آر ایس ایس کو انڈین طالبان کہنا قابل مذمت ہے یا حقیقت؟ سیاسی حلقوں میں گرما گرم بحث
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
بھارت میں یومِ آزادی کے موقع پر سیاسی درجہ حرارت ایک بار پھر بلند ہو گیا۔ کانگریس کے سینئر رہنما بی کے ہری پرساد نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو “انڈین طالبان” قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اُن کے اس بیان نے سیاسی میدان میں ہلچل مچا دی ہے، جہاں بی جے پی نے نہ صرف اس بیان کو مسترد کیا بلکہ کانگریس کی نیت اور نظریات پر بھی سوال اٹھا دیے۔
ہری پرساد کا بیان: ’’آر ایس ایس انڈین طالبان ہیں‘
کرناٹک قانون ساز کونسل کے رکن ہری پرساد نے اے این آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس ملک میں امن کو برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ میں انہیں طالبان سے تشبیہ دوں گا — وہ انڈین طالبان ہیں، اور افسوسناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم خود لال قلعہ سے ان کی تعریف کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’کیا کسی ’سنگھی‘ نے کبھی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا؟ یہ شرم کی بات ہے کہ آر ایس ایس ایک باقاعدہ رجسٹرڈ تنظیم بھی نہیں ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ اسے فنڈز کہاں سے ملتے ہیں۔‘‘
تاریخی تناظر: الزامات اور جوابی بیانیہ
ہری پرساد کا کہنا تھا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ’’تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے ماہر ہیں‘‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آزادی سے قبل **اے کے فضل الحق** اور **شیاما پرساد مکھرجی** وہ شخصیات تھیں جنہوں نے بنگال کی تقسیم کی قرارداد پیش کی تھی، مگر آج بی جے پی اس کا الزام کانگریس پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مودی کی جانب سے آر ایس ایس کو خراجِ تحسین
یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے آر ایس ایس کو 100 سال مکمل ہونے پر مبارکباد دی اور کہا کہ آج میں فخر سے کہنا چاہتا ہوں کہ 100 سال قبل ایک تنظیم نے جنم لیا، اور اس نے قوم کی خدمت کے سو سال مکمل کیے — یہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا سنہرا باب ہے۔
بی جے پی کا سخت ردعمل
کانگریس رہنما کے بیان پر بی جے پی کے ترجمان شہزاد پونا والا نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس کبھی فوج کو غنڈہ کہتی ہے، کبھی آپریشن سندور کو سازش، اور اب آر ایس ایس کو طالبان کہہ رہی ہے۔ وہ ہر اُس چیز کی توہین کرتی ہے جو بھارت کے آئین، سکیورٹی اور سناتن اقدار سے جڑی ہے۔
شہزاد پونا والا نے مزید کہا کہ قوم پرست اداروں پر الزامات لگانا کانگریس کی عادت بن چکی ہے، اور عدلیہ نے کئی بار ایسے بیانات پر انہیں تنبیہ بھی کی ہے۔
اختلافِ رائے یا الزام تراشی؟
یہ سیاسی بیان بازی صرف ایک فرد یا تنظیم کے خلاف نہیں، بلکہ بھارت کی نظریاتی کشمکش کا عکس بن چکی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی جہاں خود کو قوم پرستی اور ثقافتی اقدار کا محافظ کہتے ہیں، وہیں کانگریس اور دیگر جماعتیں انہیں سیکولر آئین کے خلاف ایک انتہا پسند سوچ کا حامل مانتی ہیں۔
یہ واضح ہے کہ ایسے بیانات نہ صرف سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہیں، بلکہ معاشرے میں نفرت اور بداعتمادی کو بھی جنم دیتے ہیں۔
ملک کی قیادت، تاریخ اور نظریات پر بحث ایک جمہوری عمل کا حصہ ضرور ہے، لیکن الفاظ کے انتخاب میں احتیاط نہ برتی جائے تو یہ اختلاف محض بیان بازی نہیں، بلکہ انتشار کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا ر ایس ایس کو انڈین طالبان بی جے پی کہا کہ
پڑھیں:
طالبان کے وزیرِ خارجہ کا اگلے ہفتے بھارت کا دورہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) ایک بڑی اور اہم پیش رفت میں جو خطے کی جغرافیائی سیاست کو بدل سکتی ہے، طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی 9 اکتوبر کو بھارت کا دورہ کریں گے۔ یہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کابل سے نئی دہلی کا پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہو گا، جو بھارت اور طالبان کے درمیان تعلقات کے نئے مرحلے کو ظاہر کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ متقی کو بین الاقوامی سفری پابندیوں سے عارضی استثنیٰ دیا گیا ہے، جس کے تحت وہ 9 سے 16 اکتوبر کے درمیان نئی دہلی کا دورہ کر سکیں گے۔ یہ استثنیٰ اس دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جسے طالبان انتظامیہ اور خطے کی دیگر طاقتیں دونوں ہی اہم سمجھتی ہیں۔
(جاری ہے)
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی سفارتی حلقے کئی مہینوں سے اس لمحے کی تیاری کر رہے تھے۔
جنوری سے ہی بھارتی حکام بشمول خارجہ سیکرٹری وکرم مِسری اور سینیئر آئی ایف ایس افسر جے پی سنگھ نے امیر خان متقی اور دیگر طالبان رہنماؤں کے ساتھ کئی مذاکرات کیے، جو اکثر دبئی جیسے غیر جانبدار مقامات پر ہوئے۔ دبئی میں وکرم مِسری اور افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ملاقات میں افغانستان کے لیے بھارت کی جاری انسانی ہمدردی، خاص طور پر صحت کے شعبے اور پناہ گزینوں کی بحالی پر۔ پر مبنی امداد پر بات ہوئی۔اصل موڑ 15 مئی کو، بھارت کے پاکستان کے خلاف آپریشن سیندور کے فوراً بعد آیا، جب بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے امیر خان متقی سے فون پر بات کی۔ یہ 2021 کے بعد پہلی وزارتی سطح کی بات چیت تھی۔ اس موقع پر جے شنکر نے پہلگام دہشت گرد حملے کی طالبان کی مذمت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور افغان عوام کے ساتھ بھارت کی ''روایتی دوستی‘‘ کو دہرایا۔
بھارت کے طالبان سے بڑھتے تعلقاتاس سے قبل اپریل میں طالبان نے کابل میں بھارتی حکام کے ساتھ اعلیٰ سطحی اجلاس میں پہلگام حملے کی مذمت کی تھی، جہاں بھارت نے اس حملے کی تفصیلات شیئر کیں۔ بھارت کے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم اشارہ تھا کہ بھارت اور افغانستان دہشت گردی کے معاملے پر ایک ہی صفحے پر ہیں۔
اس کے بعد بھارت نے افغانستان کو براہِ راست انسانی امداد میں اضافہ کیا، جس میں غذائی اجناس، ادویات اور ترقیاتی تعاون شامل ہے۔
ستمبر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد بھارت سب سے پہلے امداد بھیجنے والوں میں شامل تھا، جس نے فوری طور پر ایک ہزار خیمے اور 15 ٹن خوراک متاثرہ صوبوں کو روانہ کی۔ اس کے بعد مزید 21 ٹن امدادی سامان بھیجا گیا جس میں ادویات، صفائی کے کٹس، کمبل اور جنریٹر شامل تھے۔ اسے افغان عوام کی مدد کے لیے بھارت کے عزم کا اظہار قرار دیا گیا۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت تقریباً 50 ہزار ٹن گندم، 330 ٹن سے زائد ادویات اور ویکسینز، اور 40 ہزار لیٹر جراثیم کش ادویات فراہم کر چکا ہے۔ یہ مستقل کوششیں لاکھوں افغان عوام کو خوراک کی کمی، صحت کے مسائل اور انسانی بحران سے نمٹنے میں اہم سہارا فراہم کر رہی ہیں۔
پاکستان کے لیے دھچکا؟بھارتی تجزیہ کار اس دورے کو پاکستان کے لیے ایک دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
کیونکہ پاکستان طویل عرصے سے کابل پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس سال کے اوائل میں اسلام آباد کی جانب سے 80 ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے نے طالبان کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر دیے تھے، جس سے بھارت کو زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔تجزیہ کاروں کے مطابق متقی کی نئی دہلی آمد کابل کی پاکستان پر انحصار کم کرنے اور اپنے تعلقات کو متنوع بنانے کی خواہش کی علامت ہے۔
بھارت کے لیے یہ دورہ ایک نازک لیکن حکمتِ عملی پر مبنی قدم بتایا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ براہِ راست تعلقات بھارت کو افغانستان میں اپنے طویل مدتی مفادات کے تحفظ، خطے سے دہشت گردی کے خطرات روکنے، اور چین و پاکستان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورے کے دوران ہونے والی دوطرفہ ملاقات کو ایک ایسا موڑ سمجھا جا رہا ہے جو بھارت اور افغانستان کو محتاط تعاون کی نئی راہ پر گامزن کر سکتا ہے، ایک ایسی راہ جو پورے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو دوبارہ ترتیب دے سکتی ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین