ٹرمپ کو اپنی پارٹی کی نظریاتی تقسیم، اپوزیشن اور ناقدین کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
نیویارک (نیوز ڈیسک) صدرٹرمپ کو سیاسی مخالفین اور اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے مخالفت اور تنقید کے علاوہ نہ صرف امیگریشن ، افراط زر اور بڑھتی مہنگائی جیسے مسائل کا سامنا ہے بلکہ خود اپنی ری پبلکن پارٹی کے مختلف نظریاتی اورگروہی سیاست کا بھی سامنا ہے۔ مڈٹرم الیکشن ٹرمپ کیلئے چیلنج ہوں گے پاک۔ امریکا تعلقات کی موجودہ مثبت اور مفید صورتحال کا نہ صرف بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے بلکہ صدر ٹرمپ کی بقیہ مدت صدارت میں جنوبی ایشیا پالیسی میں تبدیلیاں اور صدر ٹرمپ کے بعد امریکا میں اقتدار کا نقشہ تبدیل ہونے پر صورتحال بارے بھی حکمت عملی کی تیاری بھی لازمی ضرورت ہے۔ اپنی طاقتور شخصیت اور ابتدائی مقبولیت کے باعث شدید منقسم کانگریس سے صدر ٹرمپ نے ایک اہم ’’بک، بیوٹی فل ب‘‘ (BIG BEUTIFIL BILL) منظور کروا کے اپنی ری پبلکن پارٹی کے مختلف نظریاتی گروہوں اور حلقوں کو مطمئن ضرور کردیا لیکن اب صدر ٹرمپ کو اپنی پارٹی کے ان نظریاتی، مختلف ایجنڈا اور باہم طور پر تصادم اور اختلافات کے شکار ری پبلکن پارٹی میں موجود مختلف نظریاتی گروپوں کو اپنی صدارت کے ارد گرد اکٹھا رکھنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اس بارے میں واشنگٹن میں وہائٹ ہائوس کی کوریج کرنے والی خاتون صحافی نیٹلی ایلی سن نے اپنے مفصل رپورٹ میں ری پبلکن پارٹی کی اس داخلی نظریاتی تقسیم کا ذکر کیا ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے ارد گرد متحد ہوکر ان کی انتخابی کامیابی کیلئے سرگرم رہی۔ ان میں ٹیرف پالیسی، امیگریشن اور ڈیپورٹیشن حکمت عملی، بجٹ میں کٹوتیوں اور یوکرین اور اسرائیل کیلئے امریکی امداد کی حمایت اور مخالفت پر مبنی نظریاتی اور ایجنڈا کے حامل ری پبلکن حلقے موجود ہیں امریکا کی سلی کون ویلی کے دولتمند، اسقاط حمل کے مخالفین، صحت کے امور بارے حساس خواتین اور کاروباری حلقے اور بجٹ میں کٹوتیوں کے حامی کنزرویٹو حلقوں کی نشاندہی کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے ارد گرد کی پبلکن قائدین سٹیو بنسن (بلاگر اور ٹرمپ کے سابق مشیر) ری پبلکن خاتون رکن کانگریس مارجری ٹیلر گرین اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ری پبلکن پارٹی ٹرمپ کے
پڑھیں:
اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف
بیت المقدس(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اعتراف کیا کہ اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے اور اسے آنے والے سالوں میں مزید خود انحصار بننا پڑے گا” ٹائمز آف اسرائیل“ کے مطابق بیت المقدس میں اسرائیلی وزارت خزانہ کے اکاﺅنٹنٹ جنرل کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نتن یاہو نے تسلیم کیا کہ اسرائیل ایک طرح سے تنہائی کا شکار ہے.(جاری ہے)
نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ پر حملوں کے بعد سے اسرائیل کو دو نئے خطرات کا سامنا ہے جن میں مسلم اکثریتی ممالک سے ہجرت کے نتیجے میں یورپ میں آبادیاتی تبدیلیاں اور نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اسرائیل کے مخالفین کا اثر و رسوخ میں اضافہ شامل ہیں ان کے خیال میں یہ چیلنجز طویل عرصے سے کار فرما تھے، لیکن سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملوں سے شروع ہونے والی جاری جنگ کے دوران سامنے آئے. نتن یاہو نے یورپ میں آبادیاتی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں لامحدود ہجرت کے نتیجے میں مسلمان ایک اہم اقلیت اورپر اثر آواز رکھنے والے بہت زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرنے والے بن گئے ہیں. انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان ممالک کے مسلمان شہری یورپی حکومتوں پر اسرائیل مخالف پالیسیاں اپنانے کے لیے دباﺅ ڈال رہے ہیں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ مسلمانوں کا مرکز غزہ نہیں بلکہ یہ عام طور پر صہیونیت کی مخالفت کر رہے ہیں اور بعض اوقات ایک اسلام پسند ایجنڈا ہے جو ان ریاستوں کو چیلنج کرتا ہے . ان کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل پر پابندیاں اور ہر طرح کی پابندیاں پیدا کر رہا ہے یہ ہو رہا ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جو گذشتہ 30 سالوں سے کام کر رہا ہے اور خاص طور پر پچھلی دہائی میں اور اس سے اسرائیل کی بین الاقوامی صورتحال بدل رہی ہے. ‘نتن یاہو نے متنبہ کیا کہ صورت حال ہتھیاروں پر پابندیوں کا باعث بن سکتی ہے حالانکہ یہ ابھی کے لیے صرف خدشات ہیں، معاشی پابندیوں کا آغاز بھی ہو سکتا ہے نتن یاہو کے مطابق دوسرا چیلنج اسرائیل کے حریفوں، جن میں این جی اوز اور قطر اور چین جیسی ریاستوں کی سرمایہ کاری ہے انہوں نے کہا کہ بوٹس، مصنوعی ذہانت اور اشتہارات کا استعمال کرتے ہوئے مغربی میڈیا کو اسرائیل مخالف ایجنڈے سے متاثر کیا جا رہا ہے اس سلسلے میں انہوں نے ٹک ٹاک کی مثال دی. یادرہے کہ سات ستمبر 2023 سے غزہ میں شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے دوران اسرائیل فلسطینی علاقے کے کئی حصوں پر فضائی اور زمینی حملے کر چکا ہے، جن میں 64 ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے محاصرے کی وجہ سے وہاں جلد ہی قحط جیسی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے بعض یورپی ممالک نے نہ صرف تل ابیب کے حملوں کی مذمت کی ہے بلکہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے.