اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے 26اکتوبر 2024سے لیکر 12اگست 2025 تک پالیسیز ،ہدایات ،ایس او پیز پبلک کردیے  جن میں گاڑیوں کی سہولت اور دیگر مراعات اور سہولیات کی تفصیلات شامل ہیں۔

19مئی 2025کے نوٹیفکیشن  میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کسی جج کی اقلیتی رائے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کیساتھ ہی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے گی ۔ 

اسی طرح موجودہ چیف جسٹس،سابق چیف جسٹسز ،اُنکی اہلیہ ،سرونگ ججزاور اُنکے اہل خانہ سابقہ ججز اور مرحوم ججز کی بیوہ کو متعین کردہ گیسٹ ہاؤسز پرائیویٹ وزٹس کیلئے چار روز کیلئے الاٹ کیا جائے گا،آفیشل وزٹ کیلئے وقت کی قید نہیں ہوگی ۔

سپریم کورٹ کے ججز 18سو سی سی والی 2 سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے کے حقدار ہونگے ،ایک کار دفتری اور  دوسری فیملی کار کہلائے گی ، مینٹیننس سرکاری خرچ سے کی جائے گی ،دونوں کاروں کیلئے چھ سو لیٹر تک ماہانہ پٹرول عوام  کے ٹیکس کے پیسوں سے ادا ہوگا۔

ہر جج دو ڈرائیورز کا حقدار ہوگا جن میں سے ایک ڈرائیور ریگولر، دوسرا عارضی ہوگا ،غیر معمولی حالات یا فوری ضرورت کے تحت تیسری کار بھی جج کو فراہم کی جاسکتی ہے جس کی منظوری رجسٹرار دے گا اور تیسری کار زیادہ سے زیادہ 15روز کیلئے استعمال کی جا سکتی ہے ،تیسری کار    15روز سے زائد وقت تک اپنے پاس رکھنا ہو تو اُسکی منظوری چیف جسٹس دیں گے اور ادائیگی طے شدہ چارجز کے تحت کرنا ہوگی  تاہم تیسری کار کو کوئی جج ایک سال میں 2 ماہ سے زائد وقت تک اپنے پاس  نہیں رکھ سکتا ۔ 

ہر مستقل جج کو ریٹائرمنٹ کے بعد، ایک ماہ کی زیادہ سے زیادہ مدت کے لیے پرائمری گاڑی رکھنے کی اجازت ہوگی اوراس کے بعد یہ گاڑی واپس لی جائے گی۔  چیف جسٹس پاکستان کوبلیو بک کے تحت چیف سکیورٹی آفیسر کی نگرانی میں سکیورٹی (ایسکارٹ گاڑیاں) فراہم کرنے کا استحقاق حاصل ہے،ہر جج کو ایک تربیت یافتہ گن مین اور ایک سکیورٹی (ایسکارٹ) گاڑی فراہم کرنے کا استحقاق حاصل ہوگا، جس کا تناسب 1؍4 ہوگا۔ 

کسی جج کو  خطرے کے پیشِ نظر اضافی سکیورٹی درکار ہو تو چیف جسٹس  کی منظوری سے دوسری ایسکارٹ گاڑی فراہم کی جائے گی، مستقل جج کو ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری پالیسی کے مطابق متروک قیمت پر ایک پرائمری یا سیکنڈری گاڑی خریدنے کا استحقاق ہوگا بشرطیکہ اُس جج نے اس سہولت سے قبل استفادہ نہ کیا ہو، ریٹائرڈ جج کو اپنی خواہش پر اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں قیام کے دوران (حسب موقع) سرکاری گاڑی فراہم کرنے کا استحقاق ہوگا جو دستیابی سے مشروط ہوگی، اس کے عوض وہ مقررہ چارجز ادا کریں گے جبکہ ایٔرپورٹ تک بلا معاوضہ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی حاصل ہوگی۔

ججز کے بیرونی ملک دورے ،چھٹیوں کی پالیسی متعارف کرائی گئی ہے جس کے مطابق کسی جج کو چھٹی دینے نہ دینے کا اختیار چیف جسٹس کو حاصل ہوگا ، بیرونِ ملک روانگی کے لیے چیف جسٹس سے این او سی حاصل کیا جائے گا ، ہر جج اپنی گرمیوں؍سردیوں کی تعطیلات کے دوران نجی غیر ملکی دورے؍بیرونِ ملک سفر کریں گے جس کے لیے چیف جسٹس کا این او سی درکار ہوگا۔ 

گرمیوں اور سردیوں کی تعطیلات کے علاوہ جج صاحبان کو مذہبی فریضوں،زیارت کی ادائیگی، سرکاری نامزدگیاں، بین الاقوامی اعزازات یا ایوارڈز کی وصولی، ذاتی یا اہلِ خانہ کے فوری طبی مسائل، بچوں کی گریجویشن تقریب کیلئے  ہی بیرونِ ملک سفر کی اجازت ہوگی۔

22فروری 2025کو سپریم کورٹ نے پالیسی متعارف کرائی کہ قبل از گرفتاری ،بعد ازگرفتاری کے مقدمات ، تصفیہ کے مقدمات ،فیملی مقدمات ،فیملی کورٹ کے ایک صوبہ سے دوسری صوبے منتقلی کی درخواستیں ترجیح بنیاد پر سماعت کیلئے مقرر ہونگی  اور جلد سماعت کی درخواست کی ضرورت نہیں ہوگی ،انتخابات سے متعلق مقدمات کی فوری سماعت ہوگی ،اگر جلد سماعت کی کوئی درخواست ایک بار مسترد ہوجائے تو دوبارہ ایسی درخواست کم از کم 15روز بعد جلد سماعت کی بنیاد کے ثبوت منسلک کرکے دائر ہوسکے گی ۔

چھ مارچ 2025 کو سرکلر جاری کیا گیا جس میں چیف جسٹس نے سابق ججز اور  مجاز افسران کی طرف سے سرکاری گاڑیوں کے نجی استعمال کی صورت میں  فی کلومیٹر ریٹ میں اضافہ کر دیا  جس کے مطابق کار ،جیپ وین (پانچ سیٹر تک ) بارہ روپے فی کلومیٹر سے بڑھا کر اٹھارہ روپے فی کلو میٹر ،چودہ سیٹر تک  سولہ روپے فی کلومیٹر سے بڑھا کر چوبیس روپے ،اے سی کوسٹر بڑھا کر 72روپے فی کلومیٹر ،ٹرک،منی ٹرک ،لوڈر پک اپ 24روپے فی کلو میٹر ،مسافروں کیلئے ہیوی ڈیوٹی بس 80روپے فی کلو میٹر سے بڑھا کر 120روپے فی کلو میٹر ریٹ کردیا گیا ۔

9جنوری 2025 کا ایک آفس آرڈر پبلک کیا گیا جس کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق جج کے انتقالِ کی صورت میں  میت کو جنازہ گاہ اور تدفین کی جگہ تک لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے انتظام میں مدد دی جائے گی اور قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: روپے فی کلو میٹر سپریم کورٹ فی کلومیٹر کا استحقاق تیسری کار کے مطابق چیف جسٹس سماعت کی کورٹ کے جائے گی بڑھا کر کے لیے

پڑھیں:

فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا ہے ہے کہ فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا پی ٹی آئی چاہتی تو فریق بن سکتی تھی مگر جان بوجھ کر نہیں بنی، سپریم کورٹ نے کبھی حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو کہ 47 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں، تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں، جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔

لاہور میں میڈیکل سٹور سے گن پوائنٹ پر لاکھوں روپے مالیت کی ادویات لوٹ کر فرار ہونے والے ملزمان گرفتار،ادویات سے لدا رکشہ برآمد

سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا تاہم تفصیلی فیصلہ آج آیا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین اور اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا، بینچ کے دو ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں، دو ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سات غیر متنازع حقائق ہیں، سنی اتحاد کونسل کی حد تک مرکزی فیصلے میں اپیلیں متفقہ طور پر خارج ہوئیں کہ وہ مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں، مرکزی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دے دیا گیا جبکہ وہ فریق ہی نہیں تھی، پی ٹی آئی اگر چاہتی تو بطور فریق شامل ہو سکتی تھی مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی کیس میں کسی بھی فورم پر فریق نہیں تھی، جو ریلیف مرکزی فیصلے میں ملا برقرار نہیں رہ سکتا۔

پی ڈی ایم اے پنجاب نے  بارشوں کے باعث دریاؤں کے بہاؤ میں اضافے کا الرٹ جاری کردیا

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی، 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا، جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔ 

وفاقی وزیر اطلاعات عطاتارڑ نے نیشنل پریس کلب میں پولیس داخلے کو افسوسناک قرار دےدیا

مزید :

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ میں 2 اہم اپیلوں کی سماعتیں آئندہ ہفتے مقرر
  • سپریم کورٹ؛ سپر ٹیکس کا مطلب ہی اضافی ٹیکس ہے، واضح کرنے کی کیا ضرورت، آئینی بینچ
  • سپریم کورٹ ججز تبادلہ کیس: جسٹس نعیم اختر افغان کا 40 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری
  • ایس ایچ او تھانے کا کرتا دھرتا، کسی شہری کو بلاوجہ حوالات میں بند کرنا زیادتی ہے: جسٹس عقیل عباسی
  • وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی چیف جسٹس سے ملاقات کی خواہش، سپریم کورٹ میں درخواست دائر
  • فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا
  • سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز پر برطرف ایس ایچ او کی اپیل پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے
  • سپر ٹیکس کیس؛ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تھنک ٹینکس نہیں، سپریم کورٹ کے ریمارکس
  • بادشاہت نہیں جو چاہیں کریں، قانون دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے، جسٹس منصور علی شاہ 
  • نظام عدلیہ میں ڈیجیٹل تبدیلی کا فروغ، مفاہمتی یاداشات پر دستخط