Express News:
2025-09-17@21:34:04 GMT

گریٹر اسرائیلی منصوبہ ناقابل قبول

اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT

نائب وزیراعظم اسحق ڈار نے کہا ہے کہ گریٹر اسرائیل منصوبہ ناقابل قبول اور امن کے لیے خطرہ ہے۔ پاکستان اس منصوبے کو مسترد کرتا ہے، غزہ میں انسانی امداد کی فوری رسائی یقینی بنائی جائے۔

جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ او آئی سی کے ہنگامی اجلاس پر ترکیہ، ایران اور فلسطین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ غزہ میں معصوم فلسطینیوں کے خون بہایا جا رہا ہے۔ عالمی برادری فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے کوشش کرے۔ جبری بے دخلی اور غیر قانونی قبضے کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔

 دنیا اس وقت تاریخ کے ایک نہایت نازک مرحلے سے گزر رہی ہے جہاں بین الاقوامی اصول، انسانی حقوق اور عالمی قوانین کو طاقتور قوموں کی خود غرض پالیسیوں اور سامراجی مفادات کے تحت پامال کیا جا رہا ہے۔

فلسطین اور خاص طور پر غزہ، اس وقت ظلم، استحصال اور تباہی کی ایسی درد ناک تصویر پیش کر رہا ہے جس پر ہر باضمیر انسان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ غزہ میں معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا قتل عام اس بات کی گواہی ہے کہ اسرائیل کی نسلی اور مذہبی انتہاپسند پالیسیوں نے ساری حدود پار کر لی ہیں۔ ان حالات میں نائب وزیراعظم پاکستان اسحاق ڈار نے اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جو الفاظ ادا کیے، وہ صرف ایک حکومتی مؤقف نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی آواز بن کر سامنے آئے ہیں۔

گریٹر اسرائیل کا تصور کوئی نیا نہیں بلکہ صہیونی تحریک کے آغاز سے ہی یہ نظریہ پروان چڑھتا آ رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت اسرائیل دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقوں پر قبضے کے خواب دیکھتا ہے۔ اس منصوبے کا مطلب صرف زمینی توسیع نہیں بلکہ پورے خطے کی ثقافتی، مذہبی اور نسلی شناخت کو مٹا دینا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے جبراً بے دخل کرنا، ان کے گھروں کو مسمار کرنا، ان کے تاریخی اور مذہبی مقامات پر ناجائز قبضہ جمانا، یہ سب گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا حصہ ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کی اپنی ضد پر اڑ گئے ہیں۔ ’’ تعمیر نو ‘‘ کے نام پر غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرا کر اس پر امریکا کے حوالے کرنے کی ٹرمپ کی تجویز پر پوری دنیا میں حیرت اور برہمی کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ نیبھی اس کی مخالفت کی ہے۔ ٹرمپ کو غزہ میں نسلی بنیادوں پر فلسطینیوں کی دوسرے ملک منتقلی کے خلاف خبردار بھی کیا گیا ہے جب کہ روس، چین، جرمنی، آسٹریلیا، فرانس اور آئرلینڈ نے بھی مخالفت کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی وکالت کی ہے۔

اس کے علاوہ سعودی عرب اور دیگر عرب اور مسلم ملکوں نے بھی ٹرمپ کی اس تجویز پر اپنا سخت موقف ظاہرکیا ہے۔ درحقیقت غزہ کی زمین پر صرف اہل غزہ کا حق ہے اور وہ لوگ اس حق سے کبھی دستبردار ہونے والے نہیں۔ اسرائیل کی طرف سے مسلسل شدید بمباری کو دو برس ہونے والے ہیں ، سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا پھر بھی ان کا حوصلہ وہ توڑ نہیں سکے۔ ایک مقام سے دوسرے مقام اور ایک علاقہ سے دوسرے علاقے اور ایک شہر سے دوسرے شہر نقل مکانی کرنا اور نئے سرے سے آباد ہونا نیز ماحول اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا بہت ہی کٹھن اور دشوار گزار مرحلہ ہے۔

یہاں تو معاملہ کسی علاقہ اور شہر کا نہیں، بلکہ ملک کا ہے۔ مسئلہ لاکھوں پناہ گزینوں اور انھیں نئے سرے سے آباد کرنے کا بھی ہے۔ تعمیراتی کام مکمل ہونے میں کافی لمبا عرصہ درکار ہوگا۔ غزہ کو خالی کرانا ٹرمپ کے لیے ممکن نہیں، اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ امریکی صدر مظلوم اور معتوب اہل غزہ کے تئیں نرم گوشہ رکھیں اور انسانیت کو مجروح ہونے سے بچائیں اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

 چند ماہ قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے اپنے تصور کے عزم کا اظہارکر کے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ انھوں نے کہا تھا کہ دنیا میں یہودیوں کی ایسی نسلیں ہیں، جو یہاں آنے کا خواب دیکھ رہی ہیں، یہ نسلیں ہمارے بعد آئیں گی۔

’عظیم تر اسرائیل‘ کی اصطلاح1967کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل اور اس کے قبضے والے علاقوں مشرقی یروشلم، مغربی کنارے، غزہ، مصر کے جزیرہ نما سینا اور شام کی گولان کی پہاڑیوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جا تی ہے۔ ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور لیکوڈ پارٹی کی سیاسی روایت کا بنیادی اصول ہے، جس کی جڑیں صہیونیت میں پائی جاتی ہیں۔ غیر قانونی بستیوں میں توسیع اس نظریہ کی عکاسی کرتی ہے۔ غزہ پٹی کے75فیصد حصے پر قابض اسرائیل فلسطینیوں کو جنوب میں منتقل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

تجزیہ کار غزہ میں نسل کشی کو ایک منصوبے پر عمل درآمد کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بہر حال دنیاکے لیے اب یہ خطرے کی گھنٹی ہے، اس لیے کہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بہت پرانا ہے اور اسرائیل اس پر کافی عرصے سے عمل پیرا ہے، تاہم اب ان ممالک کو بیدار ہو جانا چاہیے جو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار کرنے جا رہے تھے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ نے بتا چکا ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی سطح 1967 کے بعد سے اب تک کی ریکارڈ سطح تک بڑھ چکی ہے۔

اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ مغربی اردن کے علاقے میں ’’ آئرن وال‘‘ نامی فوجی آپریشن کے اثرات پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے اس صورتحال کو ممکنہ ’’نسلی تطہیر‘‘ اور ’’انسانیت کے خلاف جرم‘‘ قرار دے دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں یہودی آباد کاروں کے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، مقبوضہ مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر بے دخلی کا نیا سلسلہ تقریباً 60 سال قبل اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد سے اب تک کی اپنی ریکارڈ سطح تک پہنچ چکا ہے۔ مقبوضہ علاقے میں شہری آبادی کو مستقل طور پر بے دخل کرنا غیر قانونی منتقلی کے مترادف ہے۔

 پاکستان ہمیشہ سے فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا اور آج تک ہر پاکستانی حکومت نے اسی پالیسی کو برقرار رکھا ہے۔ یہ مؤقف اصولی بھی ہے اور تاریخی بھی۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی ہے اور دنیا بھر میں ان کے لیے آواز بلند کی ہے۔ یہ مؤقف محض سفارتی روایات کا حصہ نہیں بلکہ ہمارے ضمیر کا تقاضا ہے۔

 اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں اسرائیل کے حق دفاع کی تکرار کرتی ہیں مگر فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

غزہ میں بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں کا قتل عام ہو رہا ہے، مگر کوئی بین الاقوامی ادارہ اسرائیل کو روکنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی دہرا معیار آج کے عالمی نظام کو بے نقاب کرتا ہے۔ انصاف، آزادی اور انسانی حقوق کی باتیں محض کمزور اقوام کو دبا کر رکھنے کے ہتھیار بن چکی ہیں، جب کہ طاقتور ریاستوں کو ہر ظلم کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ اس وقت مسلم دنیا کو اپنے ذاتی اختلافات، علاقائی کشیدگیوں اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر فلسطین کے مسئلے پر متحد ہونا ہوگا۔

عالمی اور پاکستانی میڈیا کو بھی اس جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ آج میڈیا محض معلومات کا ذریعہ نہیں بلکہ رائے سازی کا سب سے طاقتور ہتھیار بن چکا ہے۔ فلسطین کے مظلوم عوام کی داستانیں، ان کے زخم، ان کے درد، دنیا کے سامنے لانا عالمی میڈیا کا فرض ہے۔ صہیونی پروپیگنڈے کا مقابلہ صرف سچائی سے کیا جا سکتا ہے۔

تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ یہ محض ایک علاقائی تنازع نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ایک انتہا پسند، نسل پرست اور سامراجی خواب ہے، جو صرف فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور اقوام عالم کے لیے خطرہ ہے، اگر آج ہم نے اسے مسترد نہ کیا تو کل اس کی لپیٹ میں صرف فلسطین نہیں بلکہ دیگر ممالک بھی آ سکتے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ دنیا فیصلہ کرے کہ وہ ظلم کے ساتھ کھڑی ہے یا مظلوم کے ساتھ۔ اگر آج فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا تو کل کو یہی ظلم دنیا کے دیگر خطوں تک پھیل جائے گا۔ یہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔ اسرائیل کی مسلسل جارحیت، بین الاقوامی قوانین کی پامالی اور عالمی برادری کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا ایک خطرناک سمت کی جانب بڑھ رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گریٹر اسرائیل فلسطینیوں کے اقوام متحدہ اسرائیل کے اسرائیل کی کرتے ہوئے فلسطین کے نہیں بلکہ کہ دنیا کے ساتھ کے لیے ہے اور چکا ہے رہا ہے

پڑھیں:

گریٹر اسرائیل عالمی امن کیلیے خطرہ ہے؛ نیتن یاہو نے تمام حدیں پار کردیں؛ امیرِ قطر

امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے دوحہ میں ہونے والے عرب اسلامی سربراہی کے ہنگامی اجلاس سے خطاب میں اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو خوش آمدید کہا اور شکریہ بھی ادا کیا۔

عرب میڈیا کے مطابق امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے افتتاحی خطاب میں دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کرلیں۔

امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اسرائیل کی عالمی قوانین کی سنگین پامالی لمحہ فکریہ قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو بند اور مشرق مسئلہ فلسطین کے فوری حل پر زور دیا۔

انھوں نے اسرائیلی حملے کو خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ثالث کے طور پر خطے میں امن کے لیے اپنا بے لوث کردار ادا کیا ہے۔

امیرِ قطر اسرائیلی حملے کو مذاکراتی عمل کو سبوتاژکرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے امن اور جنگ بندی کی کاوشوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔

انھوں نے گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کی بھی مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا اور یرغمالیوں کی پُرامن رہائی کے تمام اسرائیلی دعوؤن کو جھوٹا قرار دیا۔

اسرائیل کی غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے امیرِ قطر نے کہا کہ اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کردی ہیں۔
 

آخر میں امیر قطر نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ غزہ میں سنگین جنگی جرائم پر اسرائیل سے بازپرس کی جانی چاہیے اور سخت ایکشن لیا جائے۔

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
  • پاکستان تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • اسرائیلی جارحیت کو کسی بھی بہانے جواز فراہم کرنا ناقابل قبول ہے؛ اعلامیہ قطر اجلاس
  • اسرائیلی جارحیت کو کسی بھی بہانے جواز فراہم کرنا ناقابل قبول ہے، اعلامیہ قطر اجلاس
  • گریٹر اسرائیل عالمی امن کیلئے خطرہ ہے؛ تمام حدیں پار کردیں، امیر قطر
  • گریٹر اسرائیل عالمی امن کیلیے خطرہ ہے؛ نیتن یاہو نے تمام حدیں پار کردیں؛ امیرِ قطر
  • عرب اسلامی سربراہی اجلاس: ’گریٹر اسرائیل‘ کا منصوبہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے: امیر قطر
  • قطر تنہا نہیں، عرب اور اسلامی دنیا اس کے ساتھ ہے، سیکریٹری جنرل عرب لیگ