Juraat:
2025-08-14@04:46:11 GMT

سرکاری اداروں کو 6 کھرب کا خسارہ، حکومت کے ہوش اڑ گئے

اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT

سرکاری اداروں کو 6 کھرب کا خسارہ، حکومت کے ہوش اڑ گئے

تقریباً چھ کھرب روپے کے نقصان نے حکومت کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیاہے،وفاقی وزیر خزانہ کا انکشاف
سندھ حکومت کی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پالیسی مؤثر قرار ،سینیٹ میں محمد اورنگزیب کی توجہ دلاؤ نوٹس پر گفتگو

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے انکشاف کیا ہے کہ سرکاری ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کو ہونے والے تقریباً چھ کھرب روپے کے نقصان نے حکومت کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں توجہ دلاؤ نوٹس پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال 25-2024 کی پہلی ششماہی میں سرکاری اداروں کو 5۔89 کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال آٹھ سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔یہ توجہ دلاؤ نوٹس بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کی سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے پیش کیا تھا، تاہم ان کی غیر حاضری میں پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے یہ معاملہ ایوان میں اٹھایا۔وزیر خزانہ کے مطابق گزشتہ سال سرکاری اداروں کی آمدن 12 کھرب روپے ریکارڈ کی گئی تھی، لیکن اس کا تقریباً نصف حصہ نقصانات کی نذر ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اخراجات کم کرنے کے لیے حکومت مختلف اقدامات کر رہی ہے جن میں پنشن اصلاحات بھی شامل ہیں۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ 24 سرکاری اداروں کو نجکاری کے لیے حتمی شکل دی جا چکی ہے، یہ ادارے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری سے منظور ہو کر نجکاری کمیشن کو بھیجے گئے ہیں۔وزیر خزانہ کے مطابق ان اداروں میں سے آٹھ کی نجکاری اس سال مکمل ہوگی جبکہ باقی کی بعد میں جائے گی۔انہوں نے سندھ حکومت کی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پالیسی کو مؤثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایس او ایز کے بورڈز میں نجی شعبے کے چیٔرمین تعینات کیے جا رہے ہیں تاکہ انتظامی امور میں بہتری لائی جا سکے۔وزیر خزانہ نے مزید بتایا کہ تین ڈسکوز (بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں) کی نجکاری کا عمل جاری ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔محمد اورنگزیب کے مطابق کابینہ کمیٹیاں، جن میں ایس او ایز اور رائٹ سائزنگ شامل ہیں، 43 وزارتوں اور 400 سرکاری محکموں میں نجکاری کے عمل پر کام کر رہی ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: محمد اورنگزیب سرکاری اداروں کھرب روپے کہا کہ

پڑھیں:

پی آئی اے کی نجکاری اور سماجی و معاشی روٹس کا مستقبل

گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے نجکاری، مسٹر عبدالعلیم خان نے ایک اہم پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ حکومت تقریباً 8 مختلف سرکاری اداروں کو نجکاری کی فہرست میں شامل کر چکی ہے، جن میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (PIA) بھی شامل ہے۔

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب قومی ایوی ایشن پالیسی میں ’سماجی و معاشی روٹ (socio economic routes)کا مستقبل جو پہلے ہی غیر یقینی کا شکار ہے، ایک مرتبہ پھر خدشات کے دھانے پر آ گیا۔

بغیر socio eco پالیسی کے پی آئی اے  کی نجکاری کا فیصلہ نہ صرف مالی اور انتظامی پہلوؤں سے اہمیت رکھتا ہے، بلکہ ملک کے دور دراز اور مشکل رسائی والے علاقوں کی فضائی رابطہ کاری پر بھی براہِ راست اثر ڈال سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر پی آئی اے کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا تو کیا یہ روٹس برقرار رہیں گے یا پھر منافع نہ ہونے کے باعث ختم کر دیے جائیں گے؟

پالیسی کا بنیادی ڈھانچہ — وعدے کاغذ تک محدود:

پاکستان کی قومی ایوی ایشن پالیسی میں ایک اہم مگر بار بار نظرانداز ہونے والا پہلو ’سماجی و معاشی روٹس‘ ہیں۔ یہ وہ فضائی راستے ہیں جو ملک کے انتہائی دور دراز اور دشوار گزار علاقوں — اسکردو، گلگت، چترال، سوات، گوادر اور بلوچستان کے ساحلی شہروں کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑتے ہیں۔

پالیسی میں یہ واضح شرط رکھی گئی تھی کہ ملکی ایئرلائنز اپنی گنجائش کا کم از کم ایک مخصوص حصہ یعنی 10 فیصد پرائمری روٹس پر اور 5 فیصد سماجی و معاشی روٹس پر استعمال کریں گے۔

دراصل یہ روٹس نہ صرف سیاحتی اور تجارتی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان علاقوں کے لیے زندگی کی شہ رگ ہیں، خاص طور پر برفباری یا طویل زمینی فاصلوں کے باعث یا زمینی سفر متاثر ہونے کی صورت میں یہ روٹس بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں۔

2019 کی پالیسی — ایک ادھورا وعدہ؛

2019 کی قومی ایوی ایشن پالیسی میں تجویز دی گئی تھی کہ غیر منافع بخش مگر اہم روٹس کو مراعات اور مالی معاونت دی جائے۔ مسودے میں کہا گیا تھا کہ ایسے روٹس پر پرواز کرنے والے آپریٹرز کو آپریشنل ٹیکسز اور چارجز میں رعایت دی جائے، اور حکومت یا پی سی اے اے ایک باقاعدہ نظام کے تحت ایئرلائنز کو ادائیگی کرے۔

تاہم یہ معاوضہ اسکیم حتمی پالیسی میں شامل نہ ہو سکی اور نہ ہی اس پر عملدرآمد ہوا، جس کے نتیجے میں پی آئی اے اور دیگر چند ایئرلائنز کو ان روٹس پر مالی نقصان کے باوجود سروس جاری رکھنی پڑی۔

2024 کی پالیسی — خاموشی یا غفلت؟

قومی ایوی ایشن پالیسی 2024 میں سماجی و معاشی روٹس کے معاوضے کے حوالے سے کوئی واضح عوامی اپ ڈیٹ موجود نہیں۔ اگرچہ 2024 کے آخر میں کابینہ نے بعض پالیسی حصوں میں نرمی کرتے ہوئے سیرین ایئر اور ایئر بلیو کو بین الاقوامی پروازیں شروع کرنے کی اجازت دی، مگر سماجی و معاشی روٹس کے لیے سبسڈی یا قانونی ذمہ داری پر خاموشی برقرار رہی۔

نجکاری کے بعد کیا ہوگا؟

نجکاری کے بعد نجی سرمایہ کار تجارتی منافع کو ترجیح دیں گے، اور غیر منافع بخش روٹس عموماً ان کے بزنس ماڈل میں شامل نہیں ہوتے۔ اگر پالیسی میں مضبوط قانونی شق نہ ہوئی تو:

ان روٹس پر پروازیں کم یا بند ہو جائیں گی۔ مقامی آبادی سیاحت اور تجارت کے مواقع سے محروم ہو جائے گی۔ ہنگامی طبی سہولتوں اور اشیائے ضروریہ کی ترسیل میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ بین الاقوامی ماڈلز کیا کہتے ہیں؟

آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپی یونین میں Public Service Obligation (PSO) پروگرام نافذ ہے، جس کے تحت حکومت نجی ایئرلائنز کو سبسڈی دیتی ہے، اور یہ قانون کے تحت لازمی ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس نوعیت کا کوئی مؤثر قانونی ڈھانچہ نہیں۔

سفارشات:

سماجی و معاشی روٹس کو قانونی لازمی خدمت کا درجہ دیا جائے۔

شفاف سبسڈی اسکیم بنائی جائے جو نجکاری کے بعد بھی برقرار رہے۔

بجٹ میں اس مقصد کے لیے مستقل فنڈ مختص ہو اور سالانہ عوامی رپورٹ شائع ہو۔

نجکاری معاہدے میں لازمی شق رکھی جائے کہ خریدار یہ روٹس برقرار رکھے، بصورت دیگر جرمانہ ہو۔

2019 میں جو وعدہ کاغذ پر کیا گیا، وہ کبھی حقیقت نہ بن سکا۔ 2024 کی پالیسی نے بھی اس خامی کو برقرار رکھا۔ اگر نجکاری سے قبل مضبوط قانونی و مالی تحفظات شامل نہ کیے گئے تو شمالی اور ساحلی علاقوں کے عوام فضائی تنہائی کا شکار ہو جائیں گے۔

یہ صرف ایک پالیسی کی ناکامی نہیں، بلکہ قومی یکجہتی اور علاقائی ترقی پر کاری ضرب ہوگی۔ظرورت اس امر کی ہے کہ اس confusion کو فوری طور پر ختم کر کے ایک پالیسی مرتب کی جائے۔

تحریر: عبید الرحمٰن عباسی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایوی ایشن پی آئی اے نجکاری

متعلقہ مضامین

  • حکومت معاشی محاذ پر مضبوط پیش رفت کر رہی ہے،وزیرخزانہ
  • پی آئی اے کی نجکاری اور سماجی و معاشی روٹس کا مستقبل
  • امریکی قرضے 370 کھرب ڈالر سے تجاوز کرگئے
  • جلد بجلی سستی ہو گی: وزیر خزانہ
  • حکومت کے پاس سرکاری سطح پر زیادہ نوکریاں نہیں، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کی ملاقات
  • وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ماتحت 4 اہم اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ
  • حکومت کے چینی کی برآمد کرنے کی اجازت کے فیصلے سے بحران پیدا ہوا، کمپیٹیشن کمیشن نے رپورٹ پیش کردی
  • چینی بحران حکومت کی کس پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوا، کمپیٹیشن کمیشن نے رپورٹ پیش کردی