اسلام آباد:

اگست 2025 میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 3 فیصد پر آگئی، جوگزشتہ دو ماہ میں سب سے کم سطح ہے، پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق اس کمی کی بنیادی وجہ دیہی اور شہری علاقوں میں خراب ہونیوالی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں تقریباً 25 فیصد کمی ہے۔

وزارتِ خزانہ کی جانب سے اگست کیلیے مہنگائی کی پیشگوئی 4 سے 5 فیصد تھی، جس کے برعکس اصل شرح کہیں کم رہی، تاہم وزارت نے خبردارکیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ زرعی علاقوں میں فصلوں کو نقصان پہنچنے کے باعث خوراک کی قیمتوں میں دوبارہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

مہنگائی کے اعداد و شمار ایسے وقت پر جاری کیے گئے ہیں جب اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی اگلی میٹنگ دو ہفتے بعد متوقع ہے، جس میں آئندہ مہینوں کیلیے پالیسی ریٹ مقررکیاجائے گا، اس وقت شرح سود 11 فیصد ہے، جو کہ موجودہ مہنگائی کی شرح سے 7 فیصد زیادہ ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ بلند شرح سودکا فائدہ صرف کمرشل بینکوں کو ہو رہا ہے،جبکہ حکومت کو بجٹ کا نصف حصہ سودکی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال، سیلاب کی تباہ کاریوں اورکمزور ٹیکس وصولیوں کے پیش نظر اسٹیٹ بینک کو شرح سودسنگل ڈیجٹ  تک کم کرنا چاہیے، اگست میں ایف بی آر نے 1.

66 کھرب روپے جمع کیے، جو ہدف سے 40 ارب روپے کم ہے، بجلی کے بلوں کے ذریعے کم ٹیکس وصولی اس بات کی علامت ہے کہ صنعت اور گھریلو صارفین قومی گرڈ سے ہٹ کر دیگر ذرائع پر منتقل ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امین لودھی نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ 7 فیصد سالانہ مہنگائی کا ہدف صرف اسی صورت حاصل کیاجا سکتا ہے، جب شرح سود موجودہ سطح پر برقراررکھی جائے، شرح سود میں کمی کی گئی تو مہنگائی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

مرکزی بینک نے تجزیے میں گیس کی قیمتوں میں جولائی اور آئندہ فروری میں ممکنہ اضافے کو بھی شامل کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں بنیادی مہنگائی 6.9 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 7.8 فیصد تک آگئی ہے، شہری علاقوں میں مہنگائی 3.4 فیصد اور دیہی 2.4 فیصد رہی،جبکہ خوراک کی مہنگائی شہری علاقوں میں 2.2 فیصد اور دیہی علاقوں میں 1.5 فیصد ریکارڈکی گئی۔ 

تاہم چینی کی قیمتوں میں اب بھی 26 فیصد سالانہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے،جس کی  بڑی وجہ حکومت کی جانب سے 7 لاکھ 65 ہزار میٹرک ٹن چینی کی برآمدکی اجازت دیناہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شہری علاقوں میں کی قیمتوں میں

پڑھیں:

پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: پاکستان میں ذہنی امراض اور نفسیاتی دباؤ میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران معاشرتی اور قومی سطح پر سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہونے والی 26ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے ذہنی امراض میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین میں ذہنی دباؤ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات گھریلو تنازعات، سماجی دباؤ اور معاشی مشکلات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں حالیہ برسوں کے دوران قدرتی آفات، دہشت گردی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔

پروفیسر واجد علی اخوندزادہ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 10 فیصد افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں آئس اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی ماہرین موجود ہیں، جو عالمی معیار کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 10 ہزار افراد کے لیے کم از کم ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد مریضوں پر ایک ماہر دستیاب ہے۔

ڈاکٹر افضال جاوید اور دیگر ماہرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں معاشی ناہمواری، بے روزگاری، موسمیاتی تبدیلیاں اور سرحدی کشیدگی عوام کے ذہنی سکون کو تباہ کر رہی ہیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں خودکشیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔

ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذہنی صحت کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں نفسیاتی مشاورت مراکز قائم کیے جائیں اور عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ معاشرہ اس بڑھتے ہوئے نفسیاتی بحران سے محفوظ رہ سکے۔

متعلقہ مضامین

  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • شہرکے مختلف علاقوں میں پانی کی قلت کے باعث شہری دورسے پانی بھربے پرمجبورہے
  • پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں
  • مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
  • اسرائیلی پابندیوں سے فلسطینیوں کو خوراک و پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، انروا
  • پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگیا، حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈال دیا
  • تنزانیہ میں انتخابی دھاندلی کے الزامات، 3 دن میں 700 افراد کی ہلاکت کا خدشہ
  • سیلاب سے متاثرہ 1 لاکھ 89 ہزار افراد کے بینک اکاؤنٹس کھل چکے ہیں: عرفان علی کاٹھیا
  • بالی ووڈ شہنشاہ امیتابھ بچن پر حملے کا خدشہ، بھارت میں سیکیورٹی الرٹ