Express News:
2025-09-17@23:36:27 GMT

حادثوں کی پرورش

اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT

اللہ جانے مظلومیت ہمارے چہرے پر سجتی ہے یا ہماری مہارت کہ اپنی کرپشن، خودغرضانہ رویوں، بے عملیوں اور نا اہلیوں کو چھپانے کے لیے کسی بھی حادثے یا آفت کی صورت میں اسے جھٹ سے منہ پر سجا لیتے ہیں۔

2010 کا سیلاب تھا یا 2022 کا، ہم نے سیلابی المیوں میں انسانی کوتاہیوں کا تمام الزام عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں پر ڈال کر خود کو معصوم ومظلوم قرار دے کر ہاتھ جھاڑ دیے۔ 2022 کے سیلاب کے ساتھ یہ بیانیہ زور وشور سے شروع ہوا کہ ہم اپنے حصے سے کہیں زیادہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔

اس بیانیے کے مطابق پاکستان دوسروں کے کردہ گناہوں کے سبب سیلابی اذیت کا شکار ہوا۔ یوں سیلاب کی وسیع تباہی کے پیچھے ہماری ماحول دشمن پالیسیوں، کرپشن اور بداعمالیوں کا جو ڈھیر موجود تھا، اسے مہارت سے بیانیے کے زور پر سائیڈلائن کر دیا گیا۔ شاید ہم اپنی مظلومیت کی دہائی دینے میں عافیت اور اسے کامیابی سمجھتے ہیں یا شاید عملاً ضروری اقدامات کی صلاحیت سے عاری ہیں۔

ہم عوام بھی سادہ مزاج ہیں کہ ہمیں اپنے لیڈران اور انتظامی مشینری کا دل رکھنے کی زیادہ فکر رہتی ہے۔ سوال اٹھانے کے بجائے پیش کیے گئے بیانیہ پر ٹاک شوز، مضامین اور گفتگو کے سلسلہ پر جی جان سے واری ہو جاتے ہیں۔ ہر سیلاب میں نئے ڈیم اور نئے آبی ذخائر بنانے کی ضرورت پر اس قدر شور اٹھتا ہے کہ اس میں سیلاب کا شور بھی دب جاتا ہے۔ لیکن ادھر پانی اترا اور ادھر بیانیوں اور ہم ایسے دانشوروں کا جوش بھی اتر جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی نئے ٹرینڈ اور نئی وائرل ویڈیو پر باجماعت مصروف ہو جاتے ہیں۔

ہمارے اس اجتماعی چلن کا ایک نمایاں مظہر یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ذمے داری لینے کو تیار نہیں، جیسے تیسے ذمے داری کا الزام دوسرے پر ڈالنا ہی کمال ہے۔ حالیہ سیلابوں میں بھی ایک الزام تو بھارت کے سر آیا جو اتنا غلط بھی نہیں تھا کہ اس نے بروقت سیلابی ڈیٹا اور وارننگز شیئر نہیں کیں جس کے سبب سیلابی ریلے کی تیزی اور وسعت کا اندازہ بروقت نہ ہو پایا اور یوں اچانک سیلاب بلا نے آن پکڑا…اور دوسرا عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے سر!

گزشتہ کچھ عرصے سے ایک ترکیب بار بار سننے کو مل رہی ہے: کلاؤڈ برسٹ۔ چند سال سے یہ ترکیب پاکستان میں بکثرت استعمال ہونا شروع ہوئی۔ کلاؤڈ برسٹ اس کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انتہائی مختصر وقفے میں ایک جگہ پر بادل پھٹنے کے عمل سے پانی اس تیزی سے بارش کی صورت برستا ہے کہ سیکڑوں ملی میٹر بارش کا پانی منٹوں میں زمین پر وارد ہو جاتا ہے۔

اس بار کے پی کے اور گلگت بلتستان میں شدید بارشوں کو کلاؤڈ برسٹ سے منسوب کر کے ہم نے ذمے داری قدرت پر ڈال دی۔ چکوال میں شدید بارش کو بھی کلاؤڈبرسٹ کا نام دے کر قدرتی آفت کے سپرد کر دیا۔ کلاؤڈبرسٹ کی ترکیب کو بار بار یوں بے محابہ استعمال کرنے پر محکمہ موسمیات کو وضاحت دینا پڑی کہ یہ تمام بارشیں کلاؤڈبرسٹ نہیں تھیں، لہٰذا کلاؤڈبرسٹ کی ترکیب استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتی جائے۔ اس پر ماحولیات کی ایک سابق وفاقی وزیر محکمے پر برسیں کہ اس وقت یہ باتیں کرنے کا موقع نہیں یعنی کلاؤڈبرسٹ کے ذمے الزام دھرنے سے اگر حکمرانوں کا کام چل رہا ہے تو محکمے کو کیا پڑی ہے تصحیح کرنے کی!

دنیا بھر میں قدرتی آفات کے سامنے انسان اکثر اوقات مجبور ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بیشتر ممالک ممکنہ قدرتی آفات کے وارد ہونے سے قبل اس کی پیش بندی پر سوچ بچار کرتے ہیں، پلاننگ کرتے ہیں اور وسائل مہیا کرتے ہیں تاکہ آفت وارد ہونے کی صورت میں ممکنہ حد تک انسانی اور مالیاتی نقصانات سے بچا جا سکے۔ یورپ، امریکا اور چین میں گزشتہ چند سالوں میں بار بار آنے والے سیلابوں کے باوجود ریاستی مشینری کی تیاری نے نقصانات کو بہت حد تک قابو میں کیا۔

ہمارے ہاں کا چلن اس سے الٹ ہے۔ قدرتی آفات کی تباہی سے بچنے کے لیے ہمارے مختلف ادارے آہستہ آہستہ سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ آفات کی پیش بندی پر پیشرفت بہت کم ہوتی ہے۔ اوپر سے نیچے تک ہر ایک کی شارٹ کٹ، کرپشن اور چھیناجھپٹی کی روش نے کبھی چھوٹے بڑے ڈیم بننے کی طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہونے دی۔ جنگلوں کی کٹائی کا جنون بھی اپنے زوروں پر رہا۔ آبادی کے محابہ اضافے کے سبب اور پاگل پن کی حد تک کمرشلزم کی دوڑ نے سیلابی گزرگاہوں پر قبضے اور عمارات کے سبب دریاؤں اور نالوں کی گزرگاہوں کے راستے ہی بلاک کر دیے ہیں۔

یہی حال شہروں کا ہے، ہر طرف کنکریٹ کے پھیلاؤ نے زرعی زمین کاٹ کاٹ کر اپنی جگہ بنائی ہے۔ شہری آبادیوں کی بڑھتی ضروریات کے سبب زیرزمین پانی بے تحاشا نکالا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ 15/ 20 سالوں میں لاہور سمیت بہت سے شہروں میں پانی کی گہرائی دو گنا بڑھ چکی ہے۔ لیکن مجال ہے عوامی یا حکومتی سطح پر زبانی جمع خرچ کے علاوہ اس پر کبھی کوئی بات ہوئی ہو۔

بار بار ہم صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری کی بات کرتے نہیں تھکتے لیکن دوسری طرف صنعتی ترقی کے ساتھ جڑے ہوئے اہم مسئلے صنعتی فضلے اور آلودگی کے اخراج کو ماحول دوست بنانے کے اقدامات سے گریزاں ہیں۔ لاہور اور فیصل آباد سمیت تمام بڑے شہروں میں شاذ ہی چند اداروں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہوں گے ورنہ ہر جگہ صنعتی فضلے اور استعمال شدہ زہریلے پانی کا رخ ندی نالوں، نہروں اور دریاؤں کی طرف موڑ دیتے ہیں لیکن مجال ہے اس ظالمانہ اقدام کو روکنے کے لیے ہم عوامی سطح پر یا انتظامی سطح پر متحرک ہوئے ہوں۔

بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو گلگت بلتستان سے ہمارے ایک کرم فرما راجہ نوشیرواں کیانی نے اپ ڈیٹ کیا کہ فلیش فلڈز نے کس طرح دیکھتے دیکھتے دیہات ملیامیٹ کر ڈالے۔ قدرتی راستوں پر کم ازکم چار مصنوعی جھیلیں بن گئیں۔ ایڈوانس وارننگ سسٹم لگائے گئے ہیں لیکن ماحول کے ساتھ جو ہاتھ کمرشلزم نے کیا ہے وہاں ایڈوانس وارننگ سسٹم کیا کرے گا۔ جنت نظیر گلگت بلتستان اور شمالی علاقے جات کے قدرتی ماحول میں ٹمبر مافیا سے لے کر ٹورزم کے جغادریوں نے گہرے شگاف پیدا کر دیے ہیں جو دوررس اور تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں لیکن ہم باز شاید پھر بھی نہیں آئیں گے۔

سیلاب کے حادثے کا عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا پہلو اپنی جگہ لیکن ہم نے اجتماعی طور پر بھی ہر سطح پر حادثوں کی پرورش میں کسر نہیں چھوڑی۔ بقول قابل اجمیری…

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کلاو ڈبرسٹ جاتا ہے قدرتی ا کے سبب

پڑھیں:

سچ بولنے والوں پر کالے قانون "پی ایس اے" کیوں عائد کئے جارہے ہیں، آغا سید روح اللہ مہدی

رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ آئینی حقوق خصوصاً دفعہ 370 ہم سے چھین لئے گئے اور عوام نے ہمیں اسی کے حصول کیلئے ووٹ دیا تھا، لیکن ہم اسے بھلا کر ریاستی درجے کی بحالی کی لڑائی لڑرہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ رکن پارلیمان سرینگر آغا سید روح اللہ مہدی نے وقف ترمیمی بل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے قوانین سبھی مذاہب پر یکساں طور پر لاگو ہونے چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ عدالت عظمیٰ نے کچھ مثبت رویہ دکھایا ہے، لیکن یہ مسئلہ ابھی مکمل طور پر حل نہیں ہوا ہے۔ آغا روح اللہ نے کہا کہ قوانین کے نفاذ میں یکسانیت انصاف اور ہم آہنگی کے لئے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے ہر برادری پر یکساں لاگو ہونے چاہئیں، ورنہ منتخب اطلاق سے بے اعتمادی اور تقسیم جنم لیتی ہے۔ ایم ایل اے ڈوڈہ، مہراج ملک کی حراست پر آغا سید روح اللہ نے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اختلافِ رائے رکھنے والی آوازوں کو دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج جو بھی سچ بولتا ہے، اسے پی ایس اے کے تحت بند کیا جاتا ہے۔ یہ آواز اٹھانے والوں پر صاف ظلم ہے۔

رکن پارلیمان نے مزید کہا کہ آئینی حقوق کا دفاع اور قانون کے سامنے مساوی سلوک ہر حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس اے کے خلاف اجتماعی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے جن نمائندوں کو عوام نے ووٹ دے کر ایوانوں میں بھیجا، وہ بھی اس معاملے پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ آغا روح اللہ نے کہا کہ آئینی حقوق خصوصاً دفعہ 370 ہم سے چھین لئے گئے اور عوام نے ہمیں اسی کے حصول کے لئے ووٹ دیا تھا، لیکن ہم اسے بھلا کر ریاستی درجے کی بحالی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاستی درجہ بحالی کی باتیں محض خوش فہمی ہیں، جب تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے تب تک ریاستی درجہ بحال ہونا ممکن نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • اسرائیل ختم ہو جائیگا، شیخ نعیم قاسم
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • مہمان خصوصی کاحشرنشر
  • سچ بولنے والوں پر کالے قانون "پی ایس اے" کیوں عائد کئے جارہے ہیں، آغا سید روح اللہ مہدی
  • عمران خان مذاکرات کے لیے تیار، لیکن بات ’بڑوں‘ سے ہوگی، وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور
  • راجہ فاروق خان ریاست کے بڑے لیڈر ہیں، فرید خان
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
  • ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے، اگر آتے تو عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے،علی امین گنڈاپور