15 اگست کو بھی عام تعطیل کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے جمعہ 15 اگست کو حضرت داتا گنج بخشؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان کر دیا ہے۔
سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق لاہور ضلع میں تمام سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے اور عوامی محکمے اس روز بند رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا 78واں یوم آزادی: ملک بھر میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار، جگہ جگہ آتش بازی
حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتا صاحب کا سالانہ عرس ملک بھر سے آنے والے ہزاروں عقیدت مندوں کو لاہور میں ان کے مزار پر حاضری کے لیے جمع کرتا ہے۔
گزشتہ ہفتے سندھ کے محکمہ تعلیم نے بھی 15 اگست کو حضرت امام حسینؓ کے چہلم کے موقع پر صوبے بھر کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ اس میں تمام اسکول، کالج اور جامعات شامل ہیں۔
ادھر اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے 13 اگست کو وفاقی دارالحکومت میں مقامی تعطیل کا اعلان کیا تھا، تاہم ضروری خدمات فراہم کرنے والے ادارے جیسے میٹروپولیٹن کارپوریشن، سی ڈی اے، پولیس، بجلی و گیس کمپنیاں اور اسپتال کھلے رہیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تعطیل کا اعلان اگست کو
پڑھیں:
عوام دشمن حکومت کے سیاہ کارناموں میں ایک اور اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251003-03-5
اسامہ تنولی
صوبہ سندھ پر گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے مسلط کردہ حکومت کے پے در پے سیاہ کارناموں نے اہل سندھ کو تنگ، عاجز اور بے زار کر ڈالا ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اپنے عہد حکومت میں اس وجہ سے سندھ کے ناکام ترین وزرائے اعلیٰ میں سر فہرست ثابت ہوئے ہیں۔ موصوف نے گزشتہ دنوں جس طرح سے پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری کی منظوری کے بعد ایک بار پھر سے اپنی کابینہ میں جو ایک نیا ردو بدل کیا ہے اسے سیاسی مبصرین اس لیے بھی مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں کہ ماضی کی طرح اب بھی بہ ظاہر محض وزارتوں کے قلمدانوں اورچہروں کی اس تبدیلی کے لا یعنی عمل کا کوئی بھی حقیقی فائدہ عوام کو ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ سندھ حکومت میں شامل وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج درحقیقت نااہلوں کا ایک ٹولہ ہے جس کا کام صرف بدعنوانی کے ذریعے سے مال جمع کرنا ہی رہ گیا ہے۔ بھان متی کے اس کنبے کو صوبے کے عوام کے مسائل کے حل میں اگر رتی برابر بھی کوئی دلچسپی ہوتی تو آج صوبے اور ان کی حالت اس قدر خراب اور خستہ ہرگز نہ ہوتی۔ اس لیے عوام اور سیاسی مبصرین کی یہ رائے بالکل درست اور صائب معلوم ہوتی ہے کہ سندھ کی کابینہ میں وزراء کی تبدیلی دراصل سیاسی اور گروہی مفادات کے حصول کے لیے کی گئی ہے نہ کہ صوبے اور عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر۔ وزراء کے قلمدانوں میں تبدیلی محض چہروں میں تبدیلی ہے۔ جس کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ پالیسیوں کو تبدیل کیے بغیر سندھ حکومت کے نا اہل ناکام ترین بدنام اور رسوائے زمانہ وزراء خواہ جس بھی نئی وزارت کا قلمدان سنبھالیں گے اپنی اوچھی حرکتوں سے اس کا بھی بٹا بٹھا کر ہی دم لیں گے۔
ابھی اہل سندھ موجودہ حکومت سندھ کی پست حرکتوں سے بے زار اور نالاں ہی تھے کہ بلا جواز اور بیٹھے بٹھائے سندھ کے سرکاری ملازمین کی پنشن میں من مانی غیر دانشمندانہ اصلاحات کے عاقبت نااندیشی پر مبنی فیصلے نے صوبائی حکومت کے خلاف غم، غصے اور نفرت کا ایک طوفان سا اس لیے بھی برپا کر دیا ہے کہ مذکورہ حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے اجراء سے قبل حکومت سندھ کی جانب سے وفاق کی طرح سندھی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی بے تحاشا (جسے کئی سو گنا اضافہ بھی قرار دیا جارہا ہے) کیا جا چکا ہے اور اسے یکم جولائی سے باقاعدہ لاگو بھی کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے حکومت سندھ کے سرکاری ملازمین وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی اس دو عملی اور منافقت پر شدید برہم، ناراض اور نالاں ہو کر 23 ستمبر سے سندھ بھر کے روڈوں اور راستوں پر نکل کر سخت احتجاج میں مصروف ہیں جس کے باعث سندھ بھر کے لگ بھگ تمام سرکاری اداروں میں سرکاری ملازمین کے احتجاج اور تالہ بندی کی وجہ سے سرکاری امور کی انجام دہی ٹھپ اور بند ہو چکی ہے۔ اگر چہ بلاول زرداری گزشتہ سے پیوستہ روز یہ کہہ کر سندھ کے سرکاری ملازمین کو رام کرنے کی سعی ٔ لاحاصل بھی کر چکے ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ سندھ کو مذکورہ نوٹیفکیشن واپس لینے کا کہہ چکے ہیں اور یہ بھی کہ انہیں اس حوالے سے بالکل علم نہیں تھا، تاہم سرکاری ملازمین اس وضاحت اور یقین دہانی کے باوجود صوبے بھر میں بڑے پیمانے پر زبردست احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری ادروں کا سارا کام ٹھپ پڑا ہو ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں سمیت تمام سرکاری امور یکسر معطل ہو کر رہ گئے ہیں، جبکہ سندھ کے سرکاری ملازمین سرعام غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے خلاف ’’ٹھگی جو ٹھاھ، سید مراد علی شاہ‘‘ کے زور دار نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔
مقام حیرت اور لائق تشویش امر یہ ہے کہ سندھ ایمپلائز الائنس (SEA) کے پلیٹ فارم سے صوبے بھر کے تمام سرکاری اداروں کے لاکھوں احتجاجی ملازمین کے اتنے بڑے پیمانے پر مسلسل کیے گئے احتجاج اور سرکاری دفاتر کی تالا بندی کے باوجود بہ ظاہر تاحال حکومت سندھ پر اس کا کوئی بھی اثر ہوتا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔ سیاسی مبصرین بہ طور طنز اس وجہ سے حکومت سندھ کو ’پروٹیسٹ پروف‘‘ بھی کہہ کر پکار رہے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت سندھ کے ذمے داران کی تاحال اس حوالے سے عدم دلچسپی نہ صرف قابل ِ مذمت بلکہ خود اس کے لیے بھی خطرناک ہے، کیوں کہ سرکاری ملازمین کے مذکورہ اتحاد کی جانب سے گزشتہ دن اعلان کیا گیا ہے کہ اب سندھ بھر کے سرکاری اداروں میں تالہ بندی 6 اکتوبر تک جاری رہے گی اور پھر 6 اکتوبر ہی کو ہر حال میں بلاول زرداری ہاؤس کے سامنے دھرنا بھی دیا جائے گا جو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک متنازع پنشن پالیسی واپس لینے سمیت انہیں ڈی آر اے الاؤنس، زندگی ہی میں گروپ انشورنس کی رقم دینے اور دیگر کیے گئے کل چھے مطالبات تسلیم نہیں کر لیے جاتے۔ اس وقت حکومت سندھ کے ذمے داران ہی نہیں بلکہ پی پی پی کی قیادت بھی اس وجہ سے شدید ہدفِ تنقید بنی ہوئی ہے کہ مذکورہ مطالبات منوانے کے لیے سرکاری ملازمین کا احتجاج ویسے تو غیر منظم انداز میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری تھا لیکن حکومت سندھ کی طرف اسے کوئی بھی اہمیت نہ دیے جانے کی وجہ سے اس میں 23 تا 27 ستمبر بے پناہ شدت در آئی اور اس عرصے میں سندھ کے سرکاری تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور دفاتر میں میں تالہ بندی کی وجہ سے سارے کام کاج کا سلسلہ بھی بالکل بند رہا لیکن پھر بھی اتنے بڑے پیمانے پر کیے احتجاج کو بھی حکومت سندھ نے کسی طرح کی کوئی بھی اہمیت نہیں دی ہے۔ اس کے کانوں پر تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کے دوران احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین کو کروائی گئی اس یقین دہانی کے بعد بھی کوئی جوں تک نہیں رینگی ہے کہ ’’سرکاری ملازمین سے کوئی بھی زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی اور انہیں پہلے ہی کی طرح پنشن دی جائے گی‘‘ ورنہ حکومت سندھ ضرور ہی احتجاج میں مصروف سرکاری ملازمین کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی مو ثر قدم اٹھاتی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر حکومت سندھ نے بروقت دانشمندانہ فیصلہ نہ کیا تو سرکاری ملازمین کی یہ تحریک اس کے لیے آ گے چل کر بہت بڑا خطرہ بھی بن سکتی ہے بلکہ سول نافرمانی کی تحریک میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ سرکاری ملازمین لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور اگر ان کے مطالبات وقت پر تسلیم نہ کیے گئے تو اس صورت میں ان کے غم وغصہ میں مزید اضافہ ہو جائے گا جو بہت کچھ بہا کر لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا حکومت سندھ کے ذمے داران کو چاہیے کہ وہ سندھ سروس ایکٹ 2024ء میں کی گئی تمام سرکاری ملازمین دشمن ترامیم کو فوری طور پر واپس لینے کا اعلان کرکے انہیں ختم کر دے بہ صورت دیگر جس طرح جب گیدڑ کی موت آ تی ہے تو وہ شہر کا رُخ کرلیا کرتا ہے بالکل اسی طرح سے مذکورہ سرکاری ملازمین مخالف پالیسیوں کی وجہ سے ان کی حکومت کو بھی جائز مطالبات کے حصول کے لیے چلائی گئی لاکھوں سرکاری ملازمین می اس زور دار اور زبردست پرجوش تحریک سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ درایں اثناء امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ نے بھی بر محل اور بروقت سرکاری ملازمین کے اتحاد (SEA) کے 6 نکاتی جائز مطالبات کی حمایت کا اعلان کردیا ہے جسے سندھ بھر کے سرکاری ملازمین کی جانب سے خوش آ ئند قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے۔