کولمبیا کی مشہور گلوکارہ اور اداکارہ کارول جی یوٹیوب کے پہلے این ایف ایل براہِ راست نشریاتی میچ کے ہاف ٹائم شو کی مرکزی پرفارمر ہوں گی۔

یہ میچ 5 ستمبر کو کینساس سٹی چیفس اور لاس اینجلس چارجرز کے درمیان برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو میں کھیلا جائے گا اور آن لائن نشر کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:یوٹیوب کا نیا اے آئی ایج ایسٹیمیشن ماڈل لانچنگ کے قریب، کم عمر صارفین پر سخت پابندیاں

کارول جی، جنہیں بل بورڈ میگزین نے 2024 کی ’وومن آف دی ایئر‘ قرار دیا اور جن پر حال ہی میں ایک ڈاکیومنٹری بھی بنائی گئی، نے کہا کہ اس ایونٹ کا حصہ بننا ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ میرے لیے فخر کا لمحہ ہے۔ میں برسوں سے این ایف ایل کے ہاف ٹائم شوز دیکھتی آئی ہوں، اور اب اپنی موسیقی کو اس عالمی اسٹیج پر پیش کرنے کا موقع میرے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔

کارول جی کے مطابق میں ساؤ پاؤلو اور دنیا بھر کے مداحوں کے ساتھ جشن منانے کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:مسٹر بیسٹ کے یوٹیوب پر 400 ملین سبسکرائبرز، منفرد پلے بٹن مل گیا

میچ سے پہلے کا شو مشرقی وقت کے مطابق شام 7 بجے شروع ہوگا، جب کہ کھیل ایک گھنٹے بعد شروع ہوگا۔

یوٹیوب کے مطابق مشہور یوٹیوبرز بھی ہاف ٹائم براڈکاسٹ کا حصہ ہوں گے۔ یوٹیوب کی نائب صدر اینجلا کورٹِن نے کہا کہ یہ نشریات این ایف ایل کے ساتھ ہماری شراکت داری میں ایک سنگ میل ہے، جہاں فٹبال، موسیقی اور تخلیق کاروں کی دنیا ایک ساتھ ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کارول جی جیسی عالمی فنکارہ کا اسٹیج سنبھالنا اس بات کا ثبوت ہے کہ لائیو اسپورٹس اور تفریح کا مستقبل عالمی اور باہم جڑا ہوا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ساؤ پاؤلو کارل جی گلوکارہ یوٹیوب.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ساؤ پاؤلو کارل جی گلوکارہ یوٹیوب ایف ایل نے کہا کہ کارول جی

پڑھیں:

پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اگست 2025ء) پاکستان میں چینی کی اس قلّت کے پیچھے چند وجوہات ہیں جو اسی تواتر سے ہر سال ایک سی ہی رہی ہیں۔ سب سے پہلے آپ کو پاکستان کے صوبے بلوچستان لے چلتے ہیں۔ یہاں پر پچھلے دو سالوں سے چینی کی پنجاب سے بلوچستان آمد اور پھر بلوچستان کے راستے افغانستان اسمگل ہونے کی خبریں اکثر سامنے آتی رہی ہیں۔

سرکاری افسران اور بس میں سفر کرنے والوں نے بتایا کہ یہ چینی بسوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جاتی رہی ہے۔ کسٹمز حکام نے بھی اس کی تصدیق کی اور دعویٰ کیا کہ 2023 میں ہر دوسرے روز کوئٹہ سے 100 ٹن چینی اور ہفتے میں 700 ٹن چینی غیر قانونی راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی گئی۔

جہاں اس اسمگلنگ میں پچھلے تین سالوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا وہیں اس سال اسمگلنگ سے متعلق کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔

(جاری ہے)

اس کی وجہ حکام یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی چینی مہنگی ہے جس سے اس کی غیر قانونی خرید و فروخت میں کمی آئی ہے جبکہ افغانستان میں اس وقت قدرے کم قیمت پر بھارتی چینی بازاروں میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس لیے اس وقت اسمگلنگ میں پہلے کے مقابلے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اب پاکستان سے چینی افغانستان اور دیگر ممالک باقاعدہ طور پر برآمد کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اب یہی چینی قانونی راستوں سے افغانستان پہنچتی ہے۔

بلوچستان میں ایک صوبائی افسر نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''ان واقعات کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر چینی لانے اور لے جانے والوں کے لیے پرمِٹ رکھنا اور چیک پوسٹوں پر دکھانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ بے شک آپ کی گاڑی یا ٹرک کئی بار اسی چیک پوسٹ سے گزرے ہوں، آپ سے پرمِٹ مانگا جائے گا۔‘‘

واضح رہے کہ پرمِٹ پہلے بھی دکھائے جاتے تھے لیکن ایک صوبائی افسر نے بتایا کہ ''کچھ گاڑیوں کا پرمِٹ چیک نہیں کیا جاتا،‘‘ جس کے نتیجے میں چینی گاڑیوں اور بسوں کے ذریعے اسمگل ہوتی رہی۔

تاجروں کے مطابق قانونی راستوں سے چینی یا خورد و نوش کی کوئی بھی اشیا بھیجنے میں منافع کم ملتا ہے۔

مذکورہ افسر نے مزید کہا کہ اب ''پنجاب سے چینی اس مقدار میں نہیں آرہی جتنی پہلے آتی تھی۔ تو اسمگلنگ کا مارجن پہلے سے قدرے کم ہو گیا ہے۔‘

حالیہ 'بحران‘ کیسے اور کیوں بنی؟

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''یہ ایک مصنوعی بحران ہے جسے ہر سال مِل مالکان کو فائدہ دینے کے لیے بنایا جاتا ہے۔

اور پھر گنّے کی کرشنگ کا موسم آتے ہی (جس دوران مِل مالکان خسارے میں ہوتے ہیں) ختم کردیا جاتا ہے تاکہ سب برابر کما سکیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ''حکومت نے 757,597 میٹرک ٹن چینی 2024-2025 میں برآمد کی جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ اس سے پہلے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں ایسا کیا گیا تھا جب بغیر کسی پلان اور حکمتِ عملی کے 900000 میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی تھی۔

آپ کو اگر چینی برآمد کرنی ہی ہے تو آپ پہلے 100000 میٹرک ٹن برآمد کریں تاکہ آپ کو مارکیٹ اور حقائق کا پتا چل سکے۔ مارکیٹ اور برآمد کے نتائج جانے بغیر آپ اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں؟‘‘

مفتاح نے کہا کہ ''ان کا مقصد چینی کی قیمت بڑھانے سے ہے نا کہ معاملات سنبھالنے سے۔ یہ مِل مالکان اور ان کے دوستوں پر مشتمل طبقہ ہے جو اس بحران سے منافع کماتا ہے۔

‘‘

واضح رہے کہ چینی کی قیمت جولائی کے مہینے میں 210 روپے فی کلو ہوئی جس کے بعد اب حکومت نے اسے 163 روپے فی کلو پر روک دیا ہے۔

اس کے بارے میں معاشی تجزیہ کار شمس الاسلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "2024-2025 کے دوران پاکستان نے تقریباً 84 ملین ٹن گنے اور 70 لاکھ چینی کی پیداوار کی، اس کے باوجود اس بڑے پیمانے پر پیداوار کے فوائد عام کاشت کاروں تک نہیں پہنچتے۔

اس کے ساتھ ہی ایک شوگر کارٹیل قیمتوں اور پیداوار کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ اور حکومت کی جانب سے بنائے گئے بحران کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔‘‘

شمس الاسلام نے کہا کہ یہ ایک 'منصوبہ بند بحران‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال شوگر کارٹیل ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، جس سے مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے۔ یہ حکومت کو برآمدات کی منظوری دینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے مِلوں کو مقامی قیمتوں میں افراط زر کو برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی مارکیٹ کے نرخوں سے کم فروخت کرنے کی اجازت ملتی ہے۔

شمس الاسلام نے کہا کہ برآمدات مکمل ہونے کے بعد، کارٹیل خام چینی کی درآمد کا مطالبہ کرتا ہے، سپلائی کے بحران کا دعویٰ کرتا ہے، قیمتوں میں مزید اضافہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت یوٹیلٹی اسٹورز اور 'سستی چینی بازار' کے ذریعے چینی کی فروخت پر بھاری سبسڈی خرچ کرتی ہے۔ شوگر ملز کو صنعت کی مدد کے بھیس میں اربوں کی سرکاری سبسڈی ملتی ہے۔

‘‘

جب چینی کی عالمی قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل برآمدی سبسڈی کا مطالبہ کرتا ہے، ٹیکس دہندگان کو اپنے منافع کو فنڈ دینے پر مجبور کرتا ہے۔ جب بین الاقوامی سطح پر قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل مقامی قیمتوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے درآمدات کو روکتا ہے۔

اس بحران سے فائدہ کس کو ہوتا ہے؟

شمس الاسلام نے کہا کہ ''اس کا فائدہ انہیں خاندانوں کو ہوتا ہے جو پاکستان پر حکومت کرتے ہیں۔

‘‘

انہوں نے کہ پاکستان کی شوگر انڈسٹری مارکیٹ فورسز کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس پر سیاسی اشرافیہ کا غلبہ ہے۔ سب سے بڑے مل مالکان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔ بااثر بیورو کریٹس اور کاروباری شخصیات جو ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی کے لیے لابنگ کرتے ہیں، اور بڑی شوگر ملوں میں براہ راست حصص رکھنے والے ریٹائرڈ فوجی اہلکار سب شامل ہیں۔‘‘

سحر بلوچ

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • ترقیاتی منصوبوں کی ٹائم لائن، تعمیراتی معیار کو ہر صورت مد نظر رکھا جائے‘مریم نواز شریف
  • پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟
  • بد قسمتی سے آج ایوانوں میں چند افراد کا راج ہے: خالد مقبول صدیقی
  • ہم عہد دہراتے ہیں پاکستان کے عالمی وقار کو مزید بلند کرینگے: اسحاق ڈار
  • زبان کا جادو: کیا آپ اصل انٹرنیٹ دیکھ بھی پاتے ہیں؟
  • یوٹیوب کا نیا قدم، کم عمر صارفین کے لیے پابندیاں تیار
  • حتمی فیصلے سے پہلے ہی پی ٹی آئی ارکان کو نااہل کردیا گیا، سینیٹر علی ظفر
  • خونی ڈمپر کراچی میں دہشتگردی پھیلارہے ہیں، ہمیں بدمعاشی نہ بتائیں پہلے خود کو ٹھیک کریں، گورنر سندھ
  • پاکستان نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کردی