بھارت کی خارجہ و دفاعی پالیسیوں میں تضاد، سیاسی مفادات کے لیے دوہرا معیار بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT
بھارت کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں میں پائے جانے والے تضادات ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ برسوں تک چین کے خلاف سخت بیانات دینے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، اب بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر چین کی تعریفوں کے پل باندھنے پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ جب مودی اپوزیشن میں تھے تو چین کے حوالے سے ان کا لب و لہجہ خاصا جارحانہ ہوتا تھا۔ ایک موقع پر انہوں نے انتخابی جلسے میں کہا تھا، “جو چین میرے دیس کے جوانوں کے سر کاٹ لے، کیا اس کے ساتھ پروٹوکول ہونا چاہیے؟” لیکن آج وہی مودی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں چین کے صدر شی جن پنگ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نظر آئے۔
دوسری طرف حالیہ دنوں میں بھارتی فوجی قیادت، خصوصاً ڈپٹی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ، چین کے خلاف سنگین الزامات لگا چکی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں آپریشن سندور میں بھارتی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ چین نے پاکستان کو انٹیلی جنس اور تکنیکی معاونت فراہم کی، جس کی بدولت پاکستان کو برتری حاصل ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ چین “اُدھار کی چھری سے وار” کی پالیسی کے تحت پاکستان کی مدد کرتا رہا۔
تاہم انہی فوجی الزامات کے برعکس، وزیراعظم مودی بین الاقوامی فورمز پر چین سے تعاون اور دوستی کے بیانات دے رہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں ان کی شرکت اور چین کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہش بھارت کی متضاد حکمتِ عملی کو نمایاں کرتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بھارتی حکومت اندرونی سیاسی مفادات کے حصول کے لیے چین کے معاملے پر عوام کو گمراہ کرتی رہی ہے۔ بیانات اور پالیسیوں میں اس دوہرے معیار نے اب واضح کر دیا ہے کہ بھارت کی قیادت نظریاتی نہیں بلکہ وقتی اور مفاداتی فیصلوں کو ترجیح دیتی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ہمارے پاس مضبوط افواج، جدید ہتھیار ہیں، حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کرینگے: اسحاق ڈار
دوحہ‘ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو۔ دوحہ میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر ’’الجزیرہ‘‘ کو خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل ایک بے قابو ریاست بن چکی ہے جو ایک کے بعد دوسرے مسلم ملک کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہے۔ آپ نے لبنان، شام، ایران اور اب قطر پر حملہ دیکھا۔ یہ روش ناقابل قبول ہے۔ جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی متحرک کیا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ فوجی اقدام آخری راستہ ہوتا ہے جبکہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارتکاری رہی ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام ہو جائے اور جارحیت رکنے کا نام نہ لے تو پھر مؤثر عملی اقدامات ضروری ہوں گے، جن میں اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، یا علاقائی سکیورٹی فورس کی تشکیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی جوہری طاقت کے تناظر میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری جوہری طاقت محض دفاعی صلاحیت ہے، کبھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اگر ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا، تو ہم ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو۔ اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملے کو اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی سے تشبیہہ دینے پر اسحاق ڈار نے اسے ایک توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ وہ آپریشن کیا تھا۔ پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار اور سب سے بڑا فریق رہا ہے۔ بھارت سے متعلق گفتگو میں اسحاق ڈار نے کہا کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ بھارت کا آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا جیسے متنازع اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی سے انخلا کا کوئی اختیار بھارت کو حاصل نہیں۔ اگر بھارت نے پانی کو ہتھیار بنایا تو یہ اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتا ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ 7 تا 10 مئی کے درمیان پاکستان بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے واضح دفاعی برتری دکھائی اور بھارت کا خطے میں سکیورٹی نیٹ کا دعویٰ دفن ہو گیا۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تجارت، معاہدوں اور ریلوے منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے عناصر کی موجودگی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے یا افغانستان سے نکالا جائے۔ ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں لہذا ہم کسی کو اپنی سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل پر مذاکرات کیلئے تیار‘ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ انڈیا کا الزام لگانا باعث حیرت ہے۔ غزہ میں جنگ بندی یقینی بنائی جائے۔ دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہو گا۔ اسحاق ڈار اور جرمنی کے وزیر خارجہ یوہان ویڈیفل نے باہمی مفاہمت اور مشترکہ دلچسپی کے شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے علاقائی اور عالمی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ترجمان وزارت خارجہ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو جرمنی کے وزیر خارجہ یوہان ویڈیفْل کی ٹیلیفون کال موصول ہوئی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے پاکستان اور جرمنی کے درمیان تعلقات میں مثبت پیش رفت کو سراہا اور باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔