خیبرپختونخوا: سیلاب متاثرہ اضلاع میں وبائی امراض پھیلنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 24th, August 2025 GMT
پشاور:
خیبرپختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں وبائی اور موسمی امراض تیزی سے پھیلنے لگے ہیں۔
محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ علاقوں میں پیٹ و آنتوں کی بیماریوں، ہیضہ، ملیریا، ڈینگی، جلدی امراض اور سانس کی بیماریوں کے ہزاروں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
دستاویز کے مطابق صرف ڈائریا کے 11 اضلاع سے 2 ہزار 506 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں دیر لوئر سے سب سے زیادہ 823، سوات سے 591، بونیر سے 319 اور باجوڑ سے 262 کیسز شامل ہیں۔ دیگر اضلاع میں بھی درجنوں کیسز سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق متاثرہ علاقوں میں خونی پیچش کے 116 مریض جبکہ ملیریا کے 123 کیسز رپورٹ ہوئے۔
محکمہ صحت کے مطابق ڈینگی کے بھی 15 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں صوابی میں 8، دیر لوئر میں 6 اور باجوڑ میں ایک کیس شامل ہے۔ متاثرہ علاقوں میں خارش اور دیگر جلدی امراض کے سینکڑوں مریض بھی سامنے آئے ہیں۔ دستاویز کے مطابق تورغر میں 172، دیر لوئر میں 125 اور شانگلہ میں 128 جلدی امراض کے مریض رجسٹرڈ ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سانپ اور کتوں کے کاٹنے کے 35 سے زائد واقعات پیش آ چکے ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں نزلہ، زکام اور سانس کی بیماریوں کے 2 ہزار 245 مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔
سیکریٹری صحت شاہد اللہ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں محکمہ صحت کی ٹیمیں اور موبائل اسپتال موجود ہیں اور ایک لاکھ 64 ہزار سے زیادہ مریضوں کو طبی امداد فراہم کی جا چکی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سانپ اور کتوں کے کاٹنے کی ویکسین متاثرہ اضلاع میں بھیج دی گئی ہیں جبکہ نفسیاتی امراض میں اضافے کے باعث ماہرینِ نفسیات پر مشتمل ٹیمیں بھی متاثرہ علاقوں میں تعینات ہیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان متاثرہ علاقوں میں کیسز رپورٹ ہوئے اضلاع میں کے مطابق
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
ایک تازہ بین الاقوامی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) معطل کیے جانے کے بعد پاکستان کو پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سڈنی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی ’اکولوجیکل تھریٹ رپورٹ 2025‘ کے مطابق اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت کو دریائے سندھ اور اس کی مغربی معاون ندیوں کے بہاؤ پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے، جو براہِ راست پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی نے یہ معاہدہ رواں سال اپریل میں پاہلگام حملے کے بعد جوابی اقدام کے طور پر معطل کیا تھا۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان کی زراعت کا تقریباً 80 فیصد انحصار دریائے سندھ کے نظام پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ معمولی رکاوٹیں بھی پاکستان کے زرعی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں کیونکہ ملک کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت ہے، موجودہ ڈیم صرف 30 دن کے بہاؤ تک پانی روک سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے بہاؤ میں تعطل پاکستان کی خوراکی سلامتی اور بالآخر اس کی قومی بقا کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ اگر بھارت واقعی دریاؤں کے بہاؤ کو کم یا بند کرتا ہے، تو پاکستان کے ہرے بھرے میدانی علاقے خصوصاً خشک موسموں میں، شدید قلت کا سامنا کریں گے۔
مزید بتایا گیا کہ مئی 2025 میں بھارت نے چناب دریا پر سلال اور بگلیہار ڈیموں میں ’ریزروائر فلشنگ‘ آپریشن کیا جس کے دوران پاکستان کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ اس عمل سے چند دن تک پنجاب کے کچھ علاقوں میں دریا کا بہاؤ خشک ہوگیا تھا۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا، جس کے تحت مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول بھارت کو اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا اختیار پاکستان کو دیا گیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تین جنگوں کے باوجود برقرار رہا۔
تاہم رپورٹ کے مطابق، 2000 کی دہائی سے سیاسی کشیدگی کے باعث اس معاہدے پر عدم اعتماد بڑھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوران مشرقی دریاؤں کے مکمل استعمال کی کوششوں کے ساتھ، پاہلگام حملے کے بعد بھارت نے معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا۔
پاکستان کی جانب سے اس اقدام پر شدید ردِعمل دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان کے پانیوں کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔
جون 2025 میں بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے بیان دیا کہ سندھ طاس معاہدہ اب مستقل طور پر معطل رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں