ریل کی جادو نگری اور ہیلو البیرونی (پہلا حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
میں چوںکہ موٹر سائیکل چلا رہا تھا، اس لیے میں نے بھی تھوڑی دیر کو گلوز پہن لیے اور جب موٹر سائیکل نے چلنا شروع کیا تو واقعی اس عمل نے بہت سکون دیا۔ سورج ہمارے سروں پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا کہ جلال پور شریف آگیا۔ ہم جہلم سے چلنا شروع ہوئے تھے اور جلال پور شریف پہنچ چکے تھے مگر سڑک کو نہ ٹھیک ہونا تھا نہ ٹھیک ہوئی۔
جلال پور شریف کی سیاحت کے بارے میں کچھ بھی چیز ہماری فہرست میں شامل نہیں تھی سڑک پر چلتے چلتے ہی ہمیں جلالپور شریف کے کچھ تاریخی دروازے نظر آئے جنہیں اب جدید ٹائلوں سے بنا دیا گیا ہے۔
ہم سڑک پر ہی جا رہے تھے کہ ہمیں دور سے ایک بلند مزار نظر آیا۔ مزار کے اندر جانے سے پہلے کچھ بات دریائے جہلم پر کر لی جائے تو مناسب ہوگا۔ دریائے جہلم کوہ ہمالیہ پیر پنجال کے دامن میں چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سری نگر کی ڈل جھیل سے پانی لیتا ہوا وولر جھیل میں گر جاتا ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس کی گزرگاہ تنگ ہوتی چلی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سلسلہ کوہ ہمالیہ ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو برصغیر پاک و ہند کو سطح مرتفع تبت سے جدا کرتا ہے۔
بعض اوقات سلسلہ ہمالیہ میں سطح مرتفع پامیر سے شروع ہونے والے دیگر سلسلوں جیسے کہ قراقرم اور ہندوکش کو بھی شامل کرلیا جاتا ہے۔ کوہ ہمالیہ کو طبقاتی طور پر چار ٹیکٹونک یونٹوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ سری نگر کا شہر اسی جھیل کے کنارے آباد ہے۔ یہ دنیا کی چند ممتاز سیرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ چونکہ دریائے جہلم اس کے بیچ سے ہو کر نکلتا ہے اس لیے اس کا پانی شیریں ہے۔
سری نگر شہر کے بیچ 25 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی اس جھیل میں دلہن کی طرح سجائی گئی ہاؤس بوٹس اور شکارے اس کی خوب صورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ دریائے جہلم کا مشاہدہ چکوٹھی میں لائن آف کنٹرول سے مظفر آباد اور کوہالہ تک کیا جا سکتا ہے۔ دریائے جہلم مظفر آباد میں دو میل کے مقام پر دریائے نیلم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اب دونوں دریاؤں کام نام صرف جہلم رہ جاتا ہے۔ اورراڑہ مصطفیٰ آباد کے مقام پر ایک اور دو میل پر دریائے کنہار دریائے جہلم میں شامل ہو جاتا ہے۔
ڈڈھیال میں چومکھ کے مقام پر دریائے پونچھ دریائے جہلم میں شامل ہو جاتا ہے اور ایک وسیع و عریض منگلا ڈیم اور جھیل بنتی ہے۔ چومکھ چار دریاؤں کے منہ کو کہتے ہیں جو جہلم، نیلم، کنہار اور پونچھ ہیں۔ دریائے جہلم موضع سلطانپور کے مقام پر پہنچ کر میدانی علاقہ سے بہتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور جنوب مغرب کو بہتا ہوا تریموں بیراج کے مقام پر یہ دریائے چناب سے مل جاتا ہے۔ یہ مغربی پنجاب کے دریاؤں میں سے اہم دریا ہے۔ یہ سارے دریا پنجند کے قریب دریائے سندھ میں مل جاتے ہیں۔
سلطان پور منگلا کے مقام پر ایک بہت بڑا ڈیم تعمیر کیا گیا ہے اور دریا کا پانی اس ڈیم میں آتا ہے۔ اس کو سلطان پور منگلاڈیم کہتے ہیں۔ اس کا پانی آبپاشی اور بجلی پیدا کرنے کے کام آتا ہے۔ دریائے جہلم پاکستان میں جہلم، ملکوال اور خوشاب کے میدانی علاقوں سے بہتا ہوا ضلع جھنگ میں تریموں کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے۔
دریائے جہلم پر1967ء میں جو سلطان پور ضلع جہلم اور موضع کھڑی ضلع میرپور کی سرحد پہ منگلا ڈیم بنایا گیا اور اس میں 5.
رسول بیراج سے رسول قادر لنک اور چشمہ جہلم لنک کینال نکالی گئی ہیں۔ دریائے جہلم اور چناب کے درمیانی علاقہ کو دوآبہ چچ کہتے ہیں۔ اس کے مغربی حصہ کو تھل کہتے ہیں۔ رسول بیراج کے مقام پر دریائے سندھ سے نہر لوئر جہلم نکالی گئی ہے جو ضلع شاہ پور، پاکستان کو سیراب کرتی ہے۔ رسول کی پن بجلی کا منصوبہ اسی کا مرہون منت ہے۔ نہر اپرجہلم منگلا ’’آزاد کشمیر‘‘ کے مقام پر سے نکالی گئی ہے اور ضلع گجرات کے بعض علاقوں کو سیراب کری ہے۔ آب پاشی کے علاوہ ریاست کشمیر میں عمارتی لکڑی کی برآمد کا سب سے بڑا اور آسان ذریعہ یہی دریا ہے۔
سکندراعظم اور پورس کی لڑائی اسی دریا کے کنارے لڑی گئی تھی۔ سکندراعظم نے اس فتح کی یادگار میں دریائے جہلم کے کنارے دو شہر آباد کیے۔ پہلا شہر بالکل اسی مقام پر تھا جہاں لڑائی ہوئی تھی اور دوسرا دریا کے اس پار یونانی کیمپ میں بسایا گیا تھا۔ اس شہر کو سکندراعظم نے اپنے محبوب گھوڑے بوسیفالس سے منسوب کیا جو اس لڑائی میں کام آیا تھا۔ جہلم کا موجودہ شہر اس مقام پر آباد ہے۔ ضلع جہلم میں مشہور قلعہ روہتاس بھی موجود ہے جو شیر شاہ سوری نے گکھڑ جنگ جوؤں سے لڑنے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ اس کے علاوہ منگلا قلعہ بھی موجود ہے۔
مجھے ڈل جھیل ہمیشہ سے اداس کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ ہمیں سری نگر سے کیا مطلب، ہمیں کیا معلوم کہ سری نگر کیا ہے، کیوں ہے۔ اس کے پہاڑ کیسے ہیں، اس کی فضائیں کیسی ہیں۔ مجھے تو بس سری نگر کی ڈل جھیل کی کشتیوں سے غرض ہے جسے مقامی زبان میں شکارا کہا جاتا ہے۔
اے پیاری ڈل جھیل جب تجھ پر کنول کے پھول کھلے ہوں، جب جنوری کی سرد صبح کی دھند ہر طرف پھیلی ہو تو میری خواہش ہے کہ میں کسی کشتی میں سوار ہوکر ڈل جھیل کے بالکل وسط میں چلا جاؤں اور کشتی رک سی جائے۔ میں کشتی کا پردہ ایک طرف کروں تو میرے چاروں طرف کنول کے پھول ہوں اور دور تک دودھیا دھند ہو۔
ایک قہوے والا میری کشتی کے پاس سے گزرے جو شہد کی لذت سے بھرپور قہوہ مجھے پیش کرے۔ اے ڈل جھیل، میں تیری سانسوں کے ساتھ سانس لینا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں تیرے اوپر تیرتے پوسٹ آفس میں جاؤں اور وہاں سے اپنے سب دوستوں کو خط لکھوں اور انھیں فخر سے بتاؤں کہ میں تمھیں ڈل جھیل پر تیرتے پوسٹ آفس سے خط لکھ رہا ہوں اور کوئی بھی میری اس خوش قسمتی پر یقین نہ کرے۔
میں ایک ایسا خط لکھنا چاہتا ہوں جس پر میرا پتا ’’کشتی نمبر 7، ڈل جھیل‘‘ لکھا ہو۔ اے میری پیاری ڈل جھیل، تو دعا کر کہ مجھے تیرے پانیوں کا لمس نصیب ہو۔ اے ڈل جھیل، تو پاک ہے صاف ہے۔ میری خوش قسمتی کے لیے دعا کر۔ میں جب بھی اپنے شہر کے جموں روڈ پر سفر کرتا ہوں تو مجھے دور سری نگر کی ڈل جھیل کی یاد ستاتی ہے۔ میں جب بھی سیچت گڑھ کے قریب جاتا ہوں جہاں سے جموں صرف 30 کلومیٹر دور ہے، مجھے ڈل جھیل کی یاد ستاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی میں ویری ناگ کے چشمہ سے پوری شدت سے پانی بہا کرتا تھا۔ ایک روز مغل سلطنت کے شہنشاہ جہانگیر کی نگاہ اس چشمے پر پڑی تو انہوں نے اپنے کاری گروں کو چشمہ کی خاص اور منفرد تعمیر کا حکم دیا۔
اس کے بعد سنہ 1620 میں، ویری ناگ چشمے کو مزید دیدہ زیب بنانے کے لیے کام شروع کیا گیا اور اسے سرخ پتھروں کی بناوٹ سے ایک گولائی والے تالاب کی شکل دے دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ چشمے کے اطراف میں ایک خوب صورت باغ بھی تعمیر کیا گیا جس میں چنار کے متعدد درخت لگا کر باغ کو جاذب نظر بنایا گیا۔ چشمہ کی تعمیر آٹھ کونوں اور چالیس محرابوں پر مشتمل ہے۔ مورخین کے مطابق یہ چشمہ تقریباً 40 گز پر محیط ہے۔ چشمے کے کناروں کی گہرائی تقریبا 15 گز بتائی جا رہی ہے۔ تاہم بیچ کی گہرائی ابھی تک واضح نہیں ہے۔
اس چشمے کی تعمیر خاص ترکیب و ترتیب سے کی گئی ہے جس سے سرسبزوشاداب پہاڑ کا عکس اس پر پڑتا ہے اور چشمے کا پانی گہرے نیلے رنگ کا نظر آتا ہے۔ چشمے کے اندر کئی نایاب اقسام کی مچھلیاں بھی موجود ہیں۔ اس تاریخی چشمے کی خوب صورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے نہ صرف ریاستی بلکہ ملکی و غیرملکی سیاح بھی بڑی تعداد میں ہر برس یہاں آتے ہیں اور اس مقام پر خوب صورت اور پُرسکون لمحات گزار کر لوٹ جاتے ہیں۔ چشمے کا پانی گول تالاب میں اکٹھا ہو کر ایک نہر کی صورت میں باہر نکل جاتا ہے۔ اسی پانی کے ساتھ کھنہ بل کے مقام پر دریائے لدر اور سنگم کے مقام پر رمبی آڑہ مل کر ایک بڑے دریا کی شکل اختیار کرتے ہیں جسے دریائے جہلم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اگرچہ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے وادی میں موجود اکثر قدرتی چشموں کا پانی یا تو کم ہوگیا یا سکڑ گئے ہیں۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ اس چشمے کی خاص بات یہ ہے کہ سیکڑوں برسوں کے بعد بھی اس کے بہاؤ میں آج تک کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔
ویری ناگ چشمہ کے پانی سے نہ صرف ضلع کے مختلف علاقوں کی سیکڑوں کنال اراضی سیراب ہوجاتی ہے بلکہ پینے کے خاطر اس کا صاف و شفاف پانی ہزاروں گھروں کو سپلائی بھی کیا جاتا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ اس کا پانی ہاضمے کے لیے بھی کافی مفید ہے وہیں، دریائے جہلم وادی کے درمیان گزرتا ہے۔ اس کے کناروں پر لاکھوں کی آبادی مقیم ہے۔ جو اس دریا سے اپنی روزی روٹی حاصل کرتے ہیں، جن میں خاص کر مچھیرے، ریت نکالنے والے اور ہاؤس بوٹ والے شامل ہیں۔
ویری ناگ کے نہ صرف مقامی، بلکہ بھارت - پاکستان تعلقات کے حوالے سے بھی یہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیوںکہ یہ چشمہ دریائے جہلم کا ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس چشمہ کا بالواسطہ طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کے ساتھ تعلق ہے۔ واضح رہے کہ 19 ستمبر 1960 کو کراچی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان آبی وسائل کو لے کر انڈس ٹریٹی واٹر کے نام سے ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں پاکستان کو تین دریاؤں، جہلم، سندھ اور چناب پر حق دیا گیا، جب کہ اس معاہدے کے تحت بھارت کو ستلج، بیاس اور راوی پر حقوق حاصل ہوئے۔
مورخین کے مطابق ویری ناگ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ’’ویری‘‘ اس علاقہ کا پرانا نام تھا اور ’’ناگ‘‘ کشمیری زبان میں قدرتی چشمے کو کہتے ہیں۔ اس لیے تاریخی چشمہ کی موجودگی سے اس پورے علاقے کو صدیوں سے ویری ناگ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ضلع صدر مقام اننت ناگ سے تقریباً 32 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔
شاعر نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ ’’یوں ہی کٹ جائے گا سفر ساتھ چلنے سے۔‘‘ سڑک اگرچہ کہ انتہا کی بری تھی مگر پھر بھی ہم سخت گرمی میں جلال پور شریف کے قریب پہنچ ہی گئے مگر شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی سلمان نے بائیک دائیں جانب موڑ دی۔ یعنی بقول شخصے ’’اس وقت مجھے بھٹکا دینا، جب سامنے منزل آ جائے۔‘‘
اب کی بار جہاں بریک لگا یہ ایک یونانی طرزِتعمیر کی عمارت تھی جس کے دونوں دروازوں پر تالے پڑے تھے۔ دروازے تو بلند نہ تھے مگر دروازوں پر لگی جھاڑیاں بہت بلند تھیں۔ سلمان ایک جنونی آدمی ہے۔ اس بات کا ادراک مجھے تک ہوا جب وہ عمارت کے عقب میں بنے کھیت میں اتر گیا اور وہاں سے دیوار پھلانگ کر اندر چلا گیا جب کہ میں باہر ہی گرمی میں سڑتا رہا۔ سلمان جب تصاویر بناکر باہر آیا تو اس کے جسم اور جوتوں میں اچھے خاصے کانٹے چبھے ہوئے تھے۔
یہ عمارت الیگزینڈر مونومنٹ کہلاتی ہے اور آپ کی جتنی بھی تصاویر دیکھ رہے ہیں، ان سب کے لیے سلمان اچھی خاصی قربانی دی تھی۔ پہلے جان سکندرِاعظم یعنی الیگزینڈر دی گریٹ کے بارے کچھ جان لیتے ہیں اور پھر اس الیگزینڈر مونومنٹ کی بات کریں گے۔ سکندرِ اعظم کے بارے میں بہت سارے لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔
اگرچہ اسے مرے ہوئے 2300 سال گزر چکے لیکن وہ آج بھی ایک زندہ افسانہ ہے۔ ہر روز اس پر ایک نئی تحقیق ہوتی ہے اور ہر روز ایک نئی بات اس کے بارے میں سامنے آتی ہے۔ سکندرِاعظم کی زندگی میں تین خوب صورت تین عورتیں آئیں۔ ان میں سے ایک Parysatisp تھی جو اس کے بدترین دشمن کی بیوی تھی جسے سکندرِاعظم نے ایک معرکے میں شکست دی اور اس کے بعد ایک سلطنت اس کے حصے میں آئی۔
یہ بھی یاد رہے کہParysatisp کو سکندرِاعظم کی وفات کے بعد اس کی پہلی بیوی نے قتل کروا دیا تھا۔ سکندرِاعظم کی ایک اور بیوی تھی جس کا نام تھا Stateira جسے برسیسBarsine بھی کہا جاتا ہے اور یہ فارس کے اسی Darius کی بیٹی تھی جس کی سلطنت کو برباد کرنے کے لیے وہ میسیڈونیا سے چلا تھا۔ بائیس صوبوں کی سلطنت کو اس نے تباہ و برباد کردیا۔ اس کی زندگی میں تیسری اہم ترین عورتRoxanna تھی جسے آپ آسانی کے لیے رخسانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
وہSogdian کے حکم راں کی بیٹی تھی۔ سکندرِاعظم کی جو بہت پُرخطر مہمات تھیں ان میں سے ایک Sogdian کو فتح کرنا تھا۔Sogdian کا قلعہ ایک پہاڑی پر بنا ہوا تھا اور کہتے ہیں کہ اس پہاڑی پر جانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔ جب الیگزینڈر وہاں پہنچا تو اس نے اس قلعے کے حکم راں کو یہ پیغام دیا کہ میرے سامنے ہتھیار ڈال لو۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے قلعے تک پہنچ جاؤ، ہم ہتھیار ڈال دیں لیکن یہ ذہن میں رکھنا کہ ہمارے قلعہ تک پہنچنے کے لیے پروں والے آدمی چاہییں یعنی اڑ کر آؤ گے تو اس قلعے کی فصیل تک پہنچ پاؤ گے ورنہ نہیں پہنچ پاؤ گے۔ لہذا الیگزینڈر نے رضاکارانہ طور پر، کچھ لوگ ان کی تعداد 100 بتاتے ہیں اور کچھ 300 بتاتے ہیں، ان لوگوں کو تیار کیا۔ سکندرِاعظم نے کہا کہ آپ باقاعدہ لکڑی کے پَر بنائیں اور ان کی مدد سے اڑ کر وہاں پہنچیں۔
کچھ دن کے بعد ایک صبح جب قلعہ والے اٹھے تو انہوں نے فصیل پر الیگزینڈر کے سپاہیوں کو دیکھا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس پہاڑی کی جو بالکل عمودی سطح ہے اسے کس طرح عبور کیا گیا تھا۔Sogdian آج کل کرغزستان میں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ افغانستان کا علاقہ تھا۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ الیگزینڈر کے بارے میں تحقیق کم اور مفروضے زیادہ ہیں۔ رخسانہ اسیSogdian کے حکم راں کی بیٹی تھی۔ اسی لیے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ افغان تھی، کچھ لوگ کہتے ہیں وہ پٹھان تھی اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ازبک دوشیزہ تھی۔
مجموعی طور پر الیگزینڈر کے تین عشق تھے لیکن اس کا ایک چوتھا عشق بھی تھا اور وہ چوتھا عشق اس کا ایک گھوڑا تھا جس کا نام اس نے خود بیوسیفالس رکھا تھا۔ کہتے ہیں کہ بیوسیفالس اور الیگزینڈر کی ملاقات تب ہوئی جب الیگزینڈر 12، 13 سال کا تھا۔ ایک گھوڑوں کا تاجر تھا جو سکندرِاعظم کے باپ فلپ کو گھوڑا بیچنے کے لیے آیا تھا۔ گھوڑے کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ گھوڑے کو بیچنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک گھوڑے کو کوئی رام نہیں کر سکا تھا یعنی کوئی اس پر سوار نہیں ہوسکا تھا۔ تاجر نے فلپ کو پیشکش کی کہ جو شخص بھی اس پر سوار ہوجائے گا، میں اسے یہ گھوڑا بیچ دوں گا۔
فلپ نے اپنے بہت ماہر گھڑسوار یا گھوڑوں کو قابو کرنے والے، سب کو بلایا مگر فلپ سمیت گھوڑا کسی کے قابو میں نہیں آیا۔ الیگزینڈر بارہ تیرہ سال کی عمر کا تھا، سامنے آیا اور کہا کہ میں اس گھوڑے پر سواری کروں گا۔ اس نے بیوسیفالس کو کھڑا کیا اور اسے رام کرلیا۔ حکایت ہے کہ وہ بیوسیفالس کے پاس گیا، اس نے اس کے کان میں کچھ کہا اور بیوسیفالس نے سر جھکالیا۔ اس کے بعد الیگزینڈر نے اس کی زین اتاری اور اس کی ننگی پشت پر سوار ہو گیا۔ جو طریقہ اس نے استعمال کیا وہ طریقہ یہ تھا کہ اس نے بیوسیفالس کا رخ سورج کی طرف کردیا یعنی اسے اپنا سایہ دکھائی نہیں دیتا تھا کیوںکہ الیگزینڈر اتنی چھوٹی سی عمر میں یہ سمجھ گیا تھا کہ یہ اپنے سائے سے ڈرتا ہے۔
رخ سورج کی طرف کرنے سے اس کا سایہ اس کی نظروں سے غائب ہوگیا۔ گھوڑے نے نہ صرف گردن جھکائی بلکہ اس کے سامنے رام ہوگیا۔ گھوڑا اپنی اگلی ٹانگوں کے بل نیچے جھک گیا تاکہ ننھا الیگزینڈر اس پر سوار ہو سکے۔ الیگزینڈر اس پر سوار ہوا اور اسے اس حد تک دوڑایا کہ وہ بے دم ہوگیا۔ فلپ نے گھوڑا ادائی کے بعد الیگزینڈر کے حوالے کر دیا، جس نے بعد میں اس کا نام بیوسیفالس رکھا۔
بیوسیفالس اور الیگزینڈر میں وہی رشتہ رہا جو دوستوں میں ہوتا ہے۔ 355 قبل مسیح سے لے کر 326 قبل مسیح تک وہ الیگزینڈر کے ساتھ رہا یعنی 355 میں بیوسیفالس پیدا ہوا تھا اور 326 قبل مسیح میں اس کا انتقال ہوا۔ 344 قبل مسیح میں جب خود اس کی عمر 10 سال تھی یعنی گھوڑے کی عمر 10 سال تھی تب وہ الیگزینڈر کے پاس آیا اور اس کے بعد وہ مرتے دم تک یعنی جب تک بیوسیفالس مر نہیں گیا تب تک وہ اس کے پاس رہا۔
تصاویر میں نظر آنے والی عمارت الیگزینڈر مونومنٹ کہلاتی ہے۔ یہ جگہ جلال پور میں ہے۔ اسے اب جلال پور شریف کہا جاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دریائے جہلم کے کنارے ایک زمانے میں راجا پورس کے ساتھ الیگزینڈر کی جنگ ہوئی تھی۔ یہ دریائے جہلم کا دایاں کنارہ یا شمالی کنارہ ہے۔ یہیں بیوسیفالس کا انتقال ہوا تھا۔ جب الیگزینڈر نے وہ جنگ جیتی تو اس نے بیوسیفالس کی یاد میں ایک شہر بسایا۔ جب الیگزینڈر نے اس گھوڑے کو مسخر کرلیا، رام کرلیا اور اس پر سوار ہوگیا تو کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ فلپ نے کہا کہ لڑکے اپنی حیثیت کے مطابق کوئی ریاست یا بادشاہت تلاش کرو کیوںکہ میسیڈونیا تمہاری حیثیت سے بہت چھوٹی ریاست ہے۔
لہٰذا تم یہاں سے نکلو اور کوئی ایسی جگہ ڈھونڈو جہاں تم جیسا شخص حکومت کرسکے یعنی ایک بڑی بادشاہت بناؤ تو الیگزینڈر اپنے باپ کے خواب کی تعبیر کے لیے نکلا اور اس زمانے کی معلوم دنیا کو فتح کیا اور الیگزینڈر دی گریٹ یا فاتح اعظم کہلایا۔ اس جگہ اس نے دو مہینے قیام کیا۔ یہ جگہ اس کے کیمپ سے تقریباً جہاں اس نے اپنی فوجوں کا کیمپ لگایا تھا 27 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہیں سے اس نے دریا عبور کیا تھا۔ دریا کی پار جو جگہ تھی وہ اس نے فتح کی خوشی میں آباد کی یعنی شہر آباد کیا اور یہ جگہ بیوسیفالس کے نام پر آباد کی۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ بیوسیفالس نام پر جو شہر آباد کیا گیا وہ پھالیہ تھا لیکن آج تک اس کا صحیح جگہ اور مقام نہیں پتا چل سکا کہ وہ جگہ کون سی تھی۔
ایک اندازہ ہے کہ وہ جگہ یہ تھی جہاں یہ مونومنٹ بنا ہوا ہے۔ وہ شہر یہیں آباد کیا گیا تھا۔ جلال پور شہر یہاں سے بالکل نزدیک ہے۔ مشکل سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ وہ شہر جو بیوسیفالس کی یاد میں آباد کیا گیا تھا اور جس کا نام پر بیوسیفالس رکھا گیا تھا وہ یہی جلال پور تھا۔ پرانا نام کچھ اور تھا۔ ملک درویش خان جنجوا جو اس کے حکم راں تھے، انہوں نے اس کا نام بدل کر جلال پور رکھا کیوں کہ مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے نہ صرف اس قصبے کا دورہ کیا بلکہ یہاں کچھ دن قیام بھی کیا لہٰذا اسی اعزاز میں اس کا نام بدل کر جلال پور رکھ دیا گیا۔ جلال پور شریف اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ سید غلام حیدر شاہ چشتی سلسلے کے بہت بڑے بزرگ، ان کی مناسبت سے ان کا مزار بھی جلال پور میں موجود ہے اور اسی وجہ سے اس کے نام کے ساتھ شریف کا لاحقہ لگایا جاتا ہے۔
یہ عمارت 1997 میں بننی شروع ہوئی تھی۔ اس عمارت کا نام الیگزینڈر مونومنٹ ہے۔ اس کی اعزازی دیوار کا سنگ بنیاد عزت ماب جناب سفیر یونان کے دست مبارک سے اتوار 18 اکتوبر 1998 کو رکھا گیا تھا۔ عمارت کے سولہ ستون ہیں اور سولہ ہی محرابیں بنی ہوئی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عمارت کو تالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس کی دیواروں پر الیگزینڈر کے مختلف محاذوں کا ذکر ہے۔
اسے اس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا کہ لوگ آئیں اور الیگزینڈر کے بارے میں تحقیق کریں اور کم از کم اس بات کا پتا چلا سکیں کہ الیگزنڈر نے وہ جو دو شہر آباد کیے تھے، ایک بیوسیفالس کی یاد میں اور ایک اپنی فتح کی خوشی میں۔ ان شہروں کا اصل مقام کہاں تھا۔ وہ اصل مقام آج تک نہیں مل سکا۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان ہمارے ایٹمی سائنس داں جن کے کریڈٹ پر شہاب الدین غوری کا مزار بھی جاتا ہے اور یہ جو یادگار بنائی گئی تھی، اس کا کریڈٹ بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جاتا ہے کہ ان کی کوششوں سے یونانی سفیر نے رضامندی ظاہر کی اور حکومتِ یونان اور حکومت پاکستان کے تعاون سے اس عمارت کو بنایا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اس پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔
نیچے ایک ہال بنا ہوا ہے جس کے فرش پر ایک نقشہ بنا ہوا ہے۔ اس نقشے کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ الیگزینڈر نے جو دنیا فتح کرنے کے لیے نکلا تھا، وہ کہاں کہاں سے ہوتا ہوا گزرا۔ اس نے کون کون سے علاقے فتح کیے اور کہاں کہاں شہر آباد کیے۔ 70 شہر اس نے آباد کیے تھے۔ اس عمارت کے دو دروازے ہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی
دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی کے بعد بہاولپور کی دریائی تحصیلوں میں پانی کی سطح کم ہونے لگی مگر اب بھی کئی کئی فٹ پانی موجود ہے ۔
اوچ شریف، تحصیل خیرپور ٹامیوالی، تحصیل صدر بہاولپور میں درجنوں بستیاں بستور زیر آب ہیں۔
قادر آباد کے علاقے میں سرکاری اسکول کی عمارت میں پانچ فٹ پانی بھرا ہوا ہے۔ متاثرہ علاقوں سے سینکڑوں افراد ریلیف کیمپ منتقل کردیے گئے۔
سیلاب میں پھنسے لوگوں کو کشتیوں کے ذریعےکھانے کی فراہمی کی جارہی ہے۔