظوری کا عمل شروع ہوا تو اپوزیشن نے نامنظور، نامنظور کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن  ارکان  نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڈا دیں۔ اجلاس کی کارروائی جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔  اپوزیشن نے چیئرمین سینٹ سے بل کی شق وار منظوری گنتی کے ذریعے لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ دوبارہ گنتی کے بعد بھی حکومتی اتحاد مطلوبہ 64ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا جس پر تحریک منظور کر لی گئی۔ اپوزیشن ارکان سینٹ سے واک آوٹ کرگئے۔ اپوزیشن کی طرف سے ووٹنگ کے دوران کوئی رکن ایوان میں موجود نہیں رہا۔ قبل ازیں وقفے کے بعد چیئرمین سید یوسف رضاگیلانی کی زیر صدارت اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو چیئرمین لا اینڈ جسٹس کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے ستائیسویں ترمیم کے حوالے سے جوائنٹ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کر دی۔  فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ دو دن جوائنٹ کمیٹی نے اس پر کام کیا۔ کمیٹی نے جو بل اس ایوان میں پیش کیا تھا اس میں کافی تبدیلیاں لائیں۔ فیڈرل کانسٹیٹیوشن کورٹ بنانے کا بل میں مطالبہ تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ میں کانسٹیٹیوشنل بنچز موجود ہیں۔ کمیٹی نے بل کے اندر کچھ تبدیلیاں لائیں۔ تبدیلی میں کہا گیا کہ اس کورٹ میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہو گی۔ دوسری تبدیلی یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے جج کیلئے سات سال کا تجربہ مانگا گیا تھا جسے کمیٹی  ارکان نے سات سال سے کم کر کے پانچ سال کر دیا ہے۔ کمیٹی نے موجود سپریم کورٹ ججز میں سے آئینی عدالت میں تقرری کی صورت میں سنیارٹی متاثر نہ ہونے کا کہا ہے۔ اگر باہر سے اس بنچ میں تقرری ہو گی تو ان کی جوائننگ سے سنیارٹی بنے گی۔ بل میں اس بنچ میں ایک ممبر جو نان ممبر ہونا تھا اس کی تقرری کا اختیار سپیکر کو دیا گیا تھا اب اس ممبر کی تقرری میں عورت یا نان مسلم یا ٹیکنوکریٹ ہو گا۔  چند بڑی تبدیلیاں جو کمیٹی نے پروپوز بل میں لائی ہیں اس کے علاہ کچھ چھوٹی تبدیلیاں بھی ہیں۔ میں کمیٹی میں تعاون کرنے پر تمام کمیٹی ممبران کا شکر گزار ہوں۔ پہلے سپریم کورٹ کے پاس سوموٹو پاور تھیں اب بھی سوموٹو پاور تو موجود رہے گی لیکن اس کو محدود کر دیا گیا۔ آئینی عدالت پہلے درخواست کا جائزہ لے گی۔ پہلے آرٹیکل 99 کے مطابق چھ ماہ تک انٹیرم کا آرڈر رہتا تھا جس کی وجہ سے بے انتہا بیک لاک تھا۔ اب کمیٹی نے چھ مہینے مزید دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک سال میں سٹے وکیٹ ہو جائے گا۔ ٹرانسفر آف ججز کے حوالے سے پہلے دو ججز کی مشاورت درکار ہوتی تھی۔ ابھی کمیٹی نے بل کے اندر اس ٹرانسفر کا طریقہ تبدیل کر دیا ہے۔ اب جج کی ٹرانسفر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ذریعے ہو گی۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ اگر کوئی جج تبادلے پر اعتراض کرتا ہے تو وہ صرف ریٹائر نہیں ہو گا بلکہ اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو گا۔ بل میں صدر مملکت کو لائف لانگ استثنی دینے کا ذکر تھا۔ کمیٹی نے تبدیلی لا کر اس میں صدر مملکت کی ریٹائرمنٹ پر الیکشن کے بعد پبلک آفس ہولڈر بن جاتا ہے تو اسے اس دورانیہ میں یہ استثنی حاصل نہیں ہو گا۔ سینٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ ایوان میں اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی سے اس ایوان کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ ہمیں مضبوط اکانومی، عدلیہ اور افواج درکار ہیں۔ آئین پاکستان میں ابتدائیہ میں درج وضاحت کی ستائیسویں آئینی ترمیم میں نفی کی جا رہی ہے۔  سینیٹر پونجو بھیل نے کہا کہ  میری پارٹی کے بڑوں نے اس ملک اور آئین کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ اس ملک میں آٹھویں اور پندرھویں ترامیم بھی آئیں۔ پھر اٹھارہویں ترمیم میں آئین کو اس کی روح کے مطابق بحال کیا گیا۔ سینیٹر عامر چشتی نے کہا کہ ''غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا ''۔ اس ایوان میں ترامیم پر بات کی لیکن بنیادی جمہوریت پر کسی نے بات نہیں کی۔ ایم کیو ایم سے چھبیسویں آئینی ترامیم میں وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے مطالبات ستائیسویں ترمیم میں شامل کئے جائیں گے۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ ہمیں اب اٹھائیسویں ترمیم کا لارا  لگایا جا رہا ہے۔  سینیٹر طاہر خلیل نے کہا کہ حق حکمرانی صرف اسی کو ہے جو عوام کے چنے ہوئے لوگ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں ہماری حلقہ بندیاں کی جائیں۔  سینیٹر قرۃ العین مری نے کہا کہ یہاں باتیں کرنے میں سب بہت آگے ہیں لیکن کچھ باتیں نہ ہی کی جائیں تو بہتر ہیں۔ ورنہ سوال تو یہاں بہت سارے ہیں، کون جمہوریت کا چیمپئن ہے، کون اسلحہ بردار، کون بھتہ لینے والا۔ اگر پی ٹی آئی سینٹ کے خرچے پر باربیڈوز جا سکتی ہے تو کمیٹی میں کیوں نہیں بیٹھ سکتی۔ آپ کمیٹی میں جائیں ان آئینی ترامیم پر بات کریں۔  سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ انصاف کی فراہمی پر ہماری عدالتیں 129ویں نمبر پر ہیں۔ عوام کو بروقت انصاف نہیں مل رہا، سفارش اور لابنگ درکار ہے۔ فیڈرل آئینی عدالت صرف آئینی معاملات کے لیے قائم کی جائے گی۔ عدالتی وسائل سیاسی یا مالیاتی کیسز پر ضائع نہ ہوں۔ غریب عوام کے کیسز کو بھی بروقت سننے کی ضرورت ہے۔  سید فیصل علی سبزواری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس بل کے پاس ہونے سے افواج پاکستان، دفاع پاکستان اور مملکت پاکستان کے وقار میں اضافہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آئین بھی حرف آخر نہیں۔ پراونشل کمیشن کیلئے فنڈز کا تخمینہ مختص ہونا چاہئے۔ میں آج اختلافی باتوں سے گریز کر رہا ہوں۔ میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات کے حوالے سے اپنی پیش کردہ ترمیم کیلئے تمام جماعتوں کے پاس جاؤں گا۔  سینیٹر خالدہ عطیب نے کہا کہ ہم نے عوامی فلاح کیلئے ترامیم پیش کیں جو چھبیسویں ترمیم میں بھی روک لی گئیں۔ ایم کیو ایم گراس روٹ لیول پر عوام کو با اختیار کرنے کی بات کر رہی ہے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس آئین کی خالق ہے۔ اس آئین کی بنیاد ہمارے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی، جب وہ وزیراعظم تھے۔ یہ آئین ایک ارتقائی عمل ہے ، اس میں ترامیم وقت کی ضرورت ہیں۔  سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ آج میں اس ایوان میں ایک بھاری دل کے ساتھ کھڑا ہوا۔ ہم اس وقت صرف ایک ترمیم یا ایک شق پر نہیں کھڑے بلکہ آئین کی روح کی بحالی کیلئے کھڑے ہیں۔ جو راستہ آج چنا جا رہا ہے وہ وفاق اور اکائیوں کے رشتے کو کمزور کرے گا۔ آئین کے آرٹیکل 243 کی دو شقوں 4 اور 7 میں نئی ترامیم کی گئی ہیں۔ جس کے تحت چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کا نام تبدیل کر کے کمانڈر آف ڈیفنس فورسز کردیا گیا ہے۔ ترمیم کے مطابق صدر مملکت وزیراعظم کی تجویز پر ایئرچیف اور نیول چیف کی طرح کمانڈر آف ڈیفنس فورسز کا تقرر کریں گے جبکہ جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ 27نومبر 2025 سے ختم تصور کیا جائے گا۔ وزیر اعظم، آرمی چیف کی سفارش پر کمانڈر نیشنل سٹرٹیجک کمانڈ کا تقرر کریں گے اور یہ پاکستان آرمی کے ارکان میں سے ہوگا جس کی تنخواہ اور الاؤنسز مقرر کیے جائیں گے۔ ترمیم کے تحت وفاقی حکومت فوجی افسر فیلڈ مارشل، ایئر مارشل یا ایڈمرل چیف کو رینک پر ترقی دے گی جس کے بعد وردی اور مراعات تاحیات رہیں گی جبکہ فیلڈ مارشل، ایئر مارشل اور ایڈمرل چیف کو بطور قومی ہیروز تصورکیا جائے گا اور تینوں کو آرٹیکل 47 کے بغیر عہدوں سے نہیں ہٹایا جا سکے گا۔ وفاقی حکومت فیلڈ مارشل، ایئر مارشل اور ایڈمرل چیف کی ذمہ داریوں اور امور کا تعین کرے گی جبکہ فیلڈ مارشل کو آرٹیکل 248 کے تحت قانونی استثنیٰ حاصل ہوگا۔ آرٹیکل 63 اے میں لفظ سپریم کورٹ کی جگہ وفاقی آئینی عدالت کرنے کی ترمیم، آرٹیکل 93 میں وزیراعظم کو 7 مشیروں کی تقرری کا اختیار دینے کی ترمیم منظور کر لی گئی۔ نیشنل پارٹی بلوچستان نے 27 ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کا اعلان کیا اور کہا کہ مجوزہ ترمیم آئین کی بنیادی روح اور ڈھانچے کو کمزور کرے گی۔ جے یو آئی نے ترمیم کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہمیں ہر چیز پر اعتراض ہے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے سینٹ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ یہ انتہائی اہم تاریخی بل تھا منظوری پر تمام سینیٹرز کو مبارکباد دیتا ہوں۔ میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کا قیام شامل تھا۔ آئینی عدالت کی دوسری عدالتوں سے علیحدگی بڑی پیشرفت ہے۔ دریں اثناء وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پارلیمنٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ تجویز ہے حالیہ دفاعی تقاضوں کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا عہدہ ختم کیا جائے گا۔ یہ عہدہ 27 نومبر تک بحال رہے گا۔ کمانڈر انچیف ہی 1973ء سے پہلے دفاعی فورسز کا سربراہ ہوتا تھا۔ جس دن پارلیمان نے آرمی چیف اور نیول چیف کی مدت ملازمت پانچ سال کی اسی دن دو سال بڑھ گئی تھی۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق کسی بحث اور نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں۔ آرمی چیف کی مدت کا تعین قانون کے مطابق ہو چکا ہے۔ یہ غیر ضروری بحث ہے کہ 27 تا 29 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت ختم ہونی ہے۔ فیلڈ مارشل اور آرمی چیف میں فرق کیا ہے اس کی وضاحت آئین میں موجود ہے۔ آرمی چیف نے جنگ میں دونوں ساتھیوں کو ساتھ ملا کر لیڈ کیا۔ چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے کا تعین آئین کے مطابق کیا جائے گا۔ وزارت دفاع آرمی ایکٹ میں معمولی ترمیم پر کام کر رہی ہے۔ کون سے مقدمات آئینی عدالت یا سپریم کورٹ سنے گی اس کی بھی پوری وضاحت کر دی ہے۔ سوموٹو کو ختم کیا گیا‘ کورٹ پہلے مطمئن کرے گی۔  

اسلام آباد (عترت جعفری+نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی میں آج ستائیسویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا جائے گا۔ اس کو ممکن بنانے کیلئے ایوان نے ایک وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چودھری کی طرف سے پیش کردہ تحریک منظور کی جس کے تحت منگل کو نجی کارروائی کا دن ختم کر دیا گیا ہے اور منگل کو ایوان میں معمول کی کارروائی ہو گی۔  قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کر دیا گیا۔ بل آج وزیر قانون ایوان میں پیش کریں گے۔  وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ طالبان سے دوبارہ بات ہو سکتی ہے کیونکہ ہم اپنے دوستوں کو انکار نہیں کر سکتے۔ ترکیہ حکومت  و قوم ہماری محسن ہے۔ ترک وفد ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے۔ اگر ہمارے دوست کابل سے کوئی چیز حاصل کرنے کے بعد آفر کر رہے ہیں تو ہم بھائیوں کو انکار نہیں کر سکتے۔ نجی چینل کو انٹرویو میں انہوں نے کہا ترک صدر رجب طیب اردگان کی ذاتی دلچسپی کے مشکور ہیں۔ طالبان زبانی کلامی  مسائل مانتے تھے  مگر لکھ کر دینے کو تیار نہیں تھے۔ کابل حکومت ایک اکائی نہیں ہے۔ 27 ویں کے بعد 28 ویں ترمیم بھی آئے گی۔ جو اس میں رہ گیا ہے وہ اس میں آ جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • قومی اسمبلی اجلاس: وزیر قانون نے 27 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کر دیا، اپوزیشن کا احتجاج
  • سینیٹ سے منظوری کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش
  • اسپیکر ایاز صادق کا سینیٹر عرفان صدیقی کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار
  • سینیٹر عرفان صدیقی کے انتقال پر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا اظہار افسوس اور تعزیت
  • سینٹ 27ویں ترمیم منظور : اپوزیشن کا ہنگامہ ، واک آئو ٹ کا پیاں بھاڑدیں : قومی اسمبلی میں آج ہیش ہوگی 
  • حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار  
  • وزیرِاعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کا سابق ایم این اے افتخار احمد چیمہ کے انتقال پر دکھ کا اظہار
  • حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار
  • رائے ونڈ: عالمی تبلیغی اجتماع کا پہلا مرحلہ دعا کیساتھ ختم
  • سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نامزد اپوزیشن لیڈرز کی پریس کانفرنس