اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ حزب اللہ لبنان اس دور کے امام حسین (ع)، امام خامنہ ای کیساتھ کھڑی ہے، لبنانی مزاحمتی تحریک کے سربراہ نے تاکید کی ہے کہ لبنانی حکومت اپنے نئے منصوبے کے ذریعے غاصب اسرائیلی رژیم کی سازشوں کی تکمیل میں مگن ہے اسلام ٹائمز۔ لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اعلان کیا ہے کہ آج ہم امام حسین علیہ السلام کے جہاد اور ان کی تحریک کی بدولت، یقینی فتح کے راستے پر گامزن ہیں! آج صبح اربعین امام حسین علیہ السلام کے موقع پر لبنانی عوام کے ساتھ خطاب میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مطلب صرف ذاتی شہادت کے درجے تک پہنچنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے اس تصور کو انفرادی سطح سے بڑھا کر اجتماعی احیاء تک پہنچایا.

. آپؑ کی شہادت نہ صرف اپنے اور آپؑ کے ساتھیوں کے لئے تھی، بلکہ ملت اسلامیہ کے احیاء کے لئے بھی تھی تاکہ یہ مسلم قوم اپنے مستقبل کے لئے اس تحریک سے محرک لے سکے۔ 

شیخ نعیم قاسم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے ہر موڑ پر ہمیں دو راستے درپیش ہیں؛ ہم یا تو امام حسین علیہ السلام کے محاذ پر موجود ہیں یا پھر یزید کے محاذ پر.. جبکہ ہمارے زمانے میں بھی یہ انتخاب واضح ہے؛ ہم "حسین زمانہ" کی جانب کھڑے ہیں کہ جن کے نظریات و موقف کو امام خمینیؒ نے قائم کیا ہے.. جسے امام خامنہ ای نے آگے بڑھایا اور شہید شیخ راغب حرب، سید عباس موسوی اور سید حسن نصر اللہ بھی اسی راستے کے راہی تھے۔ سربراہ حزب اللہ لبنان نے تاکید کی کہ ہم فلسطین کی مکمل آزادی کی جانب اور اِس زمانے کے یزید کہ جو یہی ظالم و جابر امریکہ، غاصب صیہونی رژیم اور اس کے اتحادی ہیں؛ کے خلاف کھڑے ہیں جبکہ آج کی مزاحمت، مکتب کربلا کا ہی ثمر ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ ہم حسینؑ، کربلا اور زینبؑ کی تعلیمات کی بنیاد پر اپنے معاشرے، مستقبل، بچوں اور زندگیوں کی تعمیر کرتے ہیں.. ایسی تعلیمات کہ جو خدا کی محبت سے بھرپور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمت نے مکتبِ کربلا سے جنم لیا ہے جو امام حسین علیہ السلام کے راستے میں مضمر امت اسلامی کی حیات اور ایسے پرچم پر مبنی ہے کہ جو وہ خود صاحب الزمان (ع) کے سپرد کرے گی! انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ 5 اگست 2006 کے روز ہم نے 33 روزہ جنگ کی فتح کا جشن منایا؛ ایک سخت اور ہمہ گیر جنگ کہ جس میں دشمن کی جارحیت کے خلاف 33 دن تک مزاحمت کی گئی اور آخر کار "آپریشن وعدہ صادق" کے ذریعے ایک عظیم فتح حاصل ہوئی درحالیکہ جنگ تموز میں فتح، اللہ تعالی کی مدد اور محمدی (ص) و علوی (ع) عنایت کے سبب ہمیں ملی کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں ایک ایسے وقت میں مدد پہنچائی کہ جب ہماری تعداد انتہائی کم تھی اور ہمارے دشمن بہت زیادہ تھے! 

اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ لبنانی فوج تنہا ملک کی حفاظت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کر لینے اور اس کی دفعات پر عملدرآمد میں "مزاحمت کی جانب سے مدد" سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرحلے پر صبر و تحمل ضروری تھا لیکن اب 8 ماہ گزر جانے کے بعد بھی، ہمیں مزاحمت و مزاحمتی برادری کے طور پر مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے! انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق لبنانی عوام کا ماننا ہے کہ فوج، اکیلے ہی لبنان کی حفاظت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جبکہ "محض سفارتکاری" بھی کافی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی عوام کی اکثریت، مزاحمت اور اس کی مسلسل موجودگی کی حمایت کرتی ہے۔

اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لبنانی حکومت گھناؤنے اسرائیلی منصوبوں کی تکمیل میں مصروف ہے، شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا حکومتی فیصلہ؛ نہ صرف عین جارحیت کے دوران ہی مزاحمت و لبنانی عوام کو "دفاعی ہتھیاروں سے محروم کر دینے" کا باعث ہے.. بلکہ اس فیصلے کا مطلب؛ مزاحمتی مجاہدین اور ان کے خاندانوں کا قتل عام اور انہیں ان کی سرزمین و گھروں سے نکال باہر کر دینے میں سہولت فراہم کرنا بھی ہے! سربراہ حزب اللہ لبنان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا کہ حکومت لبنان پر اپنے کنٹرول کو بڑھاتی اور غاصب اسرائیلیوں کو لبنان سے نکال باہر کر دیتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس وقت اسرائیلی سازشوں کی تکمیل میں مگن ہے.. تو کیا حکومت، نیتن یاہو کی جانب سے ہونے والی اس فیصلے کی تعریف و تمجید پر خوش ہے؟

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اگر آپ خود دفاع نہیں کر سکتے تو کم از کم مزاحمت کو ہی جارحیت کا مقابلہ کرنے دیں، شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ کیا ملک میں ایک ایسے وقت اَمن قائم ہو سکتا ہے کہ جب ایک گروہ دوسرے پر حملہ کر رہا ہو؟ انہوں نے کہا کہ اگر آپ بے بس محسوس کرتے ہیں تو ہمیں دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے دیں.. بالکل ویسے ہی کہ جیسے ہم نے بارہا جنگوں میں اسرائیل کو شکست دی ہے.. اسی طرح سے اس بار بھی وہ شکست کھائے گا! سربراہ حزب اللہ لبنان نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اے "خودمختاری و ہتھیاروں کے (حکومت پر) انحصار" کے حامیو! کیا تم نے ہماری سرزمین پر اسرائیلی آرمی چیف کو، ان قابض (اسرائیلی) فوجیوں کو اس "قبضے" پر مبارکباد دیتے اور مزید کارروائیوں کا وعدہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا؟.. کیا تم نے "گریٹر اسرائیل" کے بارے نیتن یاہو کے الفاظ نہیں سنے؟.. درحالیکہ بعض عرب حکومتیں بھی "مزاحمت اور اس کے مجاہدین کو کاری ضرب لگانے" میں "اسرائیل کی حمایت" کر رہی ہیں!!

لبنانی مزاحمتی تحریک کے سربراہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایک انتہائی خطرناک فیصلہ اٹھایا ہے کہ جو "قومی میثاق" اور "قومی سلامتی" کو تباہ کر ڈالے گا۔ انہوں نے کہا کہ (لبنانی) فوج کو اس راستے پر چلنے پر مجبور نہ کیا جائے درحالیکہ فوج کا قومی ریکارڈ انتہائی صاف ستھرا و بے عیب ہے! 

اس بات پر تاکید کرتے ہوئے مزاحمت اپنے ہتھیاروں سے کبھی دستبردار نہیں ہو گی، سربراہ حزب اللہ لبنان نے تاکید کی کہ حزب اللہ و امل نے سڑکوں پر نکلنے اور مظاہروں کے انعقاد میں تاخیر کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ بحث مباحثے و اصلاحات کا موقع فراہم کیا جا سکے لیکن اگر یہ محاذ آرائی ہم پر مسلط کر دی گئی تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں کیونکہ پھر ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ ہی نہ ہو گا۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ ایسی صورت میں پورے لبنان میں احتجاجی مظاہرے ہوں گے جو امریکی سفارتخانے کی سمت بڑھیں گے اور حق کی حمایت نیز اپنی موجودگی و وجود کا اظہار کریں گے.. جبکہ اس کا وقت مستقبل میں طے پائے گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمت اپنے ہتھیار کبھی نہیں ڈالے گی.. جارحیت جاری ہے اور قابض اب بھی موجود ہیں.. لہذا اگر ضرورت پڑی تو ہم اس اسرائیلی-امریکی منصوبے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لئے "کربلا کی طرز پر جدوجہد" کریں گے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم یہ جنگ جیت لیں گے! 

اپنی گفتگو کے آخر میں اس بات پر خبردار کرتے ہوئے کہ مستقبل قریب میں وجود میں آنے والے کسی بھی قسم کے ممکنہ ہرج و مرج کی پوری ذمہ دار حکومت ہی ہو گی، شیخ نعیم قام نے کہا کہ لبنانی حکومت ہی ممکنہ طور پر وقوع پذیر ہونے والے تمام فتنوں کی ذمہ دار ہو گی اور اسی طرح سے وہی، لبنان کے اندر وجود میں آنے والے ہر قسم کے ممکنہ ہرج و مرج و تخریبکاری کی ذمہ دار بھی ہو گی نیز یہ انتباہ، لبنان و لبنانی شہریوں کے دفاع پر مبنی حکومتی ذمہ داریوں میں کوتاہی سے بھی متعلق ہے!!

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امام حسین علیہ السلام کے حزب اللہ لبنان نے انہوں نے کہا کہ لبنانی حکومت کی تکمیل میں لبنانی عوام کہ لبنانی اس بات پر کہ حکومت کی جانب کے لئے اور اس

پڑھیں:

اسرائیلی حمایت یافتہ گروپ نے سینکڑوں فلسطینیوں کو پراسرار طریقے سے جنوبی افریقہ کیسے پہنچایا؟

جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کے قریب ایک ایئرپورٹ پر جمعرات کی صبح غزہ سے 153 فلسطینیوں کو لانے والی ایک چارٹرڈ پرواز نے حکام کو سخت پریشانی میں مبتلا کر دیا۔

ان فلسطینیوں کو بھاری رقم کے عوض جنوبی افریقہ لانے کی ذمہ داری المجد یورپ نامی گروپ پر ڈالی جارہی ہے جس پر اسرائیل کی حمایت یافتہ ہونے اور فلسطینیوں کی ان کے وطن سے بے دخلی میں معاونت کا الزام ہے۔

یہ بھی پڑھیے: فلسطینی ریاست کا قیام قبول نہیں: سلامتی کونسل اجلاس سے قبل اسرائیل نے مخالفت کردی

غزہ سے جوہانسبرگ پہنچنے والے فلسطینی مسافروں کے پاس نہ تو روانگی کے ایگزٹ اسٹیمپ تھے اور نہ ہی باقاعدہ سفری دستاویزات، جس کی وجہ سے امیگریشن حکام نے تقریباً 12 گھنٹے تک انہیں طیارے میں ہی روک دیا۔ یہ اسی تنظیم کی جانب سے جنوبی افریقہ آنے والی دوسری پرواز تھی۔

بعد ازاں معروف فلاحی تنظیم گفٹ آف دی گیورز کی جانب سے رہائش فراہم کرنے کی یقین دہانی کے بعد تمام افراد کو طیارے سے اترنے کی اجازت دی گئی۔ حکام کے مطابق ان میں سے 23 فلسطینی مزید پروازوں کے ذریعے مختلف ملکوں کو روانہ ہوئے۔

جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ کسی طرح غزہ سے باہر نکالے گئے لگتے ہیں، انہوں نے معاملے کی باقاعدہ تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جنگ زدہ علاقے سے آئے ہوئے فلسطینیوں کو واپس نہیں بھیج سکتے۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیلی فورسز کی الخیل میں کرفیو جاری، مسجدِ ابراہیمی مسلمانوں کے لیے بند کر دی

اس پرواز کے پیچھے موجود تنظیم ‘المجد یورپ’ پر سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ تنظیم دعویٰ کرتی ہے کہ وہ 2010 سے کام کر رہی ہے، مگر اس کی ویب سائٹ اسی سال فروری میں رجسٹر ہوئی جبکہ اس پر موجود کئی لنکس غیر فعال ہیں۔

تنظیم کی جانب سے دیا گیا ای میل بھی موجود نہیں۔ متعدد فلسطینیوں نے بتایا کہ انہیں 1,400 سے 2,000 ڈالر فی فرد کی رقم ذاتی بینک اکاؤنٹس میں جمع کرانی پڑی۔

مسافروں کے مطابق انہیں آخری لمحے پر اطلاع ملی، انہیں صرف ایک چھوٹا بیگ، موبائل فون اور محدود رقم ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔ انہیں بسوں کے ذریعے رفح سے کرم ابو سالم چیک پوسٹ تک لایا گیا، پھر اسرائیلی جانچ کے بعد انہیں رامون ایئرپورٹ منتقل کیا گیا، جہاں سے رومانوی طیارہ نیروبی کے راستے جوہانسبرگ پہنچا۔

فلسطینی سفارتخانے نے اس تنظیم کو گمراہ کن اور استحصالی قرار دیتے ہوئے شہریوں کو خبردار کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل غزہ فلسطین

متعلقہ مضامین