اللہ جانے مظلومیت ہمارے چہرے پر سجتی ہے یا ہماری مہارت کہ اپنی کرپشن، خودغرضانہ رویوں، بے عملیوں اور نا اہلیوں کو چھپانے کے لیے کسی بھی حادثے یا آفت کی صورت میں اسے جھٹ سے منہ پر سجا لیتے ہیں۔
2010 کا سیلاب تھا یا 2022 کا، ہم نے سیلابی المیوں میں انسانی کوتاہیوں کا تمام الزام عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں پر ڈال کر خود کو معصوم ومظلوم قرار دے کر ہاتھ جھاڑ دیے۔ 2022 کے سیلاب کے ساتھ یہ بیانیہ زور وشور سے شروع ہوا کہ ہم اپنے حصے سے کہیں زیادہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔
اس بیانیے کے مطابق پاکستان دوسروں کے کردہ گناہوں کے سبب سیلابی اذیت کا شکار ہوا۔ یوں سیلاب کی وسیع تباہی کے پیچھے ہماری ماحول دشمن پالیسیوں، کرپشن اور بداعمالیوں کا جو ڈھیر موجود تھا، اسے مہارت سے بیانیے کے زور پر سائیڈلائن کر دیا گیا۔ شاید ہم اپنی مظلومیت کی دہائی دینے میں عافیت اور اسے کامیابی سمجھتے ہیں یا شاید عملاً ضروری اقدامات کی صلاحیت سے عاری ہیں۔
ہم عوام بھی سادہ مزاج ہیں کہ ہمیں اپنے لیڈران اور انتظامی مشینری کا دل رکھنے کی زیادہ فکر رہتی ہے۔ سوال اٹھانے کے بجائے پیش کیے گئے بیانیہ پر ٹاک شوز، مضامین اور گفتگو کے سلسلہ پر جی جان سے واری ہو جاتے ہیں۔ ہر سیلاب میں نئے ڈیم اور نئے آبی ذخائر بنانے کی ضرورت پر اس قدر شور اٹھتا ہے کہ اس میں سیلاب کا شور بھی دب جاتا ہے۔ لیکن ادھر پانی اترا اور ادھر بیانیوں اور ہم ایسے دانشوروں کا جوش بھی اتر جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی نئے ٹرینڈ اور نئی وائرل ویڈیو پر باجماعت مصروف ہو جاتے ہیں۔
ہمارے اس اجتماعی چلن کا ایک نمایاں مظہر یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ذمے داری لینے کو تیار نہیں، جیسے تیسے ذمے داری کا الزام دوسرے پر ڈالنا ہی کمال ہے۔ حالیہ سیلابوں میں بھی ایک الزام تو بھارت کے سر آیا جو اتنا غلط بھی نہیں تھا کہ اس نے بروقت سیلابی ڈیٹا اور وارننگز شیئر نہیں کیں جس کے سبب سیلابی ریلے کی تیزی اور وسعت کا اندازہ بروقت نہ ہو پایا اور یوں اچانک سیلاب بلا نے آن پکڑا…اور دوسرا عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے سر!
گزشتہ کچھ عرصے سے ایک ترکیب بار بار سننے کو مل رہی ہے: کلاؤڈ برسٹ۔ چند سال سے یہ ترکیب پاکستان میں بکثرت استعمال ہونا شروع ہوئی۔ کلاؤڈ برسٹ اس کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انتہائی مختصر وقفے میں ایک جگہ پر بادل پھٹنے کے عمل سے پانی اس تیزی سے بارش کی صورت برستا ہے کہ سیکڑوں ملی میٹر بارش کا پانی منٹوں میں زمین پر وارد ہو جاتا ہے۔
اس بار کے پی کے اور گلگت بلتستان میں شدید بارشوں کو کلاؤڈ برسٹ سے منسوب کر کے ہم نے ذمے داری قدرت پر ڈال دی۔ چکوال میں شدید بارش کو بھی کلاؤڈبرسٹ کا نام دے کر قدرتی آفت کے سپرد کر دیا۔ کلاؤڈبرسٹ کی ترکیب کو بار بار یوں بے محابہ استعمال کرنے پر محکمہ موسمیات کو وضاحت دینا پڑی کہ یہ تمام بارشیں کلاؤڈبرسٹ نہیں تھیں، لہٰذا کلاؤڈبرسٹ کی ترکیب استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتی جائے۔ اس پر ماحولیات کی ایک سابق وفاقی وزیر محکمے پر برسیں کہ اس وقت یہ باتیں کرنے کا موقع نہیں یعنی کلاؤڈبرسٹ کے ذمے الزام دھرنے سے اگر حکمرانوں کا کام چل رہا ہے تو محکمے کو کیا پڑی ہے تصحیح کرنے کی!
دنیا بھر میں قدرتی آفات کے سامنے انسان اکثر اوقات مجبور ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بیشتر ممالک ممکنہ قدرتی آفات کے وارد ہونے سے قبل اس کی پیش بندی پر سوچ بچار کرتے ہیں، پلاننگ کرتے ہیں اور وسائل مہیا کرتے ہیں تاکہ آفت وارد ہونے کی صورت میں ممکنہ حد تک انسانی اور مالیاتی نقصانات سے بچا جا سکے۔ یورپ، امریکا اور چین میں گزشتہ چند سالوں میں بار بار آنے والے سیلابوں کے باوجود ریاستی مشینری کی تیاری نے نقصانات کو بہت حد تک قابو میں کیا۔
ہمارے ہاں کا چلن اس سے الٹ ہے۔ قدرتی آفات کی تباہی سے بچنے کے لیے ہمارے مختلف ادارے آہستہ آہستہ سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ آفات کی پیش بندی پر پیشرفت بہت کم ہوتی ہے۔ اوپر سے نیچے تک ہر ایک کی شارٹ کٹ، کرپشن اور چھیناجھپٹی کی روش نے کبھی چھوٹے بڑے ڈیم بننے کی طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہونے دی۔ جنگلوں کی کٹائی کا جنون بھی اپنے زوروں پر رہا۔ آبادی کے محابہ اضافے کے سبب اور پاگل پن کی حد تک کمرشلزم کی دوڑ نے سیلابی گزرگاہوں پر قبضے اور عمارات کے سبب دریاؤں اور نالوں کی گزرگاہوں کے راستے ہی بلاک کر دیے ہیں۔
یہی حال شہروں کا ہے، ہر طرف کنکریٹ کے پھیلاؤ نے زرعی زمین کاٹ کاٹ کر اپنی جگہ بنائی ہے۔ شہری آبادیوں کی بڑھتی ضروریات کے سبب زیرزمین پانی بے تحاشا نکالا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ 15/ 20 سالوں میں لاہور سمیت بہت سے شہروں میں پانی کی گہرائی دو گنا بڑھ چکی ہے۔ لیکن مجال ہے عوامی یا حکومتی سطح پر زبانی جمع خرچ کے علاوہ اس پر کبھی کوئی بات ہوئی ہو۔
بار بار ہم صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری کی بات کرتے نہیں تھکتے لیکن دوسری طرف صنعتی ترقی کے ساتھ جڑے ہوئے اہم مسئلے صنعتی فضلے اور آلودگی کے اخراج کو ماحول دوست بنانے کے اقدامات سے گریزاں ہیں۔ لاہور اور فیصل آباد سمیت تمام بڑے شہروں میں شاذ ہی چند اداروں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہوں گے ورنہ ہر جگہ صنعتی فضلے اور استعمال شدہ زہریلے پانی کا رخ ندی نالوں، نہروں اور دریاؤں کی طرف موڑ دیتے ہیں لیکن مجال ہے اس ظالمانہ اقدام کو روکنے کے لیے ہم عوامی سطح پر یا انتظامی سطح پر متحرک ہوئے ہوں۔
بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو گلگت بلتستان سے ہمارے ایک کرم فرما راجہ نوشیرواں کیانی نے اپ ڈیٹ کیا کہ فلیش فلڈز نے کس طرح دیکھتے دیکھتے دیہات ملیامیٹ کر ڈالے۔ قدرتی راستوں پر کم ازکم چار مصنوعی جھیلیں بن گئیں۔ ایڈوانس وارننگ سسٹم لگائے گئے ہیں لیکن ماحول کے ساتھ جو ہاتھ کمرشلزم نے کیا ہے وہاں ایڈوانس وارننگ سسٹم کیا کرے گا۔ جنت نظیر گلگت بلتستان اور شمالی علاقے جات کے قدرتی ماحول میں ٹمبر مافیا سے لے کر ٹورزم کے جغادریوں نے گہرے شگاف پیدا کر دیے ہیں جو دوررس اور تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں لیکن ہم باز شاید پھر بھی نہیں آئیں گے۔
سیلاب کے حادثے کا عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا پہلو اپنی جگہ لیکن ہم نے اجتماعی طور پر بھی ہر سطح پر حادثوں کی پرورش میں کسر نہیں چھوڑی۔ بقول قابل اجمیری…
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کلاو ڈبرسٹ جاتا ہے قدرتی ا کے سبب
پڑھیں:
روس میں فیکٹری ملازم کو تمام ملازمین کی تنخواہیں غلطی سے وصول، واپس کرنے سے انکار
روس میں ایک فیکٹری ملازم کو غلطی سے تمام ملازمین کی تنخواہ ایک ساتھ وصول ہوگئی۔ تاہم جب کمپنی نے اس سے واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے انکار کردیا۔
رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ خانٹی مانسیسک میں پیش آیا جہاں ایک فیکٹری نے اپنے ورکر ولادیمیر ریچاگوف پر 7 ملین روبلز (87,000 ڈالرز) واپس کرنے سے انکار پر مقدمہ دائر کیا ہے۔ یہ رقم سافٹ ویئر کی خرابی کی وجہ سے غلطی سے ملازم کو وصول ہوگئی تھی۔
اس سال کے آغاز میں جب اسے اپنی بینکنگ ایپ سے رقم کی اطلاع موصول ہوئی تو ولادیمیر ریچاگوف کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے 7,112,254 روبل (87,000 ڈالرز) کی رقم کو بونس سمجھا۔
ملازم کے ساتھیوں کے درمیان اگرچہ یہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ ان کی فیکٹری ان کے لیے ایک نفع بخش سال کے بعد 13ویں تنخواہ تیار کر رہی ہے، لیکن اس نے کبھی بھی اس طرح کی توقع نہیں کی تھی۔
لیکن یہ کروڑ پتی بننے کی اس کی خوشی کچھ ہی دیر کے لیے رہی کیونکہ اسے جلد ہی محکمہ اکاؤنٹنگ سے فون کالز موصول ہونے لگیں کہ اسے غلطی سے 7 ملین روبل منتقل کر دیے گئے ہیں اور اسے واپس کرنا پڑے گا۔
لیکن آن لائن کچھ تحقیق کرنے کے بعد ولادیمیر نے ایک تکنیکی error کی نشاندہی کی بنا پر رقم واپس کرنے سے انکار کردیا اور اب کیس سپریم کورٹ میں داخل کرادیا گیا ہے جہاں اس کا حتمی فیصلہ ہوگا۔