ایف بی آر نے ٹیکس فراڈ ،چوری کی تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کردیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
چوری کی روک تھام کیلئے اضافی سہولیات حاصل کر لی ، صارفین کے انٹرنیٹ اور ٹیلی کام ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکے گا
آڈیٹرز رجسٹرڈ افراد کے ڈیٹا کی رازداری قانون کے مطابق یقینی بنائیں گے،ماہرین کی خدمات حاصل کرے گا‘ذرائع
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے ٹیکس فراڈ اور چوری کی روک تھام کے لیے تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے اضافی سہولیات حاصل کر لی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اب ایف بی آر صارفین کے انٹرنیٹ اور ٹیلی کام ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)بھی ایف بی آر کو مطلوبہ ڈیٹا فراہم کرے گا، جس کے تحت تمام انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں سے سبسکرائبرز کا مکمل ڈیٹا حاصل کیا جا سکے گا۔ایف بی آر نے اس عمل کے لیے باقاعدہ آڈیٹرز کی تقرری کا بھی فیصلہ کیا ہے، جو ٹیکس فراڈ کی تحقیقات میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ذرائع کے مطابق آڈیٹرز رجسٹرڈ افراد کے ڈیٹا کی رازداری قانون کے مطابق یقینی بنائیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر ٹیکس معاملات اور ویلیوایشن کے شعبے میں ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرے گا تاکہ تحقیقات کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور ماہرین کی مدد سے اب ٹیکس چوری اور بے قاعدگیوں کا سراغ لگانا مزید موثر ہوگا۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
برطانیہ میں افغان شہریوں کا ڈیٹا لیک، 3 ہزار 700 افراد متاثر
برطانیہ میں آباد ہزاروں افغان شہری ایک اور ڈیٹا لیک کا شکار ہو گئے ہیں۔ وزارتِ دفاع کے سب کنٹریکٹر انفلائٹ دی جیٹ سینٹر (Inflite The Jet Centre) کے سائبر سکیورٹی واقعے کے بعد تقریباً 3 ہزار 700 افغان شہریوں کے نام، پاسپورٹ کی تفصیلات اور اے راپ (Arap) اسکیم کے تحت فراہم کردہ کوائف متاثر ہوئے ہیں۔
بی بی سی نیوز کے مطابق یہ افغان شہری جنوری سے مارچ 2024 کے دوران برطانوی افواج کے ساتھ کام کرنے کے بعد ری سیٹلمنٹ اسکیم کے تحت برطانیہ لائے گئے تھے۔ متاثرہ افراد کو جمعے کی شام افغان ری سیٹلمنٹ ٹیم کی جانب سے بھیجے گئے ای میل میں آگاہ کیا گیا کہ ان کا ذاتی ڈیٹا بشمول پاسپورٹ نمبر، تاریخ پیدائش اور اے راپ ریفرنس نمبرز لیک ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی جاری،افغان شہری پاکستانیوں کے احسان مند
برطانوی حکومت نے وضاحت کی ہے کہ اس واقعے سے کسی فرد کی جان کو فوری خطرہ لاحق نہیں ہوا اور نہ ہی سرکاری نظام کو کوئی نقصان پہنچا ہے، جبکہ اس بات کے بھی شواہد نہیں ملے کہ یہ ڈیٹا عام کیا گیا ہو۔ تاہم انفلائٹ دی جیٹ سینٹر نے معاملے کو انفارمیشن کمشنر آفس (ICO) کو رپورٹ کردیا ہے۔
چیریٹی ’سلحہ الائنس‘ سے وابستہ پروفیسر سارہ دے جونگ نے اسے حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ جن افغانوں نے برطانوی جانیں بچائیں، انہیں اب اپنی جانوں کا خوف لاحق ہو گیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ منتقلی کے تمام زیر التوا کیسز فوری نمٹائے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: 31 دسمبر کے بعد افغان شہری اسلام آباد میں نہیں رہ سکیں گے، وزیر داخلہ نے ڈیڈلائن دیدی
یہ واقعہ 2022 کے ایک بڑے ڈیٹا لیک کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں تقریباً 19 ہزار افغان شہریوں کی معلومات غلطی سے عام ہوگئی تھیں۔ ان افراد میں وہ افغان بھی شامل تھے جن کی جانوں کو طالبان سے خطرہ تھا اور بعد ازاں انہیں خفیہ طور پر برطانیہ منتقل کیا گیا۔
ادھر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نیوز نے ان افغان شہریوں میں سے ایک خاندان کے بیٹے سے بات کی، جس نے کہا کہ ان کے والد طالبان کے ہاتھوں قتل ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کی معلومات لیک ہو چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان شہری انخلا کے لیے مزید وقت کے خواہاں
سابق برطانوی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سر مارک لائل گرانٹ نے دونوں ڈیٹا لیکس کو حکومت کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث قرار دیا اور کہا کہ برطانیہ کو اپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں۔ سابق کنزرویٹو وزیر خزانہ کوآسی کوارٹنگ نے بھی اس واقعے کو انتہائی سنگین قرار دیا، جبکہ لبرل ڈیموکریٹس نے حکومت پر ناقابلِ یقین نااہلی اور ناکافی سیکیورٹی اقدامات کا الزام لگاتے ہوئے مکمل آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
افغان کمیونٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان واقعات نے نہ صرف متاثرہ افغانوں بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی شدید عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ برطانیہ نے طالبان کے خلاف لڑنے والے ان افراد کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر بار بار کے ڈیٹا لیکس ان کے لیے مزید خطرات پیدا کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغان شہری افغانستان برطانیہ ڈیٹا لیک سیکیورٹی طالبان