امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف کل بروز بدھ سے نافذ ہوجائےگا۔ درآمدات پر اس ٹیکس کے نفاذ نے بھارت کی برآمدی صنعتوں کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ خاص طور پر تیرُوپور (تمل ناڈو) کے گارمنٹس ہب، سورت (گجرات) کی ہیرے کی صنعت، اور آندھرا پردیش کے جھینگا (Shrimp) فارمز بدترین صورتحال سے دوچار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ پیوٹن مذاکرات ناکام ہوئے تو بھارت پر مزید ٹیرف لگائیں گے، امریکا کی مودی سرکار کو وارننگ

برطانوی خبر رساں ادارے ’بی بی سی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق تیرُوپور میں، جو بھارت کی تیار شدہ ملبوسات کی برآمدات کا تقریباً ایک تہائی فراہم کرتا ہے، کئی فیکٹریوں میں مشینیں بند پڑی ہیں۔ ن کرشنامورتی، جو 200 مشینوں کے مالک ہیں، کہتے ہیں:

’ستمبر سے شاید ہمارے پاس کچھ بھی کرنے کو نہ بچا۔ تمام بڑے امریکی کلائنٹس نے آرڈرز روک دیے ہیں۔ میں نے 250 نئے مزدور رکھے تھے، مگر اب انہیں کام پر نہیں لا پا رہا۔‘

یہ بھی پڑھیں بھارت پر 50 فیصد ٹیرف: پاکستانی ایکسپورٹ مارکیٹ کیلئے فائدہ اُٹھانا فوری طور پر ممکن نہیں، معاشی ماہرین

 اس کے اثرات فوری نظر آئے ہیں:

ایک فیکٹری میں تقریباً 10 لاکھ ڈالر کا انڈر ویئر اسٹاک امریکی خریدار نہ ملنے کے باعث فیکٹری ہی میں پڑا ہوا ہے۔

ٹی شرٹ جو پہلے 10 ڈالر میں امریکی مارکیٹ میں بکتی تھی، اب ٹیرف کے بعد 16.

4 ڈالر کی پڑ رہی ہے۔ نتیجتاً چین، ویتنام اور بنگلہ دیش کی مصنوعات کہیں زیادہ سستی ہیں۔

 سورت کی ہیرے کی صنعت

پہلے مہینے میں 2000 ہیرے تراشے جاتے تھے، اب صرف 300 رہ گئے ہیں۔

ایک یونٹ میں 300 کارکن کام کرتے تھے، اب صرف 70 بچے ہیں۔

مزدوروں کو زبردستی چھٹی، کم اجرت اور نوکریوں کے خاتمے کا سامنا ہے۔

عالمی مانگ میں کمی اور لیب میں بنے ہیرے (Lab-grown diamonds) کی بڑھتی سپلائی نے پہلے ہی مشکلات بڑھا رکھی تھیں، اب ٹیرف نے ’ڈبل جھٹکا‘ دے دیا ہے۔

 جھینگا (Shrimp) فارمز

امریکا بھارت کا سب سے بڑا خریدار تھا، مگر نئے ٹیکس کے بعد قیمتیں 60 سے 72 سینٹ فی کلو کم ہو گئی ہیں۔

فارمز نے پیداوار میں کمی کر دی ہے۔ ایک ہچری (hatchery) نے بتایا کہ پہلے سالانہ 100 ملین لاروا بنتے تھے، اب صرف 60–70 ملین۔

اندازہ ہے کہ اس بحران سے 5 لاکھ کسان براہ راست اور 25 لاکھ افراد بالواسطہ متاثر ہوں گے۔

ٹرمپ ٹیرف کے بھارت میں وسیع تر اثرات

امریکا بھارت پر روسی تیل اور ہتھیار خریدنے پر بھی 25% اضافی جرمانہ لگا رہا ہے۔

تجارتی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ عملی طور پر تجارتی پابندی ہی کی ایک شکل ہے۔

نئی دہلی میں طے شدہ تجارتی مذاکرات منسوخ ہو گئے ہیں، اور امریکا نے بھارت پر بیجنگ سے قربت اور روس کے لیے “laundromat” ہونے کا الزام لگایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں بھارت میں مذہبی میلے کے دوران ٹرمپ کا پتلا اٹھاکر اضافی ٹیرف کیخلاف انوکھا احتجاج ریکارڈ

بھارت صنعت کیسے اس اچانک بحران کا مقابلہ کرسکتی ہے؟ ماہرین کے مطابق بھارت کو اب لازمی طور پر خود انحصاری (Self-Reliance) پر زور دینا ہوگا، برآمدی منڈیوں میں تنوع (Diversification) پیدا کرنا ہوگا، اور یورپ، برطانیہ، آسٹریلیا جیسے متبادل شراکت داروں سے فوری معاہدے کرنا ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارت پر

پڑھیں:

امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔

جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔

نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“

سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صائم ایوب کی ٹی ٹوئنٹی میں بدترین کارکردگی، نیا ریکارڈ بنا لیا
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • ’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
  • امریکا میں سفیر پاکستان کا پاک-امریکا بزنس کانفرنس اینڈ ایکسپو 2025 کا افتتاح 
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • حیران کن پیش رفت،امریکا نے بھارت سے10سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا
  • امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کردیے
  • امریکی سینیٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کے مختلف ممالک پر عائد ٹیرف کو مسترد کردیا
  • امریکی سینیٹ نے مختلف ممالک پر لگایا گیا ٹرمپ ٹیرف مسترد کردیا
  • ایران کا امریکا پر جوہری دوغلا پن کا الزام، ٹرمپ کے جوہری تجربات کے اعلان کی مذمت