اس برس دس نومبر سے پچیس نومبرکے درمیان برازیل کے شمالی شہر بیلم میں دنیا کے تقریبا دو سو ممالک کے لیڈر، منسٹر، ڈپلومیٹ، میڈیا، سول سوسائٹی، بزنس کمیونٹی،اسکالرز اور ماحولیاتی ماہرین جمع ہو رہے ہیں اور یہ پہلی دفعہ ہے کہ یہ تقریب ایمازون کے جنگلات میں منعقدکی جا رہی ہے۔
یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے ایک نیا ہائی وے بنایا گیا ہے جس کے لیے جنگلات کی کٹائی کی گئی ہے جو خود میں ایک سوال ہے۔ یہ کانفرنس جسے دنیا COP30 کہتی ہے، دراصل زمین کا مقدمہ ہے، زمین جو ہماری ماں ہے، جس کے سینے پر ہم نے اپنے شہر اپنی معیشت کے خواب سجائے وہی زمین آج تپتے ہوئے سورج بڑھتے ہوئے سمندر اور اجڑتے ہوئے جنگلات کی صورت میں ہم سے حساب مانگ رہی ہے۔
برازیل نے بیلم کا انتخاب یوں ہی نہیں کیا، یہ شہر غربت، ماحولیاتی تباہی اور استحصال کی علامت ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان جب اپنے جنگل کاٹ ڈالتا ہے، دریاؤں کو سوکھنے دیتا ہے اور غریبوں کوکنکریٹ کے جنگلوں میں دھکیل دیتا ہے تو پھر طوفان آتے ہیں، سیلاب سب کچھ بہا لے جاتے ہیں اور آگ انسانوں کے گھروں تک پہنچ جاتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ بیلم کی گونج کراچی تک کیوں پہنچنی چاہیے؟ پاکستان کیوں اس عالمی مکالمے کا حصہ بنے؟ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سب سے کم گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتے ہیں لیکن ماحولیاتی تباہی کے سب سے بڑے شکار ہیں۔
2022 کا سیلاب آج بھی ہمارے اجتماعی حافظے پر تازہ ہے 3 کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے کھیت اجڑگئے، اسکول بہہ گئے اور لاکھوں بچے کھلے آسمان تلے بیماریوں اور بھوک سے لڑتے رہے۔ اس وقت عالمی اخبارات میں پاکستان کی تصویریں تھیں، ایک ماں اپنے بچے کو کندھوں پر اٹھائے گہرے پانیوں سے گزر رہی ہے، ایک بوڑھا شخص اپنی کچی جھونپڑی کے ملبے پر بیٹھا رو رہا ہے۔
دنیا کے دارالحکومتوں میں اس پر بات ہوئی امداد کے وعدے کیے گئے لیکن تین سال گزرنے کے باوجود کیا ہمارے لوگوں کو انصاف ملا؟ کیا ہمارے حکمرانوں نے اپنے شہروں، دیہاتوں اور دریاؤں کی حفاظت کے لیے کوئی سنجیدہ منصوبہ بنایا؟
پاکستان میں ماحولیاتی نا برابری بڑھتی جا رہی ہے۔ امیر طبقہ ایئرکنڈیشنڈ گھروں میں بند ہے وہ آلودگی سے بچنے کے لیے درآمد شدہ پانی پیتا ہے اور صحت مند خوراک خریدتا ہے لیکن غریب، مزدور،کسان اور دیہاڑی دار اسی آلودہ پانی سے بیمار ہوتا ہے، اسی دھوئیں سے پھیپھڑوں کے کینسرکا مریض بنتا ہے اور اسی تباہ حال گاؤں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے خواب دفن کردیتا ہے۔
برازیل کے ایمازون اور پاکستان کے سندھ و بلوچستان یہ دونوں خطے ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ ایمازون کے جنگلات کو سرمایہ دارکمپنیاں کاٹ رہی ہیں اور ہمارے ہاں سندھ کے دریا اور نالے بند کیے جاتے ہیں تاکہ پلازہ بن سکیں اور زمین بیچی جا سکے۔
بیلم کی کانفرنس میں جب دنیا کے رہنما یہ کہیں گے کہ ’’ زمین کو بچانا سب کی ذمے داری ہے‘‘ تو ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ کراچی کے ندی نالوں پر جو عمارتیں بن گئی ہیں وہ صرف زمین کو نہیں انسانیت کو بھی قتل کر رہی ہیں۔ آج بھی جب مون سون کی بارش آتی ہے تو غریب بستیوں میں پانی بھر جاتا ہے بیماریاں پھیلتی ہیں لیکن بلند و بالا عمارتوں والے محفوظ رہتے ہیں۔
عالمی وعدے کیے جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ وعدے وفا نہیں ہوتے۔ دیکھتے ہیں کہ اس دفعہ بھی صرف وعدے ہی کیے جاتے ہیں یا ان پرکچھ عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔
برازیل میں COP30 پر بات ہوگی کہ ترقی یافتہ ممالک 1.
ہمارے نصاب میں ماحولیاتی تعلیم کہاں ہے؟ ہمارے شہروں میں شجرکاری کی بجائے بلڈرز مافیا کا راج کیوں ہے؟ ہمارے کسانوں کو پائیدار زراعت کے لیے کوئی سہولت کیوں نہیں دی جاتی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب اگر اب بھی نہ دیا گیا تو جو نقصان ہم کو ہوگا، اس سے کوئی ہمیں بچا نہیں سکے گا۔
ماحولیاتی تباہی کا سب سے زیادہ بوجھ عورت ہی پر پڑتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی عورت جب پانی لانے کے لیے میلوں کا سفرکرتی ہے تو وہ صرف پانی نہیں اپنی زندگی کا قیمتی وقت اور صحت بھی کھو دیتی ہے۔ جب کھیت ڈوب جاتے ہیں تو سب سے پہلے عورت کے زیور بیچے جاتے ہیں، جب گھر اجڑتا ہے تو سب سے پہلے عورت کو اپنی چادر اور اپنی عزت بچانے کی فکر ہوتی ہے۔
یہی عورت ہے جو ماحولیات کی اصل محافظ ہے۔ وہی اپنے گھر کے صحن میں پودا لگاتی ہے، وہی بیج سنبھالتی ہے، وہی بارش کے پانی کو محفوظ کرتی ہے، لیکن ریاست اور سماج نے اسے ہمیشہ نظراندازکیا ہے۔ کاش! بیلم کی کانفرنس میں یہ آواز بھی سنی جائے کہ عورت کو طاقتور بنائے بغیر ماحولیاتی انصاف ممکن نہیں۔
برازیل کی کانفرنس میں دنیا بڑے بڑے فیصلے کرے گی لیکن اگر پاکستان کے حکمران اور عوام خود نہ جاگے تو یہ سب آوازیں ہمارے کانوں تک آ کر بھی بے اثر ہو جائیں گی۔ ابھی بھی وقت ہے اگر ہم چاہیں تو اپنے شہروں کے ماسٹر پلان میں ندی نالوں کی اصل حالت بحال کر سکتے ہیں۔
ہم چاہیں تو کسان کو پائیدار زراعت کے نئے طریقے سکھا سکتے ہیں۔ ہم چاہیں تو اسکول کے نصاب میں بچوں کو سکھا سکتے ہیں کہ زمین کو ماں کی طرح عزیز رکھنا ہے۔اگر ہم نے زمین کی پکار نہ سنی تو آنے والی نسلیں نہ ہمیں معاف کریں گی اور نہ ہی حکمرانوں کو۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جاتے ہیں دنیا کے ہیں تو رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7
کائنات اپنی وسعت میں ہمیشہ انسان کو حیرت زدہ کرتی آئی ہے۔ آسمان کی بے پناہ گہرائی میں جب کوئی نیا مظہر ظاہر ہوتا ہے تو نہ صرف فلکیات کی دنیا میں ایک ارتعاش پیدا ہوتا ہے بلکہ انسان کے ذہن و شعور میں بھی نئی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایک ایسا ہی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہے جس نے ماہرین فلکیات کو حیران اور عام انسان کو متجسس بنا دیا ہے۔ ناسا نے اعلان کیا ہے کہ ایک پراسرار خلائی جسم ناقابلِ یقین تیزی کے ساتھ سورج کے نظام میں داخل ہورہا ہے۔ اس جسم کو عارضی طور پر A11pl3Z کا نام دیا گیا ہے اور اس کی رفتار تقریباً دو لاکھ پینتالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ رفتار کسی عام شہابیے یا دمدار ستارے کی نہیں بلکہ ایک ایسے اجنبی مہمان کی ہے جو خلا کی تاریکی سے آکر ہماری سائنس اور فلکیات کو نئے سوالات میں الجھا رہا ہے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ ہمارے نظامِ شمسی میں اجنبی مہمان آیا ہو۔ اس سے قبل بھی دو بین النجومی اجسام کی دریافت ہوچکی ہے جنہیں سائنس کی تاریخ میں خاص مقام حاصل ہے۔ پہلا Oumuamua تھا جو 2017ء میں دریافت ہوا۔ اس کی شکل لمبوتری اور چپٹی تھی اور اس نے سورج کی کشش کے برعکس عجیب انداز میں حرکت کی، جس پر بعض سائنس دانوں نے حتیٰ کہ مصنوعی ہونے کا شبہ بھی ظاہر کیا۔
دوسرا مہمان 2I/Borisov تھا جو 2019ء میں دریافت ہوا اور ایک عام دمدار ستارے کی طرح نظر آیا، تاہم اس کا مدار سورج کی کشش سے آزاد تھا اور وہ محض ایک زائر کی حیثیت سے آیا اور گزر گیا۔ اب یہ تیسرا مہمان A11pl3Z ہے، جو اپنے حجم اور غیرمعمولی حرکت کی وجہ سے سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
اس A11pl3Z کو ناسا کے ATLAS سسٹم نے 25 جون کو دریافت کیا۔ یہ جسم اپنے ساتھ کئی سوالات لے کر آیا ہے۔ عام دمدار ستارے جب سورج کے قریب آتے ہیں تو ان کے گرد روشنی کا ایک ہالہ یا ’’کُما‘‘ بنتا ہے اور ان کی ایک دم بھی نظر آتی ہے جو سورج سے مخالف سمت میں پھیلتی ہے۔ لیکن اس جسم کے گرد نہ کوئی کُما ہے اور نہ ہی دم۔ اس لیے اس کے کومیٹ ہونے پر شکوک ہیں۔ اگر یہ شہابیہ ہے تو بھی اس کا برتاؤ عام شہابیوں جیسا نہیں۔ اس کا مدار سورج کی کشش کے تابع نہیں بلکہ ہائپربولک ہے، یعنی یہ یہاں کچھ وقت کے لیے آئے گا اور پھر واپس گہرے خلا میں نکل جائے گا۔
سائنس دانوں نے اس کے حجم کا تخمینہ 10 سے 20 کلومیٹر لگایا ہے، جو کسی چھوٹے شہر کے برابر ہے۔ یہ اگر واقعی ایک ٹھوس شہابیہ یا اجنبی پتھریلا جسم ہے تو اپنی جسامت کے اعتبار سے انسانوں کی دریافت کردہ سب سے بڑے بین النجومی اجسام میں شمار ہوگا۔ لیکن اس کی سب سے بڑی پہچان اس کی رفتار ہے جو اتنی زیادہ ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کے کسی بھی عام جسم سے بڑھ کر ہے۔ یہاں تک کہ Oumuamua اور 2I/Borisov بھی اس رفتار کے قریب نہیں پہنچتے۔
فلکیاتی ماہرین اس وقت اپنی جدید ترین رصدگاہوں کو اس پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ، جو کائنات کی سب سے طاقتور آنکھ سمجھی جاتی ہے، اور ویرہ سی روبن آبزرویٹری، دونوں اس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یورپی خلائی ادارے کے سائنس داں رچرڈ موئسل کا کہنا ہے کہ اگر یہ کومیٹ ہے تو اس کا برتاؤ غیرمعمولی ہے، اور اگر یہ کچھ اور ہے تو یہ ہماری فلکیاتی درجہ بندی کو ہی بدل کر رکھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نئی تصویر اور ہر نیا ڈیٹا پوری دنیا کے ماہرین کی دل چسپی کا مرکز بن رہا ہے۔
یہ جسم رواں ماہ مریخ کے قریب سے گزرے گا اور دسمبر میں زمین کے قریب ترین ہوگا۔ لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس وقت زمین سورج کے مخالف حصے میں ہوگی، لہٰذا کسی تصادم کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس کے باوجود یہ واقعہ انسانی ذہن کو جھنجھوڑتا ہے کہ کائنات میں کتنے ہی اجسام انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کرتے ہیں اور ہم اکثر ان کے بارے میں بے خبر رہتے ہیں۔ ناسا کے ایک ماہر مارک نوریس نے کہا ہے کہ ایسے دس ہزار تک اجسام بیک وقت ہمارے نظامِ شمسی میں موجود ہوسکتے ہیں جنہیں ہم اب تک دریافت ہی نہیں کرپائے۔
یہاں ایک اور اہم پہلو سامنے آتا ہے۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ بین النجومی اجسام اپنے ساتھ کائنات کے دور دراز خطوں کے ذرات اور مواد لاتے ہیں۔ ان میں کاربن مرکبات، نامیاتی سالمات اور حیات کے اجزائے ترکیبی شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ اجسام زمین یا کسی اور سیارے سے ٹکرائیں یا اس کے قریب سے گزریں تو وہ وہاں زندگی کے بیج ڈال سکتے ہیں۔ یوں A11pl3Z جیسا مہمان ممکنہ طور پر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ زندگی کا آغاز کس طرح ہوا اور یہ کہ کائنات کے مختلف خطوں میں سیاروں کا باہمی تعلق کس انداز سے وجود میں آتا ہے۔
اس سے قبل Oumuamua کے بارے میں بھی یہ قیاس کیا گیا تھا کہ شاید وہ کسی اجنبی تہذیب کی باقیات یا خلائی جہاز ہو۔ اگرچہ یہ خیال سائنسی برادری میں متفقہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، مگر اس نے یہ بحث ضرور چھیڑ دی کہ ہم کائنات کے واحد باشعور باشندے نہیں بھی ہوسکتے۔ A11pl3Z کی غیرمعمولی رفتار اور منفرد حرکت اسی طرح کے سوالات کو پھر سے زندہ کر رہی ہے۔ کیا یہ واقعی محض ایک بے جان پتھر ہے؟ یا یہ کسی اور دنیا کا کوئی اور تحفہ ہے؟
اس معاملے کا ایک فلسفیانہ پہلو بھی ہے۔ کائنات اتنی وسیع ہے کہ ہمارا نظامِ شمسی اس کے مقابلے میں ایک ننھے ذرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ ایسے میں جب کوئی اجنبی جسم اربوں میل دور سے آکر ہمارے قریب سے گزرتا ہے تو یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی علم دوستی اور تجسس کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ ہم جتنا جانتے ہیں، اتنا ہی یہ احساس بڑھتا ہے کہ کائنات کے راز ابھی کھلنے باقی ہیں۔
ماہرین کے نزدیک آنے والے چند ماہ انتہائی اہم ہوں گے۔ جیسے جیسے یہ جسم زمین اور مریخ کے قریب سے گزرے گا، ہمیں اس کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل ہوں گی۔ اس کی سطح کی ساخت، اس کے رنگ اور اس کی حرکت کے معمولات سے شاید یہ طے ہوسکے کہ یہ شہابیہ ہے، دمدار ستارہ ہے یا پھر کوئی نیا اور غیرمتوقع مظہر ہے۔ اگر یہ واقعی کچھ ایسا نکلتا ہے جسے ہم پہلے کبھی نہ جانتے تھے تو یہ دریافت ہماری فلکیاتی درجہ بندی کو بدل ڈالے گی۔
سائنس کی دنیا میں ہر نئی دریافت ایک نئی بحث کو جنم دیتی ہے۔ A11pl3Z بھی ایک ایسا ہی موقع ہے۔ یہ ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے نظریات کو پرکھیں، اپنے سوالات کو وسیع کریں اور اپنی سائنس کو مزید تحقیق کی طرف لے جائیں۔ یہ محض ایک جسم نہیں بلکہ ایک سوال ہے جو کائنات نے ہماری طرف پھینکا ہے۔ اور سوالات ہی انسان کو علم کے سفر پر آگے بڑھاتے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ کائنات ہمیں اپنے راز آہستہ آہستہ کھول کر دکھا رہی ہے۔ کبھی Oumuamua آتا ہے، کبھی Borisov، اور اب A11pl3Z۔ شاید کل کوئی اور اجنبی مہمان ہماری کہکشاں کا سفر کرتے کرتے ہمارے پاس سے گزر جائے۔ ہر نیا مہمان ہمارے لیے ایک آئینہ ہے، جو ہمیں ہماری اپنی محدودیت کا احساس دلاتا ہے اور ہماری جستجو کو زندہ رکھتا ہے۔
علاوہ ازیں ماہرینِ فلکیات نے مذید حیرت انگیز انکشاف کیا ہے جس نے پوری دنیا کے سائنسی حلقوں میں دلچسپی پیدا کر دی ہے۔ یونیورسٹی آف ہوائی کے ماہرین کے مطابق زمین کے قریب ایک نیا فلکیاتی جسم دریافت ہوا ہے جو گزشتہ 60 برسوں سے زمین کے ساتھ ساتھ گردش کر رہا تھا، مگر اپنی معمولی جسامت اور مدھم روشنی کے باعث انسانی نگاہوں سے پوشیدہ رہا۔ اس خلائی پتھر کو 2025 PN7 کا نام دیا گیا ہے، اور ماہرین اسے زمین کا ‘‘دوسرا چاند’’ یا ‘‘شب قمر’’ (quasi-moon) قرار دے رہے ہیں۔
یہ فلکیاتی جسم سورج کے گرد تقریباً زمین کے مساوی مدار میں گھومتا ہے۔ اس کی حرکت اس قدر ہم آہنگ ہے کہ گویا یہ زمین کے ساتھ خلا میں سفر کر رہا ہو۔ اگرچہ یہ زمین کی کششِ ثقل سے براہِ راست منسلک نہیں، لیکن اس کا مدار نہایت نازک توازن میں قائم ہے، جس کے باعث یہ بظاہر زمین کی پیروی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا مداری دور زمین کے بالکل برابر ہے، اور یہی ہم آہنگی اسے ایک ایسے فلکیاتی مظہر میں بدل دیتی ہے جو زمین کا دوسرا چاند محسوس ہوتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دریافت فلکیاتی علوم میں ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے۔ ماڈلز کے مطابق 2025 PN7 آئندہ چھے دہائیوں تک زمین کے ساتھ اپنی موجودہ حالت میں گردش کرتا رہے گا اور ’’quasi-satellite‘‘ کی حیثیت برقرار رکھے گا۔ یہ جسم دراصل Arjuna group سے تعلق رکھتا ہے، جو Apollo asteroids کے زیرِزمرہ آتے ہیں، ایسی کائناتی چٹانیں جو زمین کے ساتھ 1:1 مداری گونج (orbital resonance) میں حرکت کرتی ہیں۔ یہ انکشاف ماہرینِ فلکیات کو زمین کے گرد اجسام کی حرکات، کششی اثرات اور مداروں کے پیچیدہ توازن کے بارے میں جدید ماڈل تیار کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
تحقیقات کے مطابق 2025 PN7 کا قطر 19 سے 30 میٹر کے درمیان ہے۔ یہی چھوٹا سائز اور مدھم چمک اس کے طویل عرصے تک پوشیدہ رہنے کی بنیادی وجہ بنے۔ سائنس دانوں کے نزدیک یہ حقیقت نہایت دل چسپ ہے کہ ایک ایسا asteroid سورج کے گرد تقریباً زمین جیسے مدار میں حرکت کر رہا ہے، جس کی موجودگی دہائیوں تک کسی کی نگاہ میں نہ آئی۔
یہ جسم پہلی مرتبہ 2 اگست 2025 کو ہوائی میں موجود Pan-STARRS1 مشاہداتی نظام کے ذریعے دریافت ہوا۔ بعد ازآں جب ماضی کے مشاہداتی ریکارڈ کا ازسرِنو مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی موجودگی 2014 کی بعض فلکیاتی تصاویر میں بھی دیکھی جا سکتی تھی۔ ماہرین کے مطابق اس کی قربت اور مداری پائے داری اسے مستقبل کی خلائی تحقیقات کے لیے ایک نہایت موزوں ہدف بناتی ہے۔ روبوٹک یا تحقیقی مشن اس پر بھیجے جا سکتے ہیں تاکہ اس کی ساخت، سطحی خصوصیات اور مداری رویے کا تفصیلی مطالعہ کیا جا سکے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس دریافت کی ایک بڑی اہمیت ارضیاتی و معاشی نقطۂ نظر سے بھی ہے۔ فلکیاتی تحقیق سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کئی asteroids میں پلاٹینم، اریڈیم، پیلاڈیم، نکل اور دیگر نایاب دھاتوں کے قابلِ ذکر ذخائر موجود ہیں وہی عناصر جو زمین پر کم یاب اور مہنگے ہیں اور جن کی کان کنی ماحول کے لیے نقصان دہ اثرات رکھتی ہے۔ اس تناظر میں 2025 PN7 جیسے اجسام نہ صرف سائنسی مطالعے کے لیے قیمتی ہیں بلکہ مستقبل میں ماحول دوست وسائل کے حصول کے متبادل ذرائع فراہم کرسکتے ہیں۔
زمین کا یہ نیا فلکیاتی ہمسفر چھوٹا سہی، مگر اپنی نوعیت کا نہایت منفرد جسم ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کائنات کے اسرار ابھی مکمل طور پر منکشف نہیں ہوئے۔ خلا کی گہرائیوں میں اب بھی ایسے کئی پوشیدہ راز چھپے ہیں جو انسانی علم کے منتظر ہیں۔ 2025 PN7 اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ کائنات کی وسعتوں میں تحقیق و جستجو کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ہر نئی دریافت ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ آسمان کے پردے کے پیچھے اب بھی بہت کچھ باقی ہے۔