بھارتی وزیراعظم اورچینی صدر کی ملاقات، سرحدی کشیدگی کم کرنے اور تعاون بڑھانے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں برسوں سے جاری سرحدی کشیدگی کو پسِ پشت ڈال کر دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے واضح کیا کہ وہ باہمی احترام، اعتماد اور حساسیت کو بنیاد بنا کر تعلقات کو نئی سمت دینا چاہتے ہیں۔ صدر شی کا کہنا تھا کہ چین نہیں چاہتا کہ سرحدی تنازعہ دونوں ممالک کے وسیع تر تعلقات کی تعریف بنے۔ ان کے مطابق، اگر بھارت اور چین ایک دوسرے کو حریف کے بجائے شراکت دار سمجھیں، تو دوطرفہ تعاون دیرپا اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکتا ہے۔
مودی نے بھی تسلیم کیا کہ ہمالیائی سرحد پر اب امن و استحکام کا ماحول قائم ہو چکا ہے، اور 2020 کی جھڑپوں کے بعد جو تعطل پیدا ہوا تھا، وہ اب ختم ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سرحدی انتظام سے متعلق ایک معاہدہ طے پا گیا ہے، تاہم اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب امریکہ نے روسی تیل کی خریداری کے جواب میں بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق مودی اور شی جن پنگ کی یہ ملاقات مغربی دباؤ کے خلاف مشترکہ موقف اپنانے کا اشارہ ہے۔
صدر مودی نے اس موقع پر یہ بھی اعلان کیا کہ بھارت اور چین کے درمیان 2020 سے معطل براہِ راست پروازیں دوبارہ شروع کی جا رہی ہیں، تاہم ان کی بحالی کی تاریخ نہیں بتائی گئی۔ اسی دوران چین کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ بھارت میں کئی اہم تجارتی رکاوٹیں ختم کرنے پر اتفاق ہوا، جن میں نایاب معدنیات، کھاد اور زیرِ زمین مشینری کی برآمدات سے متعلق پابندیوں کا خاتمہ شامل ہے۔
چین میں بھارت کے سفیر شو فیہونگ نے کہا کہ بیجنگ امریکی تجارتی پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے اور نئی دہلی کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔
اگرچہ ملاقات میں مثبت پیش رفت ہوئی ، لیکن دونوں ممالک کے درمیان کئی دیرینہ مسائل اب بھی موجود ہیں۔ چین، بھارت کا سب سے بڑا دوطرفہ تجارتی شراکت دار ہے، مگر بھارت کے لیے یہ تعلق خسارے کا باعث بنتا جا رہا ہے، جو اس سال 99.
مزید برآں چین کی جانب سے تبت میں مجوزہ میگا ڈیم سے بھارت میں یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ برہم پتر دریا کا بہاؤ خشک موسموں میں 85 فیصد تک کم ہو سکتا ہے، جو خاص طور پر شمال مشرقی بھارت کے لیے شدید خطرہ ہوگا۔
اس کے علاوہ، بھارت دلائی لامہ کی میزبانی کرتا ہے، جنہیں چین علیحدگی پسند تصور کرتا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان سے بھارت کی حالیہ سرحدی جھڑپوں اور چین-پاکستان قریبی دفاعی تعلقات کے تناظر میں بھی نئی دہلی کو سفارتی دباؤ کا سامنا ہے۔
چین بھارت تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے ماہر منوج کیولرامانی کے مطابق، دونوں ممالک اب ایک نئے توازن کی تلاش میں ہیں۔ تعلقات کی موجودہ بہتری وقتی ہے یا دیرپا، اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ دونوں ممالک موجودہ خوشگوار ماحول کو کس حد تک پائیدار بنا پاتے ہیں۔ Post Views: 3
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دونوں ممالک اور چین
پڑھیں:
وزیراعلیٰ پنجاب سے جرمن رکن پارلیمنٹ کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
لاہور:وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے جرمن پارلیمنٹ کی رکن دِریا تُرک نَخباؤر (Derya Türk-Nachbaur) نے ملاقات کی۔
ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، پارلیمانی تعاون، ویمن ایمپاورمنٹ، تعلیم، یوتھ ایکسچینج پروگرام، ماحولیات اور کلین انرجی کے منصوبوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، وزیر اعلیٰ پنجاب نے جرمنی کی جانب سے حالیہ سیلاب کے دوران اظہار یکجہتی پر شکریہ ادا کیا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ پنجاب کے تاریخی اور ثقافتی دل لاہور میں جرمنی کے معزز مہمانوں کا خیرمقدم کرنا میرے لیے باعث اعزاز ہے، انہوں نے جرمنی کی فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن کی 100 ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے پاکستان میں 35 سالہ خدمات کو سراہا۔
مریم نواز نے کہا کہ فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن نے پاکستان اور جرمنی میں جمہوریت، سماجی انصاف اور باہمی مکالمے کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ فلڈ کے دوران اظہار ہمدردی و یکجہتی پاک جرمن دیرینہ دوستی کی عکاسی ہے۔ پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں جو ترقی و امن کی بنیاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب اور جرمن پارلیمان کے تبادلوں سے وفاقی تعاون اور مقامی خود مختاری کے جرمن ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔ پارلیمانی تعاون عوامی اعتماد اور باہمی تفہیم کا پُل ہے جو پاک جرمن تعلقات کو مضبوط بناتا ہے، جرمنی 1951 سے پاکستان کا قابلِ اعتماد ترقیاتی شراکت دار رہا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ جرمن تعاون نے پنجاب میں ماحولیات، ٹریننگ، توانائی، صحت اور خواتین کے معاشی کردار کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیت میں اضافے کے لیے جرمنی کے ڈوال ووکشینل ٹریننگ ماڈل کو اپنانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ پاکستان اور جرمنی کے درمیان تجارت کا حجم 2024 میں 3.6 ارب امریکی ڈالر تک پہنچنا خوش آئند ہے، جرمنی کی رینیو ایبل انرجی، زرعی ٹیکنالوجی، آئی ٹی سروسز اور کلین مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تعلیم حکومت پنجاب کے اصلاحاتی ایجنڈے کا بنیادی ستون ہے، پنجاب حکومت نصاب کی جدت، ڈیجیٹل لرننگ اور عالمی تحقیقی روابط کے فروغ پر کام کر رہی ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ جرمن اداروں کے ساتھ مشترکہ فن و ثقافت منصوبوں کا خیرمقدم کرتے ہیں، پاکستان اور جرمنی امن، ترقی اور انسانی وقار کی مشترکہ اقدار کے حامل ہیں، پارلیمانی روابط، پائیدار ترقی اور تعاون کے ذریعے پاک جرمن دوستی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پُرعزم ہیں۔