Express News:
2025-09-18@12:56:17 GMT

نئے صوبوں کی تشکیل کا سیاسی و انتظامی پس منظر

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

پاکستان میں ہمیشہ سے نئے صوبوں کی بحث کا ایک سیاسی،انتظامی اور معاشی پس منظر ہے ۔اس بحث کو سمجھنے کے لیے ہمیں قومی،سیاسی ،انتظامی و مالی سطح پر اختیارات ،چھوٹے شہروں یا دیہی علاقوں کو ترقی کے عمل میں موجود رکاوٹوں کا ادراک ہونا لازم ہے ۔جب ہم ترقی کے عمل کو چند بڑے شہروں اور کسی صوبے کے مخصوص لسانی و قبائلی علاقے تک محدود رکھیں گے تو لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ انھیں انتظامی اور مالی معاملات سے دور رکھا جارہا ہے ۔

اگر اکنامک سروے آف پاکستان کی 2024-25کی رپورٹ دیکھیں تو ہمیں چاروں صوبوں کی سطح پر ایسے اعداد وشمار دیکھنے کو ملیں گے جس میں سیاسی ،سماجی ،معاشی تفریق کے پہلو نمایاں نظر آئیں گے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں موجودہ حالات میں ریاست اور حکومت کا عوام سے تعلق جہاں کمزور نظر آتا ہے وہیں ان فریقین میں ایک دوسرے کے بارے میں خلیج اور بداعتمادی پر مبنی ماحول غالب نظر آتا ہے۔

2010میں 18ویں ترمیم کے بعد جیسے مرکز نے صوبوں کو سیاسی ،انتظامی اور مالی اختیارات دیے تھے تو توقع کی جارہی تھی کہ اسی طرح ہم دیکھیں گے کہ صوبے بھی شفافیت اور اپنی سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر اضلاع، تحصیل ، ٹاون،یونین کونسل سمیت ویلج کونسل تک سیاسی، مالیاتی اور انتظامی اختیارات کی منتقلی کو بنیاد بنا کر ایک مضبوط خود مختار ،موثر ،شفاف مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنی سیاسی ترجیحات میں بنیادی فوقیت دیں گی۔

18ویں ترمیم کے بعد حکمرانی کے نظام سے جڑے مسائل کے حل کی بنیادی ذمے داری بھی وفاق کے مقابلے میں صوبوں پر عائد ہوتی ہے۔اسی طرح صوبائی خود مختاری کا اصول کا براہ راست تعلق ہی ضلعی خود مختاری سے جڑا ہوتا ہے۔لیکن صوبائی حکومتوں نے جہاں گورننس کے نظام کو خراب کیا وہیں مقامی حکومتوں کے نظام سے انحراف کی پالیسی سے چھوٹے شہر یا دیہی علاقوں کی ترقی کا پہلو جہاں کمزور نظر آتا ہے وہیںلوگوں میں احساس محرومی کی سیاست بھی بڑھی ہے۔ صوبائی حکومتیں اپنے زیرانتظامی علاقوں میں مساوات کا نظام قائم نہیں رکھ سکے ۔ آج بھی صوبوں کے اندر مخصوص بالادست گروپ اقتدار پر قابض ہے ۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 45فیصد افراد اس ملک میں غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور 36فیصد افراد بنیادی خوراک کے بحران کا شکار ہیں۔اس ملک کی تقریبا 40سے 45فیصد آبادی ناخواندہ ہے اور لڑکیوں میں شرح تعلیم چھوٹے شہروں یا دیہی علاقوں میں اور کم ہے ۔14لاکھ نوجوان ڈیڑھ برس میں معاشی بدحالی یا عدم روزگار کی وجہ سے ملک چھوڑ گئے ہیں جس میں تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہیں۔

  اگر ان اعدادو شمار کو صوبوں میںتقسیم کیا جائے تو صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اور ترجیحات کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے بھی حکمرانوں کی توجہ اس طرف دلائی ہے کہ ہم گورننس کے بحران کو حل کیے بغیر سیاسی ،انتظامی اور معاشی ترقی کے اہداف پورے نہیں کرسکیں گے۔اس سے قبل ورلڈ بینک بھی اس امر کی نشاندہی کرچکا ہے کہ موجودہ بیوروکریسی پر مبنی ڈھانچہ معاشی ترقی میں بڑی اہم رکاوٹ ہے اور اس میں سخت گیر اصلاحات درکار ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہماری تمام حکمران یا دیگر سیاسی حکومتیں چاہے وہ وفاق میں ہوں یا صوبوں میں وہ اپنے طرز حکمرانی کے باعث مرکزیت پر مبنی نظام کو اختیار کرکے اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتی رہی ہیں اور سخت گیر اصلاحات سمیت جوابدہی اور احتساب ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا۔اس پس منظر میں سابق ناظم لاہور اور ماہر تعلیم میاں عامر محمود نے نئے صوبوں کی بحث کو آگے بڑھایا ہے ۔

اس پر انھوں نے تفصیل کے ساتھ ایک معلوماتی کتابچہ بھی لکھا ہے جو نئے صوبوں کی تشکیل کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتا ہے۔میں نے کتابچہ کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے جس کا عنوان Pakistan  1947-2025, Why it Continues to fail  to People?۔اسی طرح اکنامک پالیسی بزنس ڈویلپمنٹ نے نئے صوبوں کی تشکیل پر تین منظرنامے اصلاحات کے تناظر میں پیش کیے ہیں۔ پہلے منظر نامہ میں ملک میں 12نئے صوبے،دوسرے میں پندرہ سے بیس نئے صوبے اور تیسرے میں تجویز دی ہے کہ 38 وفاقی ڈویژن ہوسکتے ہیں۔ وہ خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام پر بھی زور دے رہے ہیں۔

نئے صوبوں کی تشکیل پر ملک میں موجود بڑی سیاسی جماعتوں کا موقف مختلف ہے ۔ وہ بااختیار مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنی سیاست کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں ۔نئے صوبوں کی تشکیل کو بڑی سیاسی جماعتیں کیونکر درست نہیں سمجھتی ہیں اور یہ کیسے فیڈریشن کو کمزور کرنے کا سبب ہیں۔اسی طرح یہ سوال بھی سیاسی قیادت سے پوچھا جانا چاہیے کہ انھوں نے گورننس کے نظام کی بہتری میں کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ اس کا جواب بھی تضادات پر مبنی ہوگا۔ اصل میں اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے موجودہ سیاسی اور انتظامی ڈھانچوں کا نہایت سنجیدگی سے تجزیہ کرنا ہوگا ۔ ہمیں اب دنیا کے حکمرانی کے نظام میں ہی اختیار کیے جانے والے تجربات سے بھی سیکھنا ہوگا ۔آج کا دور جدیدیت پر مبنی حکمرانی کا ہے اور اس میں مقامی حکومتوں اور مقامی لوگوں کی ترقی کو ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔

اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا موجودہ حالات اور آئین کی موجودگی یا نئے صوبوں کی تشکیل کے وضع کردہ آئینی پہلوؤں یا نقاط کی موجودگی میں ایسا ممکن ہوگا۔یہ کام اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب صوبائی اسمبلی پہلے اور پھر قومی اسمبلی نئے صوبوں پر دو تہائی سے قرارداد پاس کرے جو موجودہ نہیں ہے ۔تو پھر نئے صوبے کیسے بنیں گے اور کیا ہم اس کے لیے ریفرنڈم کی طرف جائیں گے،جو مشکل کام نظر آتا ہے۔لیکن نئے صوبوں کی عملی ضرورت یا مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام اور عام آدمی کے مفادات پر مبنی نظام کی بحث کو آگے بڑھانا چاہیے ۔

اس سے قطع نظر کہ یہ بحث کس نے شروع کی ہے ہمیں اپنے گورننس کے نظام کی خرابیوں کو تسلیم کرکے اس تجزیہ کو آگے بڑھانا چاہیے کہ ہم کیسے جدیدیت یا نئے طرز حکمرانی کی بنیاد پر اپنے لیے نظام میں بہتری کے نئے امکانات پیدا کرسکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مقامی حکومتوں کے نظام نئے صوبوں کی تشکیل انتظامی اور نظر آتا ہے گورننس کے نظام کو

پڑھیں:

زمین کے ستائے ہوئے لوگ

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

 

کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • ویٹ پالیسی پر صوبوں سے مشاورت شروع، اوزون بچانا انسانیت کا فریضہ: مریم نواز
  • پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • پاکستان کی پہلی جامع ’ویٹ پالیسی‘ کی تیاری، صوبوں کے ساتھ مشاورت کا آغاز
  • زیارت سے اغوا ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر اور بیٹے کی ویڈیو منظر عام پر، رہائی کے لیے مطالبات تسلیم کرنے کی اپیل
  • کراچی؛ پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • چاروں صوبوں کی فلور ملز کا وفاقی حکومت سے بڑا مطالبہ
  • برطانیہ میں کسی کو رنگ یا پس منظر کی وجہ سے خوفزدہ نہیں ہونے دیا جائے گا: کیئر اسٹارمر
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ