سیلابی صورتحال، احتساب لازم ہے
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی چھوڑے جانے اور موسلادھار بارشوں کے باعث پنجاب کے تین بڑے دریاؤں راوی، چناب اور ستلج میں سیلاب سے صورتحال سنگین ہوگئی، جس کے سبب ہزاروں دیہات زیر آب آنے سے سیکڑوں مویشی ہلاک اور کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں جب کہ مختلف حادثات میں 38 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
پنجاب کے مختلف دریاؤں اور شہروں میں شدید سیلابی صورتحال کے بعد سندھ حکومت نے صوبے میں ممکنہ سیلاب کے خدشے کے پیش نظر تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔
بھارت کی آبی جارحیت کوئی نئی بات نہیں رہی۔ ماضی میں بھی کئی مواقعے پر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے پانی کو یا تو روک لیا یا پھر اچانک چھوڑ کر پاکستان میں سیلابی کیفیت پیدا کی۔ حالیہ دنوں میں جس طرح بھارت نے مشرقی دریاؤں میں پانی چھوڑ کر پاکستان کے زیریں علاقوں کو ڈبویا ہے، وہ ایک بار پھر اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ بھارت نہ صرف پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی خلاف ورزی کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف اخلاقی و قانونی لحاظ سے ناقابل قبول ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔
حالیہ دنوں میں موسمیاتی تبدیلی نے خیبر پختونخوا سمیت مختلف علاقوں میں سیلاب اور کلاؤڈ برسٹ کی صورت میں تباہی پھیلائی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے وسیع پیمانے پر درخت لگانے اور فیصلہ کن اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ درخت ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف سب سے مضبوط دفاع اور زندگی بخش ماحول کی علامت ہیں، یہ نہ صرف صاف ہوا فراہم کرتے اور زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ موسم کو معتدل رکھنے اور آبی وسائل کے تحفظ میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
درخت بے شمار انواعِ حیات کو پناہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت کو کم کرتے، بارش کا پانی جذب کرتے اور یوں سیلاب و لینڈ سلائیڈنگ جیسے خطرات کو نمایاں حد تک کم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جنگلات کے رقبے میں اضافے اور زمین کی زرخیزی کے فروغ کے لیے تمام دستیاب وسائل اور قدرتی ذرایع کو بروئے کار لانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچاؤ کے لیے شجر کاری کی رفتار اور شرح میں اضافہ ناگزیر ہے۔ پاکستان اْن ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے بدترین طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔
حالیہ مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور آبی ریلوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کردی ہے کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی مؤثر تدابیر اختیار کرنا ناگزیر ہے، پاکستان میں جنگلات کا تناسب پانچ فیصد ہے جو کسی بھی ملک کی ماحولیاتی تحفظ کے لیے ناکافی ہے۔
ماہرینِ فارم فاریسٹری کے مطابق بین الاقوامی معیار کے تحت کسی بھی ملک میں کم ازکم 25 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے، مگر پاکستان میں یہ شرح گھٹ کر صرف پانچ فیصد رہ گئی ہے۔ زرعی زمینوں پر تیزی سے سوسائٹیاں قائم ہو رہی ہیں، تعمیرات کے لیے بے دریغ درخت کاٹے جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی صورتحال نہ صرف گلیشیئروں کے پگھلنے کا باعث بن رہی ہے بلکہ بے موسمی بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ جیسے مہلک مسائل کو بھی جنم دے رہی ہے۔
اس سال بارشوں کے تین اضافی اسپیل ریکارڈ کیے گئے ہیں، جس کے باعث ’’کلاؤڈ برسٹ‘‘ اور ’’فلیش فلڈ‘‘ جیسے خطرات موجود ہیں۔ تمام متعلقہ محکموں کو اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پیشگی تیاری کی ہدایت کی گئی تھی، اس کے باوجود چکوال اور راولپنڈی سمیت گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں شدید تباہی دیکھنے میں آئی۔ مذکورہ صوبوں میں بروقت انتباہ کے باوجود کسی قسم کی سنجیدہ تیاری نظر نہیں آئی، آبی گزرگاہوں سے تجاوزات کو ہٹایا گیا اور نہ ہی نشیبی علاقوں کی بروقت صفائی ممکن بنائی جا سکی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ صورتحال محض موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ نہیں بلکہ ہماری منصوبہ بندی میں سنگین کوتاہیوں کا بھی نتیجہ ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق گزشتہ صدی کے دوران پاکستان میں سالانہ اوسط درجہ حرارت میں قریباً 0.
عرصہ دراز سے ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کی باتیں کر رہے ہیں، دہائیاں رہے ہیں، 2010میں بدترین سیلاب کا سامنا کرنے کے بعد2022میں سیلاب نے تباہی مچائی اور اب پھر کم و بیش ویسی ہی صورتحال ہے لیکن درختوں کی کٹائی روکنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا، شجرکاری کی آوازیں لگتی رہیں، جو بھی اقدامات کیے گئے وہ عملی طور پر ناکافی تھے۔
آج اگر پاکستان کے پاس بڑے آبی ذخائر ہوتے، تو ہم بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کر سکتے تھے، سیلاب کی شدت کو کم کر سکتے تھے اور خشک سالی کے دنوں میں وہی پانی استعمال کر سکتے تھے، لیکن ہماری سیاسی قیادت ہمیشہ آبی ذخائر کو سیاسی تنازعہ بنا کر، کبھی پنجاب اور سندھ کے درمیان تفریق پیدا کر کے، کبھی ماحولیاتی مسائل کا بہانہ بنا کر، ان منصوبوں کو روکتی رہی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج تربیلا، منگلا اور چند دیگر ڈیمز کے علاوہ ہمارے پاس کوئی بڑا ذخیرہ موجود نہیں، اور ان ڈیمز کی بھی گنجائش حد سے تجاوز کر چکی ہے۔
دیامر بھاشا، مومند اور دیگر مجوزہ ڈیمز اگر بروقت مکمل کیے جاتے، تو آج صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔ ان منصوبوں میں صرف پانی ذخیرہ کرنا ہی نہیں بلکہ بجلی کی پیداوار، زرعی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ بھی شامل تھا۔ لیکن ان منصوبوں کی رفتار سست، فنڈز کا اجرا محدود، اور بیوروکریسی کی رکاوٹیں ان کے مکمل ہونے میں حائل رہیں۔عوام کا اعتماد ان اداروں پر پہلے ہی کمزور ہو چکا ہے، اور جب قدرتی آفات میں یہ ادارے بھی ناکام ہو جائیں، تو لوگ بے یار و مددگار ہو جاتے ہیں۔
اس پر ستم یہ کہ اکثر سیاستدان ان بحرانوں کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بناتے ہیں اور متاثرین کے ساتھ تصاویر کھنچوانے کو اپنی ہمدردی سمجھتے ہیں۔ یہ صورتحال مزید برداشت کے قابل نہیں۔ پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے پانی زندگی اور معیشت دونوں کا دار و مدار ہے۔ ہمیں فوری اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔سب سے پہلے نئے آبی ذخائر کی تعمیر کو اولین قومی ترجیح بنانا ہوگا۔
دیامر بھاشا، مومند، اور دیگر منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنا ناگزیر ہے۔ ان منصوبوں میں تاخیر صرف فنڈز یا عدالتی امور کا مسئلہ نہیں، یہ ایک قومی سلامتی کا سوال بن چکا ہے۔ ان ذخائر سے ہم نہ صرف سیلابی پانی کو محفوظ کر سکتے ہیں بلکہ توانائی کے شعبے میں خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں۔
دوسرا اہم پہلو پانی کے ضیاع کو روکنے کا ہے۔ پاکستان میں فی کس پانی کا استعمال دنیا میں سب سے زیادہ ہے، لیکن اس کے باوجود پانی کی دستیابی میں ہم روز بروز پیچھے جا رہے ہیں۔ فصلوں کی آبپاشی کے لیے روایتی طریقے چھوڑ کر ڈرپ ایریگیشن یا اسپرنکلر سسٹم جیسے جدید اور مؤثر طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ گھریلو سطح پر بھی پانی کے استعمال پر شعور پیدا کرنا ہو گا۔ اسکولوں، کالجوں اور میڈیا کے ذریعے یہ پیغام پھیلانا ہوگا کہ پانی کا ضیاع مستقبل کی نسلوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔
تیسری اور اہم ترین ضرورت ایک مضبوط اور غیر جانبدار قومی آبی پالیسی کی ہے۔ ایسی پالیسی جو تمام صوبوں کو یکساں تحفظ فراہم کرے، تمام اکائیوں کے خدشات کا ازالہ کرے، اور پانی کو سیاسی ہتھیار بننے سے روکے۔ اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان باہمی اعتماد اور سنجیدہ مشاورت ضروری ہے۔ماحولیاتی تبدیلی بھی اب ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے۔
ہمیں اپنی پالیسیوں میں ماحولیاتی تحفظ کو شامل کرنا ہو گا۔ درختوں کی بڑے پیمانے پر شجرکاری، گلیشیئرز کی مانیٹرنگ، پہاڑی علاقوں میں زمینی کٹاؤ کو روکنے کے اقدامات، اور شہروں میں بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے والے سسٹمز وقت کی اہم ضرورت ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات سے نمٹنے کے اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔ ان اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہیے، اور ناکامی کی صورت میں احتساب لازم ہے۔
مقامی حکومتوں کو فعال کیا جائے، اور عوام کو ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے تربیت دی جائے تاکہ ہر فرد قدرتی آفات کے وقت خود کو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو بچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارتکاری وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کا ریکارڈ اقوام متحدہ، عالمی بینک اور دیگر متعلقہ عالمی اداروں میں پیش کرے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں سے نمٹنے کے پاکستان کے میں سیلاب ضرورت ہے ہیں بلکہ رہے ہیں پانی کو کے ساتھ رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
سیلابی ریلہ سندھ میں داخل ، گھر دریا کی بے رحم موجوں میں بہہ گئے
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )پنجاب میں تباہی مچانےوالا سیلابی ریلہ سندھ میں داخل ہوگیا ، چند روز میں سیلابی ریلہ مٹیاری سے گزرے گا ، دریائے سندھ میں مٹیاری کے قریب پانی کی سطح میں اضافہ سے بچابند پر دباﺅ بڑھنے لگا تفصیلات کے مطابق بستی کلو میں دریائے ستلج کی تباہ کاریاں جاری مبارک پور کے نواحی علاقے بستی کلو میں دریائے ستلج کی تباہ کاریاں جاری ہیں متعدد گھر دریا کی بے رحم موجوں میں بہہ گئے جبکہ کئی گھروں کے قریب اب بھی پانی کھڑا ہے مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت گھروں کو محفوظ بنانے میں مصروف ہیں تاہم متاثرہ خاندان شدید مشکلات سے دوچار ہیں .(جاری ہے)
عارف والا میں فصلیں، زرعی اراضی اور مکانات تباہ ہوگئے، سیلاب متاثرین مفلسی اور لاچارگی کی حالت میں خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں، فلاحی و سماجی تنظیمیں بھی متاثرین کی بحالی کےلیے سرگرم 200 خاندانوں میں راشن اور برتنوں سمیت دیگر اشیائے ضروریہ تقسیم کی گئیں قبولہ کے قریب پانی کی سطح کم ہوگئی قبولہ کے قریب سیلابی پانی کی سطح کم ہوگئی سیلاب متعدد دیہات متاثر سیلاب سے متاثرہونے والے علاقوں میں لوگوں کی مشکلات بدستور برقرار ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لئے یلیف سرگرمیاں تاحال جاری ہیں. لڈن کے متاثرین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور لڈن کے نواحی علاقہ دولت آباد، عقیلہ دولتانہ اسپورٹس کمپلیکس میں سیلاب متاثرین کے لئے لگائے ریلیف کیمپ تاحال سنسان پڑے ہیں دوسری جانب متاثرین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اوچ شریف میں متاثرین گھروں کو لوٹنے کے لیے تیار اوچ شریف میں سیلابی پانی کم ہونے لگا، متاثرین گھروں کو لوٹنے کے لئے تیار ہیں اوچ شریف میں گھر وں کی صورتحال انتہائی مخدوش، فصلیں تباہ ہوگئیں،متاثرین کے لیے اپنے علاقوں میں کھانے پینے کو بھی کچھ نہیں ہے.