غزہ صحافیوں کا سب سے بڑا قبرستان بن گیا ہے
اشاعت کی تاریخ: 30th, August 2025 GMT
سات اکتوبر دو ہزار تئیس سے اب تک غزہ میں کم ازکم دو سو اسی صحافی اور میڈیا ورکرز اپنے فرائض نبھاتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔نجی ولاگرز اور فری لانس رپورٹرز ان کے علاوہ ہیں اور اگر انھیں بھی جمع کر لیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے تین سو سے اوپر پہنچ رہی ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ غزہ اطلاعات کی ترسیل کرنے والوں کا سب سے بڑا قبرستان بن چکا ہے۔اس قبرستان میں وہ بوڑھے ، بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جنھیں کسی صحافی یا میڈیا ورکر کا بھائی، باپ ، ماں ، بیٹا ، بیٹی ہونے پر گولی ، راکٹ یا بم کی شکل میں سزاِ موت دی گئی۔
اس المیے کی گہرائی کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ اگر اٹھارہ سو اکسٹھ تا پینسٹھ جاری امریکی خانہ جنگی ، انیس سو چودہ تا اٹھارہ تک لڑی جانے والی پہلی اور انیس سو انتالیس تا پینتالیس دوسری عالمی جنگ ، انیس سو پچاس تا تریپن جنگِ کوریا ، انیس سو پینسٹھ تا پچھتر جنگِ ویتنام ، انیس سو اکیانوے تا دو ہزار سابق یوگوسلاویہ کی خانہ جنگی ، دو ہزار ایک تا دو ہزار اکیس افغان جنگ اور دو ہزار چودہ سے اب تک جاری یوکرین روس لڑائی میں مجموعی طور پر جتنے صحافی اور میڈیا ورکرز مرے ، غزہ میں تئیس ماہ کے دوران مرنے والے صحافیوں کی تعداد ان سے بھی زیادہ ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف ) کے مطابق سن دو ہزار چوبیس صحافیوں کے لیے تاریخ کا سب سے خونی سال قرار پایا۔اس عرصے میں ایک سو چوبیس صحافیوں کی جان گئی۔ان میں سے اسی فیصد اموات غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے پر ہوئیں۔رواں سال اب تک غزہ میں پچاس سے زائد صحافی اور میڈیا ورکرز شہید کیے جا چکے ہیں۔
ہر نئی شہادت پر ایک علامتی مذمتی شور اٹھتا ہے جس کی اوسط مدت ایک دن سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔نہ قاتل کے کان پر جوں رینگتی ہے اور نہ ہی کوئی دستِ قاتل تھامنے والا ہے۔
دو ہزار بائیس میں مغربی کنارے پر اسرائیلی فوجی ٹارگٹ کلنگ سے شہید ہونے والی الجزیرہ کی سینیر صحافی شیریں ابو عاقل کے نام پر بننے والی مانیٹرنگ ویب سائٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین میں اوسطاً ہر ماہ تیرہ صحافی میڈیا ورکرز اور فری لانس رپورٹر قتل ہو رہے ہیں۔
غزہ میں کوئی غیر ملکی صحافی سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے داخل نہیں ہو سکا۔ بین الاقوامی خبری اداروں کے لیے کام کرنے والے مقامی رپورٹرز اور اسٹرنگرز کو چن چن کے نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ نسل کشی کی کوئی وڈیو ، سطر ، چیخ یا سسکی باہر نہ پہنچ سکے۔
صحافیوں کی ایک اور سرکردہ تنظیم کمیٹی تو پروٹیکٹ جرنلسٹس ( سی پی جے ) کا موقف ہے کہ غزہ میں خبر دینے والی آوازوں کو خاموش کرنے کا مقصد جنگی جرائم پر پردہ ڈالنا ہے تاکہ کل کلاں ریاستِ اسرائیل پر نسل کشی کا مقدمہ قائم ہو تو بہت سے چشم دید ثبوت ہاتھ نہ آجائیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کم و بیش یہی موقف اپنایا ہے۔جو صحافی غزہ سے باہر رہ کر نسل کشی کی رپورٹنگ کر رہے ہیں انھیں بھی طرح طرح کے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔اس میں اداروں کے اندرونی دباؤ کے علاوہ ریاستی دباؤ بھی شامل ہے۔
غزہ کے بہت سے صحافی اور کیمرہ جرنلسٹ کلیدی مغربی ذرایع ابلاغ کے لیے کام کرتے ہوئے شہید یا زخمی ہوئے۔مگر جن کے لیے انھوں نے جان دی وہی ادارے اسرائیل کی کھلی مذمت تو درکنار ان حالات کو بھی شایع کرنے سے ڈرتے ہیں جن میں یہ صحافی مارے جاتے ہیں۔
مثلاً پچیس اگست کو ناصر اسپتال پر ڈرون حملے میں جو پانچ صحافی شہید ہوئے ان میں رائٹرز خبررساں ایجنسی کے لیے کام کرنے والے ایک کیمرہ پرسن حسام المصری اور امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کی رپورٹر مریم داگا بھی شامل تھی۔مگر رائٹرز نے حسام کو صحافی تک تسلیم نہیں کیا بلکہ ایک جزوقتی فری لانس کنٹریکٹر قرار دیتے ہوئے اس واقعہ پر محض یہ ردِعمل دیا کہ ان کی موت ’’ افسوس ناک ‘‘ ہے۔
اس ادارہ جاتی بے حسی کے خلاف آٹھ برس تک رائٹرز کے لیے کام کرنے والی کینیڈین فوٹو جرنلسٹ ویلری زنک نے سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے اپنے استعفی کا اعلان کیا اور پروفیشنل شناختی کارڈ کے دو ٹکڑے کر کے تصویر لگا دی۔لگ بھگ ایک ہفتے بعد رائٹرز کو کچھ غیرت آئی اور اس نے المصری کی مختصر سوانح اور خدمات شایع کیں اور المصری کو اپنا رپورٹر تسلیم کیا۔جب کہ اے پی نے بس اتنا احسان کیا کہ مریم داگا کا نام پانچ شہید صحافیوں کے ناموں کے ساتھ شایع کیا اور یہ لکھا کہ مریم ایک فری لانسر تھیں جو اے پی کو بھی خبریں بھیجتی رہی ہیں۔
اگر مرنے والا صحافی کوئی یورپی یا امریکی ہو تو مغربی ذرایع ابلاغ کئی دنوں تک سرخیاں لگاتے ہیں لیکن انھی کے لیے کام کرنے والے مقامی فلسطینی صحافیوں کی موت کا ذکر محض ڈیڑھ سطر کی خبری قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔اس طرزِ عمل اور اسرائیل مخالف رپورٹیں دبانے یا ان کی اہمیت کم کرنے کے رجحان کے خلاف ، بی بی سی ، سی بی ایس ، این بی سی ، نیویارک ٹائمز سمیت متعدد مغربی ابلاغی اداروں میں اندرونی احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ کئی صحافی استعفی دے چکے ہیں۔کچھ اظہارِ وجوہ کے نوٹس بھگت رہے ہیں یا پھر اندرونی تبادلوں کی زد میں رہتے ہیں۔
فلسطین میں میڈیا کی آواز دبانے میں خود اسرائیلی میڈیا بھی نہ صرف برابر کا شریک ہے بلکہ اہداف کی نشاندہی کے لیے اسرائیلی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی مدد بھی کرتا ہے۔
مثلاً گزشتہ برس چوبیس اپریل کو غزہ شہر پر ایک اسرائیلی فضائی حملے میں فری لانس دبنگ صحافی آمنہ حمید کو کنبے سمیت ٹارگٹ کیا گیا۔ آمنہ اور ان کے بارہ سالہ صاحبزادے مہدی شہید ہو گئے۔آمنہ کے پانچ دیگر بچے اور ان کے بھائی زخمی ہو گئے۔بچوں میں سب سے چھوٹی ضحا ہے جو آمنہ کی شہادت کے وقت سات ماہ کی تھی۔ دیگر زخمی بچوں کی عمر بالترتیب چار ، پانچ ، نو اور دس برس تھی۔آمنہ کے شوہر سعید حسانا بھی صحافی ہیں مگر اپنی اہلیہ کی شہادت کے وقت جنوبی غزہ میں پناہ گزین تھے۔جانے اب تک زندہ بھی ہوں گے یا نہیں۔
آمنہ کی شہادت سے تین ہفتے قبل اسرائیلی چینل بارہ نے مسلسل مہم چلائی کہ آمنہ دہشت گرد اور حماس کی سرگرم رکن ہیں۔ ثبوت یہ پیش کیا گیا کہ آمنہ کے والدین نے اس وقت غزہ شہر کے الشفا اسپتال کے احاطے میں پناہ لے رکھی تھی جب فوج نے اس پر دہاوا بولا کیونکہ الشفا حماس کا گڑھ تھا۔پس ثابت ہوا کہ آمنہ اور اس کا خاندان حماس کے لیے کام کرتا تھا۔
مگر جو صحافی حماس کے لیے ’’ کام ‘‘ نہیں کرتے ان کا کیا ؟ ایسی وارداتوں کو اسرائیلی فوج ایک ’’ غلطی ‘‘ قرار دے کر ’’ معذرت ‘‘ کر لیتی ہے اور پھر یہ معذرت انھی اخبارات ، خبررساں ایجنسیوں اور چینلوں پر شایع و نشر ہوتی ہے جو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اپنے کارکنوں کی شہادت کے بعد ان کارکنوں کا نام لیتے ہوئے بھی دس بار سوچتے ہیں کہ کہیں قاتل برا نہ مان جائے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے کام کرنے میڈیا ورکرز صحافیوں کی صحافی اور فری لانس کی شہادت صحافی ا شہید ہو اور اس
پڑھیں:
بھارتی صحافی رویش کمار کا اپنے ہی اینکر پر وار، ارنب گوسوامی کو دوغلا قرار دیدیا
نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک )بھارتی صحافی رویش کمار نے اپنے ہی میڈیا کے معروف اینکر ارنب گوسوامی کو نشانے پر رکھ لیا۔
رویش کمار نے ارنب گوسوامی کو آئینہ دکھاتے ہوئے انہیں دہرا معیار رکھنے والا قرا ر دے دیا۔
رویش کمار کا کہنا تھا کہ مودی سرکار کا پروپیگنڈا پھیلانے والے اینکر نے پاکستان کے خلاف سابق کرکٹرز کو اکسایا، لیکن مودی حکومت کا نام لینے یا اس پر تنقید کرنے کی جرات نہ کی۔
Ravish Kumar brutally roasted Arnab Guswami and BJP Govt for India Pakistan match , Must watch ???????? pic.twitter.com/m2FWJFmuQG
— Adv. Strange Tyagi (@strrrange_dr5) September 16, 2025
انہوں نے کہا کہ ارنب گوسوامی سابق کھلاڑیوں پر ایسے برسا جیسے آسمان گرا دے گا، مگر حکومت کے معاملے پر خاموش رہا۔
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ اگر دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے۔
Post Views: 5