وزیرِ اعظم شہباز شریف کا گلگت بلتستان میں 100 میگاواٹ سولر منصوبہ ایک سال میں مکمل کرنے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے گلگت بلتستان میں 100 میگاواٹ سولر پاور منصوبے کو ایک سال کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کی خود نگرانی کروں گا اور اسے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا تاکہ علاقے کو کم لاگت اور ماحول دوست بجلی بلا تعطل فراہم کی جا سکے۔
منصوبے کا انفراسٹرکچر کلائیمیٹ ریزیلئینٹ ہوگا اور اس کی تعمیر میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیرِ اعظم نے بتایا کہ وفاقی حکومت مکمل لاگت برداشت کرے گی۔
مزید پڑھیں: گلگت بلتستان میں 100 میگاواٹ سولر پاور منصوبے کی منظوری، وزیراعظم کی 3 سال میں تکمیل کی ہدایت
اجلاس میں بتایا گیا کہ گلگت، سکردو اور دیامر میں سولر پارکس اور عمارتوں پر سولر پینلز نصب کیے جائیں گے، جن کے ساتھ بیٹری بیک اپ اور ریئل ٹائم مانیٹرنگ کا نظام بھی ہوگا۔
وزیرِ اعظم نے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے قائم اسٹرینگ کمیٹی کی صدارت وزیرِ بجلی سردار اویس خان لغاری کو سونپ دی ہے۔ اس اقدام کو گلگت بلتستان میں بجلی کی فراہمی میں بہتری اور لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
100 میگاواٹ سولر پاور منصوبہ گلگت بلتستان وزیر اعظم محمد شہباز شریف.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 100 میگاواٹ سولر پاور منصوبہ گلگت بلتستان وزیر اعظم محمد شہباز شریف گلگت بلتستان میں میگاواٹ سولر
پڑھیں:
وزیر اعظم شہباز شریف کی آج صدر ٹرمپ سے ملاقات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ امریکی صدر جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب واشنگٹن اور اسلام آباد نے چند ہفتے قبل ایک تجارتی معاہدے کا اعلان کیا تھا، جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں حالیہ بہتری کو اجاگر کرتا ہے۔
یہ ملاقات ایک نہایت اہم سفارتی کوشش بھی قرار دی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، خطے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، تجارت اور محصولات کے مسائل، نایاب معدنیات پر تعاون، اور انسدادِ دہشت گردی کے وسیع تر اشتراک جیسے امور دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔
(جاری ہے)
ذرائع کے مطابق، وفد ایسے معاملات بھی اٹھائے گا جنہیں ''باہمی دلچسپی‘‘ کے امور قرار دیا گیا ہے، جن میں علاقائی استحکام اور دوطرفہ تعلقات شامل ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک نئے مرحلے میںٹرمپ کے دور میں حالیہ مہینوں میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، اس سے قبل واشنگٹن کئی برسوں تک پاکستان کے حریف بھارت کو ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں توازن قائم رکھنے کے لیے اہم سمجھتا رہا تھا۔
لیکن ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت میں واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات کو ویزا مسائل، بھارت سے درآمدی اشیاء پر ٹرمپ کی جانب سے عائد بھاری محصولات اور ان کے بار بار اس دعوے کی وجہ سے پیچیدہ بنا دیا ہے کہ انہوں نے مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کرائی تھی، جب دونوں جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان تازہ جھڑپیں ہوئیں۔
امریکہ اور پاکستان نے 31 جولائی کو ایک تجارتی معاہدے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت واشنگٹن نے 19 فیصد ٹیرف عائد کیا۔ ٹرمپ ابھی تک بھارت کے ساتھ کوئی تجارتی معاہدہ نہیں کر سکے ہیں۔ حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق، بدلتی ہوئی صورتِ حال نئی دہلی کو بیجنگ کے ساتھ تعلقات از سر نو ترتیب دینے پر مجبور کر رہی ہے۔
ٹرمپ کی پاکستان سے بڑھتی دلچسپیٹرمپ پہلے ہی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کا اظہار کر چکے ہیں۔
شہباز شریف منگل کو اس اجلاس میں بھی شریک تھے جس میں ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر مسلم اکثریتی ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔رواں سال کے اوائل میں ٹرمپ نے پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں میزبانی کی تھی، جو ایک نایاب موقع تھا کہ کسی امریکی صدر نے پاکستانی فوجی رہنما سے ملاقات کی، وہ بھی اس وقت جب کوئی اعلیٰ سول عہدیدار موجود نہ تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی ٹرمپ کی کوششوں پر انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی کھل کر حمایت کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے منگل کو ایک بریفنگ میں کہا،''ہم انسدادِ دہشت گردی کے معاملات کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے حوالے سے کئی امور پر کام کر رہے ہیں۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''صدر کا فوکس خطے میں امریکی مفادات کو آگے بڑھانے پر ہے، جس میں پاکستان اور اس کی حکومت کے رہنماؤں کے ساتھ روابط کو شامل کیا گیا ہے۔‘‘
بھارت امریکہ حالیہ تعلقاتجب بھارت کے ساتھ اختلافات کے بارے میں پوچھا گیا تو امریکی محکمہ خارجہ کے سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ٹرمپ تعلقات میں موجود مسائل پر کھل کر بات کرنے پر یقین رکھتے ہیں لیکن مجموعی طور پر تعلقات مضبوط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن نئی دہلی کو ایک اچھا دوست اور شراکت دار سمجھتا ہے اور مانتا ہے کہ ان کے تعلقات اکیسویں صدی کی سمت کا تعین کریں گے۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ واشنگٹن "کواڈ" گروپ (بھارت، آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ) کی سربراہی اجلاس کی منصوبہ بندی پر کام کر رہا ہے، جو بھارت نومبر میں منعقد کرنے کی توقع رکھتا تھا۔ یہ اجلاس ''اگر اس سال نہیں تو اگلے سال کے اوائل میں‘‘ ہو گا۔
ادارت: صلاح الدین زین