وطن عزیز کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو قوم سلام پیش کرتی ہے۔ وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران جامِ شہادت نوش کرنے والے کیپٹن تیمور حسن کی قربانی قوم کیلئے باعثِ فخر ہے۔

کیپٹن تیمور حسن شہید کے والد، ریٹائرڈ بریگیڈیئر حسن عباس نے بیٹے کی شہادت پر غیر متزلزل حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرے 10 بچے بھی ہوتے تو سب کو فوج میں بھیجتا۔زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اور جو دھڑکن جہاں بند ہونا لکھی ہے، وہ ویسے ہی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کو فوج میں بھیجنے سے ڈرنا نہیں چاہیے، شہادت جس کو لکھی ہے، وہی شہید ہو گا۔انہوں نے قوم سے اپیل کی کہ ان تمام والدین کے لیے دعا کریں جن کے نوجوان بیٹے مادرِ وطن پر قربان ہو چکے ہیں۔طیب بھائی کا جوان بیٹا بھی شہید ہوا، اللہ تعالیٰ اُنہیں اور دیگر والدین کو حوصلہ دے۔

بریگیڈیئر حسن عباس کے حوصلے اور ایثار نے قوم کو ایک بار پھر یہ یقین دلایا ہے کہ وطن کی حفاظت کرنے والی فوج میں ایسے خاندان موجود ہیں جنہوں نے اپنی نسلیں قربان کر کے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔کیپٹن تیمور حسن کی شہادت وطن کی دفاعی تاریخ کی ایک اور تابناک مثال ہے، جس پر پوری قوم کو فخر ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیپٹن تیمور حسن

پڑھیں:

کچے کے ڈاکو! پکے ہو گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251031-03-5

 

راشد منان

کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے ہمارے ملک کے جاگیر داروں اور وڈیروں سے تعلقات ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کی رسائی اپنے اپنے علاقوں کی پولیس، اسپیشل پولیس سادہ یا باوردی عام کانسٹیبل سے لیکر تھانوں کے اعلیٰ افسران اور ایس ایچ اوز تک بلا کسی روک ٹوک اور بہت حد تک دوستانہ بلکہ ہم پیالہ و ہم نوالہ قائم ہیں اور ہماری سیکورٹی کے یہی لوگ ان ڈاکوئوں کے مخبر اور سہولت کار بھی ہیں اور یہ بے تکلف دوستانہ ہی ان ڈاکوئوں کی بقاء کا راز بھی ہے کیونکہ کسی بھی ایکشن سے پہلے ہی ان ڈاکوئوں تک وہ خبر پہنچا دی جاتی ہے جس کے باعث آج تک ان کا قلع قمع نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی آئندہ ایسی کوئی توقع ہے کیونکہ ان کے تعلقات ہماری سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ ہمارے ایوان زیریں اور بالا دونوں کے ارکان سے بھی خاص نوعیت کے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ یہ یا ان کی اولادیں خود بھی ہمارے ایوانوں میں بہ نفس نفیس موجود ہیں۔ ڈاکے تو کچے میں موجود ان کے اہلکار مارتے ہیں اور پیچھے کلف زدہ کپڑوں، ویسٹ کوٹ، دستار اور ٹوپیوں میں ملبوس معززین شہر، سردار اور وڈیروں کی ایک بڑی تعداد ان کی پشتیبانی اور مدد کے لیے موجود رہتی ہے یہی لوگ ان کے محافظ بھی ہیں اندرون سندھ اور پنجاب میں پھیلے پیری مریدی کے وسیع سلسلے سے بھی یہ ڈاکو خوب فیض اٹھاتے ہیں۔ ان جعلی سیدوں، پیروں، معززین شہر، اعلیٰ سرکاری افسران اور کوتوال کے توسط سے کچھ اغوا کنندگان تاوان کے بعد رہا ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے ملک کا غریب طبقہ گاؤں دیہات اور قصبوں میں بسنے والوں کی ایک بڑی تعداد پھر بھی بغیر اغوا ہوئے ان کو تاوان ادا کرنے کے پابند ہیں بصورت دیگر وہ اور ان کی نسلوں کو تا زندگی ان کی غلامی کرنا پڑتی ہے ان ڈاکوئوں کے اپنے قوانین اور اپنے ضابطے ہیں اور ان کی نجی جیلیں بھی ہیں جن میں ان کے ظلم تشدد اور بے رحمی کی ایک بڑی داستان زبان زد عام ہے۔

کیا یہ عجیب بات میری دلیل نہیں کہ گزشتہ، حالیہ اور ہمیشہ کے شدید مون سون بارشوں کے نتیجے میں آئے سیلاب کی وجہ سے کچے کے سارے علاقے تو ڈوب جاتے ہیں علاقے کے غریب کسان ہاری اور دیگر مظلوم طبقہ نقل مکانی پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں پھر بھی محفوظ رہتی ہیں کیونکہ اصل میں یہ ڈاکو ان علاقوں کی مکین اور رہائشی سرے سے ہیں ہی نہیں وہ ہر وقت ہمارے آس پاس اور ہمارے ہی علاقوں میں رہائش پذیر رہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ شعلے فلم کا گبر سنگھ اور پاکستانی فلموں کا سلطانہ ڈاکو کسی جنگل کی کھو یا غار میں رہتے ہوں۔ ان کی کوٹھیاں ہمارے پوش علاقوں میں موجود ہیں اور گھوڑوں کی جگہ یہ لوگ آج کل ویگو ڈالا استعمال کرتے ہیں۔

عام اصطلاح میں کچے کے ڈاکو سندھ اور پنجاب کے دریائی پٹی میں سرگرم ایک مجرم گروہ ہے وہ اغوا، بھتا خوری اور قتل سمیت اپنی پرتشدد سرگرمیوں کے لیے مشہور ہیں کچھ عرصہ پہلے تک تو ان ڈاکوئوں کی کارروائیاں کافی حد تک مخفی رہتی تھیں لیکن اب یہ ڈاکو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی خوب مارکیٹنگ کرتے ہیں اغوا شدہ شخص کو رسیوں اور آہنی زنجیروں میں جکڑ کر اور ان پر براہ راست تشدد کی لائیو کوریج کر کے وہ اپنے سہولت کاروں کے ذریعے اپنا پورا حصہ وصول کر لیتے ہیں اور بہتے خون اور پر تشدد کارروائی پر مبنی آمدنی سے ہر دو جانب پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں غوطہ زن رہتی ہیں۔

یہی نہیں اب تو ان کی شورشیں اس حد تک بڑھ گئیں ہیں کہ گزشتہ کئی ماہ سے ان کی لوٹ مار کے پیش نظر سکھر ملتان موٹر وے کو رات میں نو گو ایریا قرار دیتے ہوئے گاڑیوں کو ہائی وے پولیس سیکورٹی کے ساتھ آگے روانہ کیا جاتا ہے اور بقول ہائی وے پولیس M 5 پر تقریباً 25 کلو میٹر علاقے کو غیر محفوظ قرار دے دیا گیا ہے ان بڑھتی وارداتوں کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر کی پانچ کو صادق آباد کی تحصیل نواز آباد میں تنویر اندھر گروہ نے M 5 پر متعدد گاڑیاں روک کر دس افراد کو اغوا کر لیا اور جن کی رہائی کے لیے تاوان کی خطیر رقم کا مطالبہ کیا معاملات کس طرح اور کتنی رقم کے عوض حل ہوئے راقم کو اس کا کوئی علم نہیں لیکن یہ میری کہی تمام باتوں کی سچائی کا ثبوت ہے کے کچے کے ڈاکو! اب کچے نہیں پکے ہوگئے ہیں ان کی طاقت اور تکنیک میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے جو ظاہر ہے کے ان کے پشتیبانوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

گزشتہ منگل یعنی اکیس اکتوبر 25 کو محکمہ داخلہ نے لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں ان ڈاکوئوں کو سر نگوں کرنے کے بجائے خود کو ان ڈاکوئوں کے آگے سرینڈر کرنے کی پالیسی اپناتے ہوئے یہ بیان دیا کے سندھ حکومت کی اس پالیسی کی بناء پر ان علاقوں میں ڈاکے اور اغوا برائے تاوان اور لاقانونیت کی بڑھتی وارداتوں میں کمی آئیگی محکمہ داخلہ کا ماننا ہے کہ ان کی اس پالیسی سے بہت سارے ڈاکو ہتھیار ڈال کر سماجی دھارے میں شامل ہو جائیں گے اور اچھے بچے بن کر اپنی بقیہ زندگی گزاریں گے، اس اعلان کے فوراً بعد ہی شکار پور پولیس لائنز میں 70 سے 72 کے قریب ان افراد کو جن کا دور دور تک ان واقعات سے کوئی تعلق تھا یا نہیں بھی تھا ڈاکو بنا کر سماج کے سامنے پیش کر دیا گیا کیونکہ اس طرح کے تمام کام ہمارے زندہ باد پاکستان میں بالکل ممکن ہیں۔

تصویر کے اس رُخ کے بعد دیکھیے اب تصویر کا دوسرا رُخ ہمارے یہی سیکورٹی ادارے اپنا مطلب حاصل کرنے میں کس قدر ماہر ہیں کہ جب ان کا دل کرے ملزم مجرم بن کر حوالہ زندان اور مجرم معصوم بن کر اپنی زہر آلود مسکراہٹ کے ساتھ معاشرے کا ایک معزز شخص بن جاتا ہے۔ دہائیوں سے کراچی کے سپر ہائی وے پر موجود افغان بستی جو اس شہر میں بدامنی چوری چکاری اور لوٹ مار کا سبب تھی اور عوام کے بار بار مطالبے کے باوجود اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکی تھی جب حکم ہوا گھنٹوں میں خالی کرا لی گئی اس لیے کے یہاں کے مکین ابھی اپنی وارداتوں میں کچے کے ڈاکوئوں کی طرح پکے نہیں ہوئے تھے یا پھر ان کے پیچھے ان کے وہ پشتیبانی موجود نہیں تھی جو کچے کے ڈاکوئوں کو حاصل ہے۔

شنید ہے کے مذکورہ افغان بستیوں میں سندھ کے متاثرہ سیلاب زدگان کو آباد کیا جائے گا جس کی کچھ خبریں سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہیں یہ بات اہلیان کراچی کو پھر سے کسی بے چینی اور بدامنی میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے لہٰذا اہلیان کراچی کا شد و مد کے ساتھ یہ مطالبہ ہے کہ ان خالی بستیوں کی دوبارہ آباد کاری سے اجتناب برتا جائے اور یہ بستیاں کسی بھی بلڈرز مافیا کے حوالے کرنے کے بجائے ان زمینوں کو اہلیان کراچی کے لیے سیر و تفریح کے پارک سرکاری فارم ہائوسز اور کھیل کے میدانوں اور قبرستانوں کے لیے مختص کیا جائے پچھلے کئی دہائیوں سے کراچی کی آبادی میں جس قدر اِضافہ ہوا ہے اس تناسب سے نئے گورستان اہلیان کراچی کی ضرورت ہیں کیونکہ شہر بھر میں موجود قبرستانوں میں اپنے مردوں کے دفن کے لیے منہ مانگی قیمت کی ادائیگی پر راضی لوگوں کو بھی کوئی جگہ نہیں ملتی۔

راشد منان

متعلقہ مضامین

  • ملتان یونیورسٹی اور لیجنڈ انسٹیٹیوٹ کے طلباء و اساتذہ کا ملتان گیریژن کا دورہ، شہداء کو خراجِ عقیدت اور پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو سراہا
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • قانون نافذ کرنے والے ادارے شہید عادل حسین کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں، علامہ صادق جعفری
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کا شہید ایس ایچ او کے اہلِ خانہ سے تعزیت، اعزازات اور مالی امداد کا اعلان
  • وزیر خزانہ کی ڈچ سفیر سے ملاقات: پاکستان، نیدر لینڈز کا تجارت و سرمایہ کاری میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • کچے کے ڈاکو! پکے ہو گئے
  • پولیس کی استعداد بڑھانے کے لیے وفاقی حکومت نے 10 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا ہے، سرفراز بگٹی
  • نیدرلینڈز کا پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ
  • کرم میں آپریشن: 7 خوارج ہلاک، کیپٹن، 5 جوان شہید: بلوچستان، جعفر ایکسپریس پر راکٹوں سے حملہ