WE News:
2025-09-17@23:23:24 GMT

نئے صوبوں کی حمایت یا مخالفت: سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT

نئے صوبوں کی حمایت یا مخالفت: سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں؟

پاکستان 4 صوبوں پر مشتمل ملک ہے، جہاں مختلف سیاسی جماعتیں مختلف ادوار میں انتظامی مسائل کے حل کے لیے نئے صوبے بنانے کی بات کرتی رہی ہیں تاہم اب تک اس معاملے پر سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی، حال ہی میں ایک مرتبہ پھر نئے صوبے بنانے کی بحث سامنے آئی ہے، وفاقی وزیر مصطفیٰ کمال نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی ماضی میں نئے صوبے بنانے کی حمایت کر چکے ہیں۔

وی نیوز نے مختلف سیاسی رہنماؤں سے گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ کون سی جماعتیں نئے صوبوں کے حق میں ہیں اور کون سی مخالفت کر رہی ہیں۔

فی الحال ایجنڈے پر نہیں، مسلم لیگ (ن)

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ اس وقت نہ ہی حکومت میں اور نہ ہی پارٹی میں نئے صوبوں کے قیام پر کوئی بات ہو رہی ہے، اگر یہ معاملہ آگے بڑھا تو سب سے پہلے اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں انتظامی بہتری کے لیے نئے صوبے بنائے گئے ہیں، پاکستان میں بھی اس پر غور ہو سکتا ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں جب ملک پہلے ہی کئی بڑے چیلنجز سے گزر رہا ہے، نئے صوبوں کا معاملہ کھولنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

اصل بحث کو گمراہ کیا جا رہا ہے، پیپلز پارٹی

پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ نئے صوبوں پر بحث کا اصل مقصد کچھ اور ہے، آئین میں طریقہ کار واضح ہے کہ کسی بھی صوبے کے اندر نئے صوبے بنانے کے لیے سب سے پہلے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت درکار ہے، پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھی یہی منظوری ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ چھوٹے صوبے بنانے اور این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے وسائل کی تقسیم پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ مقامی حکومتیں تاحال فعال نہیں ہوئی ہیں، جب تک بلدیاتی ادارے مضبوط نہیں ہوں گے، نئے صوبے بننے کے باوجود مسائل حل نہیں ہوں گے۔

چھوٹے صوبے برا قدم نہیں، تحریک انصاف

تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی کے مطابق نئے اور چھوٹے صوبے بنانا کوئی بری بات نہیں ہے کیونکہ دنیا بھر میں صوبے چھوٹے ہوتے ہیں تو انتظام چلانا آسان ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 1985 کے بعد فنڈز ارکانِ اسمبلی کو دینا شروع کیے گئے، جو درست نہیں۔ ’اصل حل بلدیاتی نظام ہے، اگر ویلج کونسلز اور ضلعی نمائندے بااختیار ہوں تو مسائل بہتر طور پر حل ہو سکتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے سے گریز کرتی ہیں۔‘

غلط وقت پر غلط بحث، جمیعت علما اسلام (ف)

جمیعت علما اسلام (ف) کے رہنما کامران مرتضیٰ نے کہا کہ موجودہ حالات میں نئے صوبوں کی بات کرنا غلط وقت پر غلط موضوع چھیڑنے کے مترادف ہے، ماضی میں ون یونٹ کے تجربے نے ملک کو نقصان پہنچایا، اسی طرح نئے صوبوں کی بحث بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے صوبوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے، لیکن ہر بار آئین میں ترمیم کرنا درست نہیں۔ ’ابھی تو 26ویں ائینی ترمیم پر بھی بہت سی آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں، فی الحال ملک کو دہشت گردی سمیت دیگر بڑے مسائل کا سامنا ہے، اس وقت یہ بحث لسانیت کو ہوا دے سکتی ہے۔‘

انتظامی بہتری کے لیے نئے صوبے ناگزیر، متحدہ قومی موومنٹ

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ان کی جماعت انتظامی بہتری کے لیے چھوٹے صوبوں کی حمایت کرتی ہے، اگر ناموں پر اتفاق نہیں ہوتا تو موجودہ صوبوں کو ہی جنوبی، شمالی یا مغربی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن اختیارات کی منتقلی ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صوبے اتنے بڑے ہیں کہ بلوچستان کے ایک ایم این اے کو اپنے حلقے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے میں تین دن لگ جاتے ہیں، اسی طرح سندھ کے بعض علاقوں سے چیف سیکریٹری کا دفتر 700 کلومیٹر دور ہے۔ ان کے مطابق ملک کو چلانے کے لیے نئے صوبے بنانا ناگزیر ہے۔

نئے صوبوں کی بحث اصل مسائل سے توجہ ہٹانا ہے، عوامی نیشنل پارٹی

عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان سردار حسین نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی نئے صوبوں کی حمایت نہیں کرتی ہے، نئے صوبوں کی بحث کے اغاز کا مقصد اصل مسائل اور اصل موضوعات سے توجہ ہٹانا ہے، پاکستان میں اس وقت نئے صوبوں کے قیام کا تصور ہی نہیں ہے۔

’نئے صوبے قائم کرنا کوئی اتنا آسان نہیں کہ آج بحث ہو اور کل کو صوبوں کی تشکیل ہو جائے،  اے این پی سمجھتی ہے کہ موجودہ صوبوں کے مسائل بھی ابھی زیادہ ہیں اور مالی مشکلات کا بھی سامنا ہے ایسے میں نئے صوبوں کے قیام کے بعد فنڈز کہاں سے آئیں گے نئے صوبے کس طرح چلائے جائیں گے، فی الحال یہ ممکن نہیں ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

تحریک انصاف جمیعت علما اسلام (ف) عوامی نیشنل پارٹی متحدہ قومی موومنٹ مسلم لیگ ن نئے صوبے.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تحریک انصاف جمیعت علما اسلام ف عوامی نیشنل پارٹی متحدہ قومی موومنٹ مسلم لیگ ن نئے صوبوں کے قیام کے لیے نئے صوبے نئے صوبوں کی سی جماعتیں نے کہا کہ کی حمایت کے رہنما کی بحث

پڑھیں:

اداکارہ تارا محمود کا والد کے سیاسی پس منظر اور دھمکیاں ملنے کا انکشاف

معروف اداکارہ و گلوکارہ تارا محمود نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں گفتگو کے دوران اپنے والد کے سیاسی پس منظر کے حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں۔

اداکارہ نے بتایا کہ جب انہوں نے ڈرامہ انڈسٹری میں قدم رکھا اور کراچی منتقل ہوئیں تو والد نے انہیں مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا وہ کسی کو اپنی خاندانی حیثیت کے بارے میں نہ بتائیں، کیونکہ یہ سیکیورٹی کے لیے زیادہ محفوظ تھا۔

تارا محمود کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی والد کے اثر و رسوخ یا طاقت کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ قریبی دوست ان کے خاندانی پس منظر سے واقف تھے، لیکن انڈسٹری کے لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب والد کے ساتھ ان کی تصاویر انٹرنیٹ پر وائرل ہوئیں تو وہ خوفزدہ ہوگئیں کیونکہ وہ غیر ضروری توجہ نہیں چاہتیں اور ایک پرائیویٹ زندگی گزارنا پسند کرتی ہیں۔

اداکارہ نے اپنے والد کے وزیر تعلیم ہونے کے دور کا بھی ذکر کیا۔ ان کے مطابق کووڈ-19 کے دوران جب اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز بند کیے گئے تو والد شفقت محمود انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئے اور لوگوں نے انہیں ہیرو قرار دیا۔ تاہم، جب اگلے سال تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ ہوا تو انہیں اور والد دونوں کو تنقید اور دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

تارا محمود نے مزید بتایا کہ طلبا اکثر انہیں امتحانات یا تعلیمی مسائل کے حوالے سے پیغامات بھیجتے تھے، لیکن وہ ان معاملات میں کچھ نہیں کرسکتی تھیں کیونکہ سرکاری فیصلوں کا اختیار ان کے پاس نہیں تھا بلکہ یہ ان کے والد کی ذمے داری تھی۔

یاد رہے کہ اداکارہ تارا محمود کے والد شفقت محمود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر تعلیم رہ چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • ہم بیت المقدس پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، رجب طیب اردگان
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • کراچی، پوش علاقے کی پارکنگ میں کھڑی گاڑی سے مرد و خاتون کی لاشیں برآمد
  • حماس کو عسکری اور سیاسی شکست نہیں دی جاسکتی: اسرائیلی آرمی چیف
  •  سیاسی حریفوں نے حب کینال اور شاہراہ بھٹو کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کیا، میئر کراچی
  • 80 کی دہائی کی مقبول اداکارہ سلمی آغا اب کہاں ہیں؟
  • سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل نہیں ہوسکتا، عالمی ثالثوں کی پاکستانی مؤقف کی حمایت
  • اداکارہ تارا محمود کا والد کے سیاسی پس منظر اور دھمکیاں ملنے کا انکشاف