بھارت میں یومِ آزادی کے موقع پر سیاسی درجہ حرارت ایک بار پھر بلند ہو گیا۔ کانگریس کے سینئر رہنما بی کے ہری پرساد نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو “انڈین طالبان” قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اُن کے اس بیان نے سیاسی میدان میں ہلچل مچا دی ہے، جہاں بی جے پی نے نہ صرف اس بیان کو مسترد کیا بلکہ کانگریس کی نیت اور نظریات پر بھی سوال اٹھا دیے۔
  ہری پرساد کا بیان: ’’آر ایس ایس انڈین طالبان ہیں‘

کرناٹک قانون ساز کونسل کے رکن ہری پرساد نے اے این آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس ملک میں امن کو برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ میں انہیں طالبان سے تشبیہ دوں گا — وہ انڈین طالبان ہیں، اور افسوسناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم خود لال قلعہ سے ان کی تعریف کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’کیا کسی ’سنگھی‘ نے کبھی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا؟ یہ شرم کی بات ہے کہ آر ایس ایس ایک باقاعدہ رجسٹرڈ تنظیم بھی نہیں ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ اسے فنڈز کہاں سے ملتے ہیں۔‘‘
تاریخی تناظر: الزامات اور جوابی بیانیہ
ہری پرساد کا کہنا تھا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ’’تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے ماہر ہیں‘‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آزادی سے قبل **اے کے فضل الحق** اور **شیاما پرساد مکھرجی** وہ شخصیات تھیں جنہوں نے بنگال کی تقسیم کی قرارداد پیش کی تھی، مگر آج بی جے پی اس کا الزام کانگریس پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مودی کی جانب سے آر ایس ایس کو خراجِ تحسین
یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے آر ایس ایس کو 100 سال مکمل ہونے پر مبارکباد دی اور کہا کہ آج میں فخر سے کہنا چاہتا ہوں کہ 100 سال قبل ایک تنظیم نے جنم لیا، اور اس نے قوم کی خدمت کے سو سال مکمل کیے — یہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا سنہرا باب ہے۔
بی جے پی کا سخت ردعمل
کانگریس رہنما کے بیان پر بی جے پی کے ترجمان شہزاد پونا والا نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس کبھی فوج کو غنڈہ کہتی ہے، کبھی آپریشن سندور کو سازش، اور اب آر ایس ایس کو طالبان کہہ رہی ہے۔ وہ ہر اُس چیز کی توہین کرتی ہے جو بھارت کے آئین، سکیورٹی اور سناتن اقدار سے جڑی ہے۔
شہزاد پونا والا نے مزید کہا کہ قوم پرست اداروں پر الزامات لگانا کانگریس کی عادت بن چکی ہے، اور عدلیہ نے کئی بار ایسے بیانات پر انہیں تنبیہ بھی کی ہے۔
اختلافِ رائے یا الزام تراشی؟
یہ سیاسی بیان بازی صرف ایک فرد یا تنظیم کے خلاف نہیں، بلکہ بھارت کی نظریاتی کشمکش کا عکس بن چکی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی جہاں خود کو قوم پرستی اور ثقافتی اقدار کا محافظ کہتے ہیں، وہیں کانگریس اور دیگر جماعتیں انہیں سیکولر آئین کے خلاف ایک انتہا پسند سوچ کا حامل مانتی ہیں۔
یہ واضح ہے کہ ایسے بیانات نہ صرف سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہیں، بلکہ معاشرے میں نفرت اور بداعتمادی کو بھی جنم دیتے ہیں۔
ملک کی قیادت، تاریخ اور نظریات پر بحث ایک جمہوری عمل کا حصہ ضرور ہے، لیکن الفاظ کے انتخاب میں احتیاط نہ برتی جائے تو یہ اختلاف محض بیان بازی نہیں، بلکہ انتشار کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

Post Views: 8.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ا ر ایس ایس کو انڈین طالبان بی جے پی کہا کہ

پڑھیں:

اقتدار میں رہنے کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، ملکارجن کھرگے

کانگریس صدر نے کہا کہ بی جے پی کو 65 لاکھ لوگوں کے ووٹوں کو حذف کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایس آئی آر کے عمل سے کس کو فائدہ ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے حکمراں جماعت بی جے پی پر اقتدار میں رہنے کے لئے کسی بھی حد تک غیر اخلاقی حرکت کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں انتخابات میں بہت سی بے ضابطگیاں منظرعام پر آرہی ہیں۔ کانگریس ہیڈکوارٹر اندرا بھون میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ بہار کی ووٹر لسٹ کی اسپیشل انٹینسیو ریویژن (SIR) کے نام پر اپوزیشن کے ووٹ کھلے عام کاٹے جا رہے ہیں۔ کانگریس صدر نے کہا کہ بی جے پی کو 65 لاکھ لوگوں کے ووٹوں کو حذف کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایس آئی آر کے عمل سے کس کو فائدہ ہوا۔ بہار ووٹر لسٹ میں ترمیم کے خلاف کانگریس کی مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن جیتنے کی لڑائی نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی جمہوریت اور آئین کی حفاظت کی لڑائی ہے۔

ملکارجن کھرگے نے کہا کہ خصوصی نظرثانی کے نام پر اپوزیشن کے ووٹ کھلے عام کاٹے جا رہے ہیں، جو زندہ ہیں انہیں مردہ قرار دے دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ یہ بتانے کو تیار نہیں کہ کس کے ووٹ کاٹے جا رہے ہیں اور کس بنیاد پر۔ انہوں نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے شکر گزار ہیں جس نے عوام کی آواز سنی اور الیکشن کمیشن سے ووٹر لسٹ پبلک کرنے کا کہا۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ حکمران جماعت کو 65 لاکھ لوگوں کے ووٹ حذف کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس مشق سے کس کو فائدہ ہوا۔ کانگریس کے قومی صدر نے کہا کہ ای ڈی اور سی بی آئی اور محکمہ انکم ٹیکس جیسی مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کو مخالفین (اپوزیشن پارٹیوں) کے خلاف سیاسی مقاصد کے لئے اس قدر کھلے عام استعمال کیا گیا ہے کہ ملک کی سپریم کورٹ کو انہیں آئینہ دکھانا پڑا۔

ملکارجن کھرگے نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان اپنی "غیر الائنمنٹ پالیسی" کی وجہ سے حاصل کردہ خصوصی پوزیشن کھو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے ہیروز نے اس ملک کے لئے جو خواب دیکھا تھا وہ آج ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ منصفانہ انتخابات کو ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کانگریس صدر نے کہا کہ بی آر امبیڈکر نے 15 جون 1949ء کو دستور ساز اسمبلی میں کہا تھا کہ جمہوریت میں حق رائے دہی سب سے بنیادی چیز ہے، کوئی بھی شخص جو ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کا حقدار ہے، اسے صرف تعصب کی بنا پر خارج نہیں کیا جانا چاہیئے۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی جماعتوں میں اختلافات کے خاتمے کیلئے مذاکرات ضروری ہیں، یوسف رضا گیلانی
  • مودی کی آر ایس ایس کے نظریے پر مبنی تقریر، کانگریس رہنماوں کی سخت تنقید
  • خشک سالی اور ڈیم: افغانستان میں پانی کا بحران علاقائی شکل اختیار کر گیا
  • مودی کی آر ایس ایس کے نظریے پر مبنی تقریر، کانگریس رہنماؤں کی سخت تنقید
  • افغانستان: طالبان کا چار سالہ دور امدادی ضرورتوں میں اضافہ، یو این ادارہ
  • اقتدار میں رہنے کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، ملکارجن کھرگے
  • طالبان کی افغانستان پر قبضے کی چوتھی سالگرہ، خواتین پر پابندی لگا کر مردوں کا بھرپور جشن
  • ’’مصور حقیقت‘‘، خواجہ افتخار صاحب
  • نمبروں سے حقیقت تک؛ کراچی کے تعلیمی معیار کا تجزیہ