لبنانی حکومت اسرائیلی منصوبوں کی تکمیل میں مصروف ہے، شیخ نعیم قاسم
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ حزب اللہ لبنان اس دور کے امام حسین (ع)، امام خامنہ ای کیساتھ کھڑی ہے، لبنانی مزاحمتی تحریک کے سربراہ نے تاکید کی ہے کہ لبنانی حکومت اپنے نئے منصوبے کے ذریعے غاصب اسرائیلی رژیم کی سازشوں کی تکمیل میں مگن ہے اسلام ٹائمز۔ لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اعلان کیا ہے کہ آج ہم امام حسین علیہ السلام کے جہاد اور ان کی تحریک کی بدولت، یقینی فتح کے راستے پر گامزن ہیں! آج صبح اربعین امام حسین علیہ السلام کے موقع پر لبنانی عوام کے ساتھ خطاب میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مطلب صرف ذاتی شہادت کے درجے تک پہنچنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے اس تصور کو انفرادی سطح سے بڑھا کر اجتماعی احیاء تک پہنچایا.
شیخ نعیم قاسم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے ہر موڑ پر ہمیں دو راستے درپیش ہیں؛ ہم یا تو امام حسین علیہ السلام کے محاذ پر موجود ہیں یا پھر یزید کے محاذ پر.. جبکہ ہمارے زمانے میں بھی یہ انتخاب واضح ہے؛ ہم "حسین زمانہ" کی جانب کھڑے ہیں کہ جن کے نظریات و موقف کو امام خمینیؒ نے قائم کیا ہے.. جسے امام خامنہ ای نے آگے بڑھایا اور شہید شیخ راغب حرب، سید عباس موسوی اور سید حسن نصر اللہ بھی اسی راستے کے راہی تھے۔ سربراہ حزب اللہ لبنان نے تاکید کی کہ ہم فلسطین کی مکمل آزادی کی جانب اور اِس زمانے کے یزید کہ جو یہی ظالم و جابر امریکہ، غاصب صیہونی رژیم اور اس کے اتحادی ہیں؛ کے خلاف کھڑے ہیں جبکہ آج کی مزاحمت، مکتب کربلا کا ہی ثمر ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ ہم حسینؑ، کربلا اور زینبؑ کی تعلیمات کی بنیاد پر اپنے معاشرے، مستقبل، بچوں اور زندگیوں کی تعمیر کرتے ہیں.. ایسی تعلیمات کہ جو خدا کی محبت سے بھرپور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمت نے مکتبِ کربلا سے جنم لیا ہے جو امام حسین علیہ السلام کے راستے میں مضمر امت اسلامی کی حیات اور ایسے پرچم پر مبنی ہے کہ جو وہ خود صاحب الزمان (ع) کے سپرد کرے گی! انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ 5 اگست 2006 کے روز ہم نے 33 روزہ جنگ کی فتح کا جشن منایا؛ ایک سخت اور ہمہ گیر جنگ کہ جس میں دشمن کی جارحیت کے خلاف 33 دن تک مزاحمت کی گئی اور آخر کار "آپریشن وعدہ صادق" کے ذریعے ایک عظیم فتح حاصل ہوئی درحالیکہ جنگ تموز میں فتح، اللہ تعالی کی مدد اور محمدی (ص) و علوی (ع) عنایت کے سبب ہمیں ملی کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں ایک ایسے وقت میں مدد پہنچائی کہ جب ہماری تعداد انتہائی کم تھی اور ہمارے دشمن بہت زیادہ تھے!
اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ لبنانی فوج تنہا ملک کی حفاظت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کر لینے اور اس کی دفعات پر عملدرآمد میں "مزاحمت کی جانب سے مدد" سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرحلے پر صبر و تحمل ضروری تھا لیکن اب 8 ماہ گزر جانے کے بعد بھی، ہمیں مزاحمت و مزاحمتی برادری کے طور پر مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے! انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق لبنانی عوام کا ماننا ہے کہ فوج، اکیلے ہی لبنان کی حفاظت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جبکہ "محض سفارتکاری" بھی کافی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی عوام کی اکثریت، مزاحمت اور اس کی مسلسل موجودگی کی حمایت کرتی ہے۔
اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لبنانی حکومت گھناؤنے اسرائیلی منصوبوں کی تکمیل میں مصروف ہے، شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا حکومتی فیصلہ؛ نہ صرف عین جارحیت کے دوران ہی مزاحمت و لبنانی عوام کو "دفاعی ہتھیاروں سے محروم کر دینے" کا باعث ہے.. بلکہ اس فیصلے کا مطلب؛ مزاحمتی مجاہدین اور ان کے خاندانوں کا قتل عام اور انہیں ان کی سرزمین و گھروں سے نکال باہر کر دینے میں سہولت فراہم کرنا بھی ہے! سربراہ حزب اللہ لبنان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا کہ حکومت لبنان پر اپنے کنٹرول کو بڑھاتی اور غاصب اسرائیلیوں کو لبنان سے نکال باہر کر دیتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس وقت اسرائیلی سازشوں کی تکمیل میں مگن ہے.. تو کیا حکومت، نیتن یاہو کی جانب سے ہونے والی اس فیصلے کی تعریف و تمجید پر خوش ہے؟
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اگر آپ خود دفاع نہیں کر سکتے تو کم از کم مزاحمت کو ہی جارحیت کا مقابلہ کرنے دیں، شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ کیا ملک میں ایک ایسے وقت اَمن قائم ہو سکتا ہے کہ جب ایک گروہ دوسرے پر حملہ کر رہا ہو؟ انہوں نے کہا کہ اگر آپ بے بس محسوس کرتے ہیں تو ہمیں دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے دیں.. بالکل ویسے ہی کہ جیسے ہم نے بارہا جنگوں میں اسرائیل کو شکست دی ہے.. اسی طرح سے اس بار بھی وہ شکست کھائے گا! سربراہ حزب اللہ لبنان نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اے "خودمختاری و ہتھیاروں کے (حکومت پر) انحصار" کے حامیو! کیا تم نے ہماری سرزمین پر اسرائیلی آرمی چیف کو، ان قابض (اسرائیلی) فوجیوں کو اس "قبضے" پر مبارکباد دیتے اور مزید کارروائیوں کا وعدہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا؟.. کیا تم نے "گریٹر اسرائیل" کے بارے نیتن یاہو کے الفاظ نہیں سنے؟.. درحالیکہ بعض عرب حکومتیں بھی "مزاحمت اور اس کے مجاہدین کو کاری ضرب لگانے" میں "اسرائیل کی حمایت" کر رہی ہیں!!
لبنانی مزاحمتی تحریک کے سربراہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایک انتہائی خطرناک فیصلہ اٹھایا ہے کہ جو "قومی میثاق" اور "قومی سلامتی" کو تباہ کر ڈالے گا۔ انہوں نے کہا کہ (لبنانی) فوج کو اس راستے پر چلنے پر مجبور نہ کیا جائے درحالیکہ فوج کا قومی ریکارڈ انتہائی صاف ستھرا و بے عیب ہے!
اس بات پر تاکید کرتے ہوئے مزاحمت اپنے ہتھیاروں سے کبھی دستبردار نہیں ہو گی، سربراہ حزب اللہ لبنان نے تاکید کی کہ حزب اللہ و امل نے سڑکوں پر نکلنے اور مظاہروں کے انعقاد میں تاخیر کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ بحث مباحثے و اصلاحات کا موقع فراہم کیا جا سکے لیکن اگر یہ محاذ آرائی ہم پر مسلط کر دی گئی تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں کیونکہ پھر ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ ہی نہ ہو گا۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ ایسی صورت میں پورے لبنان میں احتجاجی مظاہرے ہوں گے جو امریکی سفارتخانے کی سمت بڑھیں گے اور حق کی حمایت نیز اپنی موجودگی و وجود کا اظہار کریں گے.. جبکہ اس کا وقت مستقبل میں طے پائے گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمت اپنے ہتھیار کبھی نہیں ڈالے گی.. جارحیت جاری ہے اور قابض اب بھی موجود ہیں.. لہذا اگر ضرورت پڑی تو ہم اس اسرائیلی-امریکی منصوبے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لئے "کربلا کی طرز پر جدوجہد" کریں گے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم یہ جنگ جیت لیں گے!
اپنی گفتگو کے آخر میں اس بات پر خبردار کرتے ہوئے کہ مستقبل قریب میں وجود میں آنے والے کسی بھی قسم کے ممکنہ ہرج و مرج کی پوری ذمہ دار حکومت ہی ہو گی، شیخ نعیم قام نے کہا کہ لبنانی حکومت ہی ممکنہ طور پر وقوع پذیر ہونے والے تمام فتنوں کی ذمہ دار ہو گی اور اسی طرح سے وہی، لبنان کے اندر وجود میں آنے والے ہر قسم کے ممکنہ ہرج و مرج و تخریبکاری کی ذمہ دار بھی ہو گی نیز یہ انتباہ، لبنان و لبنانی شہریوں کے دفاع پر مبنی حکومتی ذمہ داریوں میں کوتاہی سے بھی متعلق ہے!!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام حسین علیہ السلام کے حزب اللہ لبنان نے انہوں نے کہا کہ لبنانی حکومت کی تکمیل میں لبنانی عوام کہ لبنانی اس بات پر کہ حکومت کی جانب کے لئے اور اس
پڑھیں:
اسرائیل کے خلاف مسلسل بین الاقوامی بحری مزاحمت
سب جانتے تھے کہ فریڈم فلوٹیلا کولیشن ( ایف ایف سی ) کے زیرِ اہتمام سمود فلوٹیلا کی پینتالیس کشتیوں میں سوار چھیالیس ممالک کے چار سو ستانوے رضاکار فاقہ زدوں کے لیے خوراک و طبی سامان لاد کر اکتیس اگست کو اسپین ، اٹلی ، یونان اور تیونس سے غزہ تک لگ بھگ ایک ماہ کا سفر مکمل نہیں کر سکیں گے۔
سب جانتے تھے اس قافلے میں ماحولیاتی رہنما گریٹا تھنبرگ ، نیلسن منڈیلا کے پوتے مانڈلا ، پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان ، لاہور کے شہری عزیز نظامی ، یورپی پارلیمنٹ کی فرنچ رکن ریما حسن ، بارسلونا کے سابق مئیر ایڈا کولائیو ، یہودی سیاسی ایکٹوسٹ ڈیوڈ ایڈلر کے علاوہ بتیس صحافی ، متعدد فن کار ، سماجی شخصیات اور انسانی حقوق کے کارکن دورانِ سفر دھمکائے جائیں گے اور پھر ہتھکڑیاں پہنا کے اسرائیل لے جائے جائیں گے اور ڈی پورٹ کر دیے جائیں گے۔ کچھ کشتیاں یا تو ڈبو دی جائیں گی ورنہ ضبط ہو جائیں گی۔سو یہی ہوا۔مگر دو کشتیاں مکینو اور مارنیٹی اسرائیلی بحریہ کو جل دے کر غزہ کی سمندری حدود میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں اور ساحل سے کچھ ہی پرے اسرائیلی کمانڈوز کے قابو میں آئیں۔
سب جانتے ہیں کہ ایسی مہمات کا مقصد منزل تک کامیابی سے پہنچنا نہیں ہوتا بلکہ ذرایع ابلاغ کی زینت بن کر عالمی ضمیر کو ہلکا سے جھنجوڑنا ، ریاستی منافقتوں کو بے نقاب کرنا اور ظالم کے گرد ایک اور سوالیہ نشان کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام نہ پہلی بار ہوا نہ آخری بار۔البتہ دو ہزار آٹھ سے اب تک غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑنے کی یہ اڑتیسویں اور سب سے بڑی عالمی کوشش تھی۔
تین ماہ قبل جون میں بھی سسلی سے میڈیلین نامی کشتی کے ذریعے گریٹا تھنبرگ ، یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن اور الجزیرہ کے صحافی عمر فیاض سمیت سات ممالک کے بارہ رضاکاروں نے غزہ پہنچنے کی کوشش کی مگر انھیں ایک سو پچاسی کیلومیٹر پرے ( سو ناٹیکل میل ) بین الاقوامی سمندر میں ہی اسرائیلی کمانڈوز نے حراست میں لے لیا۔انھیں ڈی پورٹ کرنے سے پہلے غزہ سے تیس کیلومیٹر دور اسرائیلی شہر اشدود کی جیل میں رکھا گیا۔
غزہ کا بحری ، بری ، فضائی محاصرہ دو ہزار سات سے جاری ہے۔اس غیر قانونی محاصرے کو توڑنے کی پہلی بین الاقوامی کوشش دو ہزار آٹھ میں ہوئی جب فری غزہ موومنٹ نامی تنظیم کی ایک کشتی اسرائیلی ناکہ بندی سے بچتے ہوئے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔فری غزہ موومنٹ نے دو ہزار سولہ تک وقتاً فوقتاً اکتیس کشتیاں روانہ کیں اور ان میں سے پانچ محاصرہ توڑنے میں کامیاب رہیں۔
مئی دو ہزار دس میں ترک امدادی تنظیم ہیومینٹیرین ریلیف فاؤنڈیشن ( آئی ایچ ایچ ) نے چھ سو بین الاقوامی رضاکاروں کو ’’ ماوی مرمرا ‘‘ نامی ایک بڑے امدادی بحری جہاز کے ذریعے ترکی سے غزہ کے سفر پر روانہ کیا مگر اسرائیلی کمانڈوز نے غزہ کی حدود میں داخلے سے بہت پہلے ہی جہاز پر حملہ کردیا۔اس کارروائی میں دس رضاکار شہید اور لگ بھگ ڈیڑھ سو زخمی ہوئے۔
اس المیے کے ردِعمل میں ترکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات معطل کر دیے۔حسبِ معمول اسرائیل پر بین الاقوامی لعن طعن بھی ہوئی اور حسبِ عادت اسرائیل چکنا گھڑا ثابت ہوا۔اسرائیل نے تین برس بعد دو ہزار تیرہ میں اپنی ’’ آپریشنل غلطی ‘‘ پر ترکی سے معذرت کی۔ترکی نے کارروائی میں شریک اسرائیلی کمانڈوز پر ’’ غیر حاضری ‘‘ میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلا کے علامتی سزائیں سنائیں اور اپنا غصہ ٹھنڈا کیا۔شہدا اور زخمیوں کے لیے ہرجانے کی دو طرفہ بات چیت آج پندرہ برس بات بھی معلق ہے۔
دو ہزار گیارہ میں فریڈم فلوٹیلا دوم کے نام سے دس کشتیوں میں تین سو سے زائد رضاکاروں نے غزہ پہنچنے کی کوشش کی مگر اسرائیل کے بے پناہ سفارتی دباؤ کے سبب یونان نے اس فلوٹیلا کو منظم ہونے کی سہولت فراہم کرنے سے معذرت کر لی۔کچھ کشتیوں میں تکنیکی خرابیاں ڈلوا دی گئیں۔صرف ایک بڑی فرانسیسی کشتی ’’ ڈگنٹی الکراما ‘‘ جس میں سترہ رضاکار سوار تھے اسے مصر جانے کے وعدے پر بندرگاہ چھوڑنے کی اجازت ملی مگر مصری حدود میں پہنچتے ہیں کشتی والوں نے اعلان کیا کہ وہ سمت بدل کر غزہ جا رہے ہیں۔چنانچہ اسرائیلی کمانڈوز نے کشتی اپنی تحویل میں لے لی اور مسافروں کو ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
جون دو ہزار پندرہ میں فریڈم تھری کے نام سے سویڈش جہاز ماریانا آف گوتھنبرگ غزہ کی جانب روانہ ہوا۔اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پہلی کوششوں کے ساتھ ہوا تھا۔اسرائیل نے اس کی سواریوں کو بھی چھ دن قید میں رکھنے کے بعد ڈی پورٹ کر دیا۔
جولائی دو ہزار اٹھارہ میں پھر چار بڑی کشتیاں (العودہ ، فریڈم ، مائی ریڈ اور فلسطین) فیوچر آف فلسطین فلوٹیلا کے نام سے روانہ ہوئیں۔اس بار اسرائیلی کمانڈوز نے امدادی کارکنوں کوگرفتار کر کے زد وکوب بھی کیا۔
اس سال مئی میں لگ بھگ تیس ترک اور آزری رضاکاروں نے کانشئیس ( ضمیر ) نامی کشتی میں مالٹا سے غزہ پہنچنے کی کوشش کی مگر اسرائیلی ڈرونز نے اس کشتی پر مالٹا کی سمندری حدود میں ہی دو حملے کیے۔کشتی کو نقصان پہنچا۔کچھ رضاکار زخمی بھی ہوئے۔
اسرائیل کا دعوی ہے کہ غزہ کی بحری ناکہ بندی بین الاقوامی قانون کے تحت ہے۔مگر ماہرینِ قانون اس دعوی کے بودے پن پر حیران ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ غزہ اسرائیل کا نہیں فلسطینی اتھارٹی کا علاقہ ہے اور اتھارٹی نے کبھی بھی اس ناکہ بندی کی اجازت نہیں دی لہٰذا اس کے قانونی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل نے اب تک جتنے بھی امدادی بیڑوں کو روکا ، حملہ کیا یا مسافروں کو یرغمال بنایا۔یہ سب کاروائی اسرائیل کی بحری حدود میں نہیں بلکہ کھلے بین الاقوامی سمندر میں ہوئی۔ لہٰذا ان کارروائیوں پر قزاقی کا بین الاقوامی قانون لاگو ہوتا ہے۔
ویسے بھی ہر ملک کی سمندری حدود بارہ ناٹیکل میل ( بائیس کلومیٹر ) طے ہے۔جب کہ دو سو ناٹیکل میل ( تین سو ستر کلومیٹر ) تک کا سمندر ماہی گیری ، کانکنی اور دیگر معاشی مقاصد کے لیے تو استعمال ہو سکتا ہے مگر اس میں بھی بحری ٹریفک روکنے کا حق کسی بھی ریاست کو نہیں ۔
سان ریمو بین الاقوامی کنونشن کے مطابق کسی بھی آبادی تک خوراک اور دیگر ضروری امداد کو بحری ناکہ بندی کے ذریعے روکنا بین الاقوامی جرم ہے۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ قرار داد ستائیس سو بیس اور ستائیس سو اٹھائیس کے تحت تمام رکن ممالک پابند ہیں کہ انسانی امداد کی ترسیل میں ہرگز رکاوٹ نہ ڈالیں۔اسرائیل بھی اگرچہ اقوامِ متحدہ کا رکن ہے مگر جس طرح وہ ہر تنظیم ، عدالت اور قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ایسا رویہ بھی قابلِ رشک و حسد ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)