مصنوعی قحط کی سفاک ٹیکنالوجی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
فورنزک آرکیٹیکچر نامی تحقیقی تنظیم اکتوبر دو ہزار تئیس سے غزہ میں اسرائیلی طرزِ عمل کا عمیق مطالعہ کر رہی ہے۔اس تنظیم کی تازہ ترین رپورٹ اٹھارہ مارچ تا یکم اگست کی مدت کا احاطہ کرتی ہے۔اٹھارہ مارچ کو اسرائیل نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی سمجھوتہ توڑ کے غزہ میں انسانی امداد کا داخلہ مکمل طور پر روک دیا۔اس کے بعد قحط کی جو فضا بنی وہ فورنزک آرکیٹیکچر کی تحقیق کے مطابق ایک منصوبہ بند حکمتِ عملی ہے۔امریکا کلی اور دیگر مغربی ممالک جزوی طور پر قول و فعل کے تضاد کے ساتھ اس حکمتِ عملی کے ساجھے دار ہیں۔
اسرائیل کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ غزہ کو خالی کرانے کا منصوبہ آرام سے مکمل کرے۔صدر ٹرمپ کے مشیرِ خاص سٹیو وٹکوف نے اشارتاً کہا ہے کہ غزہ میں دسمبر تک حالات معمول پر آ جائیں گے۔اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کے پاس ابھی کم ازکم ڈھائی مہینے ہیں کہ وہ غزہ کے تمام رہائشی مار یا نکال کے نسلی صفائی کا مشترکہ ٹرمپ نیتن یاہو منصوبہ مکمل کر لے۔
فورنزک آرکیٹیکچر کی تازہ رپورٹ میں مصنوعی قحط کے پیٹرن کو جانچنے کے لیے جیو لوکیشنز ، مصدقہ وڈیوز اور سیٹلائیٹ تصاویر سے مدد لی گئی۔اس مواد سے ثابت ہو رہا ہے کہ کس طرح غذائی امداد انسانوں کو زندہ رکھنے کے بجائے موت کا پھندہ بنا دی گئی ہے۔امداد کی ترسیل و تقسیم تجربہ کار بین الاقوامی فلاحی تنظیموں کے بجائے اسرائیلی فوج کے مکمل کنٹرول میں ہے۔
اس حکمتِ عملی پر اس سال کے شروع سے مرحلہ وار عمل ہو رہا ہے۔جنوری میں فلسطینیوں کی دیکھ بھال کرنے والی اقوامِ متحدہ کی ایجنسی انرا کو ایک کالعدم دھشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے امدادی مراکز اور گوداموں کو تباہ کیا گیا۔اس کے دو ماہ بعد اسرائیل نے غذائی امداد مکمل طور پر روک دی۔
اگلے تین ماہ میں جب بین الاقوامی رائے عامہ اسرائیل کی اس غیرقانونی حرکت کے خلاف ہونی شروع ہوئی تو امریکا کی مدد سے ایک امدادی ادارہ غزہ ہومینیٹیرین فاؤنڈیشن ( جی ایچ ایف ) ایجاد کیا گیا اور امداد کی تقسیم کے لیے چار مراکز یا ’’ چوہے دان ‘‘ قائم کیے گئے جو سب کے سب ان زونز میں ہیں۔ان پر مکمل فوجی کنٹرول ہے اور ان وار زونز میں کسی سویلین کا قدم رکھنا موت کی وادی میں پھنسنے جیسا ہے۔
سات اکتوبر دو ہزار تئیس سے پہلے غزہ کی بائیس لاکھ آبادی کے لیے بین الاقوامی امدادی اداروں نے چار سو امدادی مرکز قائم کر رکھے تھے۔ ان مراکز کو کسی مسلح تحفظ کی ضرورت نہیں تھی۔مگر جی ایچ ایف کے صرف چار مراکز کی حفاظت جدید ترین فوجی گریڈ کے ہتھیاروں سے مسلح پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کے حوالے کی گئی ہے۔انھیں کم ازکم گیارہ سو ڈالر روزانہ دھاڑی ملتی ہے۔
چاروں امدای مراکز جنوبی غزہ میں بنائے گئے ہیں تاکہ شمالی غزہ کے رہائشیوں کو جنوب میں منتقل ہونے کی ترغیب دی جا سکے۔ان امدادی مراکز کے کھلنے اور بند ہونے کا کوئی نظام الاوقات نہیں۔اکثر ایک گھنٹے پہلے ہی کھلنے کا اعلان ہوتا ہے اور کبھی کبھی امداد کی تقسیم شروع ہونے کے دس منٹ بعد بند کر دیا جاتا ہے۔چنانچہ اکثر بے حال خاندان امداد کی آس میں قریبی علاقوں میں ڈیرہ ڈالنے پر مجبور ہیں۔
انتہائی ہجوم میں سے روزانہ جن چند سو خوش قسمتوں کو ان امدادی مراکز میں داخلے کا موقع مل جاتا ہے وہ بھول بھلیاں انداز کے بنے اونچی باڑھ والے تنگ کاریڈورز میں مویشیوں کی طرح ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔مقصد بھی یہی ہے کہ فلسطینیوں کی عزتِ نفس کو مکمل طور پر کچل کے انھیں باور کرایا جائے کہ وہ انسان نہیں بلکہ دو ٹانگوں پر چلنے والے مویشی ہیں۔
ان تقسیمی مراکز میں سائے ، پینے کے پانی ، بیت الخلا یا ایمرجنسی طبی مدد کی کوئی سہولت نہیں۔خوراک کے ڈبے میں خشک راشن ہوتا ہے۔ سبزی ، گوشت ، پھل یا چھوٹے بچوں کے لیے خشک دودھ کا سوال ہی نہیں۔کھانا پکانے کے لیے پانی کی بوتل ، کوکنگ آئیل وغیرہ تو بھول ہی جائیں۔
مرکز کی حفاظت پر مامور نجی محافظ اور آس پاس منڈلاتے اسرائیلی فوجی بھگدڑ کنٹرول کرنے کے لیے لاٹھی یا آنسو گیس وغیرہ کے استعمال پر یقین نہیں رکھتے بلکہ سیدھی گولیاں چلاتے ہیں اور امداد کے لیے آنے والے زخمی پتنگوں کی طرح ایک دوسرے پر گرتے ہیں یا بھاگتے ہجوم کے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر فلسطینی کسی بھی امدادی مرکز تک پہنچنے کے لیے ڈھائی سے دس کیلومیٹر کا فاصلہ کہ جس کا اوسط چھ کیلومیٹر بنتا ہے طے کرتا ہے۔گویا آنے جانے کا مطلب اوسطاً بارہ کیلومیٹر کا سفر ہے۔بہت سے لوگ یہاں تک زندہ پہنچ تو جاتے ہیں مگر لاشوں یا زخمیوں کی صورت میں واپس لے جائے جاتے ہیں۔
کوئی دن نہیں جاتا جب خونی ڈرامہ نہ ہوتا ہو۔بھگدڑ نہ بھی ہو تو فائرنگ کر کے اس کا سماں پیدا کیا جاتا ہے اور پھر انسانوں کا تاک تاک کے شکار شروع ہو جاتا ہے۔ستائیس مئی سے یکم اگست تک ان امدادی مراکز کے آس پاس ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ لاشیں گر چکی ہیں۔صرف جولائی میں امداد کے متلاشی سات سو تیس انسان گولیوں کا نشانہ بن گئے۔
فورنزک رپورٹ کے مطابق اٹھارہ مارچ تا یکم اگست غزہ کے لاکھوں لوگوں کو اٹھاون بار ایک جگہ سے دوسری جگہ جبری نقل مکانی کرنا پڑی۔ امدادی مراکز پر یا ان کے قریب خوراک کی تلاش میں آنے والوں پر چونسٹھ حملے ہوئے۔سینتیس بار امدادی رسد کو اسرائیلی حمائیت یافتہ مسلح مقامی گروہوں نے لوٹا۔
ویسے غزہ کے لوگ عملاً دو ہزار سات سے ہی اسرائیلی ناکہ بندی کے سبب نیم جاں ہیں۔اسرائیل سات اکتوبر دو ہزار تئیس سے پہلے بھی غزہ میں بس اتنی خوراک جانے کی اجازت دیتا تھا جو فی کس انسانی جسم کی کم ازکم غذائی ضرورت پوری کر سکے۔حتی کہ اسرائیل سے آنے والی بجلی کی بھی سخت راشننگ تھی۔ چنانچہ دو ہزار اٹھارہ میں ہی اقوامِ متحدہ نے خبردار کر دیا تھا کہ غزہ میں نارمل زندگی روز بروز ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔
اسرائیل نے اس خطے کو بھوک کے عفریت کے جبڑوں میں دینے کے لیے گزشتہ بائیس ماہ میں ایک ایک کھیت ، باغ اور درخت تباہ کر دیا یا بلڈوزر سے کچل دیا۔ماہی گیری پر بھی پابندی ہے تاکہ مقامی لوگ بھوک کا حصار سمندری غذا کے ذریعے نہ توڑ سکیں۔
حالانکہ خوراک سے لدے سیکڑوں ٹرک سرحد پار مصری علاقے میں موجود ہیں۔انھیں اندر آنے کی اجازت دینے کے بجائے ایک سے ایک ٹوپی ڈرامہ جاری ہے۔امریکی بحریہ نے گزشتہ برس سمندر کے راستے امداد پہنچانے کے لیے لاکھوں ڈالر کے صرفے سے ایک تیرتی ہوئی جیٹی بنائی مگر سمندر کی لہریں اسے بہا لے گئیں۔
کئی ممالک فضا سے امداد گرانے کا ناٹک کرتے رہتے ہیں۔مگر نوے فیصد رسد یا تو فوجی کارروائی کے زونز میں گرتی ہے یا پھر سمندر میں۔کبھی کبھی انسان بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔اب تک اس ڈرامے کے سبب کم ازکم چار ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور سیکڑوں بھوکے لوگ اس امداد کے تعاقب اور چھینا جھپٹی میں زخمی ہو چکے ہیں۔مگر یہ فضائی ڈرامہ بھی بھوکی آبادی کے ایک فیصد کا پیٹ بھی نہیں بھر پایا۔
بالاخر خدا خدا کر کے اقوامِ متحدہ نے بائیس اگست کو باضابطہ اعلان کیا کہ غزہ مکمل قحط کی لپیٹ میں ہے۔ستمبر کے آخر تک یہ قحط پوری پٹی کو لپیٹ میں لے لے گا۔یعنی حالات جوں کے توں رہے تو ستمبر کے بعد سے روزانہ اموات کی تعداد سیکڑوں اور پھر ہزاروں میں پہنچے گی۔مرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بچوں اور بوڑھوں کی ہو گی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امدادی مراکز امداد کی جاتے ہیں جاتا ہے غزہ کے
پڑھیں:
تعلیم اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے ہی امت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتی ہے، حافظ نعیم
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کر کے ہی امت اپنا کھویا ہوا عظیم مقام دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق حافظ نعیم الرحمان کی ملائیشین اسلامی پارٹی پاس” کی دعوت پر موتمر کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔
ملائیشیا کے شہر الورسیتار میں گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ اسلامی ممالک کے حکمران غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کے درمیان معاشی و تجارتی تعاون کے فروغ اور نوجوانوں کے وفود کے تبادلے کی ضرورت ہے۔ حافظ نعیم نے کہا کہ تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کیے بغیر امت اپنا کھویا ہوا عظیم ماضی واپس حاصل نہیں کر سکتی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کے حکمران وسائل کا رخ اپنے عوام کی جانب موڑیں۔
کانفر نس میں دنیا بھر کی مختلف اسلامی تحریکوں کے قائدین، علماء کرام اور پالیسی سازوں نے بھی شرکت کی۔
اسلامی تحریکوں کو اتحاد امت، امن کے فروغ اور عوام کی ترقی کے لیے جدوجہد تیز کرنی چاہیے۔ امیر جماعت اسلامی ۔