گلبرگ ٹاؤن بلاک 14 میں کمزور عمارت تعمیر
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
رہائشی پلاٹ نمبر130 اور 648 پر ناقص میٹریل سے کمرشل عمارت قائم
ڈائریکٹر ضیاء کو حکام کی سرپرستی جاری ، بنیادی تعمیری ضابطے مکمل نظر انداز
سندھ بلڈنگ گلبرگ ٹان غیر قانونی تعمیرات کا گڑھ بن گیا بااثر مافیا سرگرم ڈائریکٹر وسطی سید ضیا اور مقامی انتظامیہ کی مبینہ سرپرستی میں قانون شکنی شہریوں کی زندگیاں خطرے میںبلاک 14 پلاٹ 130 اور 648 کے رہائشی پلاٹوں پر کمرشل تعمیرات جاری جرآت سروے ٹیم کی موقف لینے کی کوشش ناکام رہی ۔ گلبرگ ٹان اس وقت غیر قانونی تعمیرات کے ایک خطرناک جال میں جکڑا ہوا ہے جہاں بااثر بلڈرز اور زمین مافیا بلڈنگ بائی لاز کو روندتے ہوئے دن رات کام جاری رکھے ہوئے ہیں اسوقت بھی گلبرگ بلاک 14 کے رہائشی پلاٹوں 130 اور 648 پر کمرشل تعمیرات کی جا رہی ہیں جن کے لیے نہ تو نقشہ منظور ہوا ہے اور نہ ہی حفاظتی اقدامات پر عمل ہو رہا ہے ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر سید ضیا اور مقامی انتظامیہ کی مبینہ سرپرستی میں ہو رہا ہے جو بھاری رشوت کے عوض خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں علاقے میں سڑکوں کی تنگی پارکنگ کا بحران اور سیوریج سسٹم کی تباہ حالی کے خدشات شدت اختیار کر رہے ہیںشہریوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو گلبرگ ٹان رہنے کے قابل نہیں رہے گامتاثرین نے وزیرِاعلی سندھ اور اینٹی کرپشن حکام سے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا ہیجرآت سروے ٹیم کی جانب سے موقف لینے کے لئے ڈی جی ہاس رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر رابطہ ممکن نہ ہو سکا ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
نظام انصاف میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جائے، سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلے میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے سدباب کیلیے نظام انصاف میں جدت لانے اور منصوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال پر زور دیا ہے،یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے بینچ کا ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔
18جولائی کی عدالتی کارروائی کا 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جو 28دن بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر پبلک ہوا ہے غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی سے متعلق اپیل کا ہے۔عدم پیروی پر اپیل کو مسترد کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ انصاف میں تاخیر محض انصاف سے انکار نہیں بلکہ اکثر اوقات انصاف کے خاتمے کے مترادف ہوتی ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر عوام کے عدلیہ کے عوام پر اعتماد کو مجروح کرتی ہے،قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے،کمزور اور پسماندہ طبقات کو نقصان پہنچاتی ہے جو طویل عدالتی کارروائی کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔
یہ سرمایہ کاری کو روکتی ہے، معاہدوں کو غیر حقیقی بناتی ہے اور عدلیہ کی ادارہ جاتی ساکھ کو کمزور کرتی ہے،اس وقت پاکستان بھرکی عدالتوں میں 22لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے تقریباً 55ہزار 9سو 41مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ عدالت کو بطور ادارہ جاتی پالیسی اور آئینی ذمہ داری فوری طور پر ایک جدید، جواب دہ اور سمارٹ کیس مینجمنٹ نظام کی طرف منتقل ہونا ہوگا ۔