WE News:
2025-11-02@17:46:19 GMT

کیا اب ایکسیڈنٹ شدہ گاڑی امپورٹ نہیں کی جا سکتی؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT

کیا اب ایکسیڈنٹ شدہ گاڑی امپورٹ نہیں کی جا سکتی؟

پاکستان میں مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیوں کی قیمتیں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ بیشتر لوگ بیرونِ ملک، خصوصاً جاپان سے گاڑیاں امپورٹ کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں گاڑیوں کی قیمت نسبتاً کم ہے۔

جاپان میں گاڑیاں عام طور پر نیلامی کے ذریعے خریدی جاتی ہیں اور اکثر ایسی گاڑیاں لی جاتی ہیں جو ایکسیڈنٹ کا شکار ہوں، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ گاڑی انتہائی سستی مل جاتی ہے اور پاکستان پہنچنے پر اسے مرمت کرکے مہنگے داموں فروخت کیا جا سکتا ہے۔

حکومت نے 3 سال سے پرانی گاڑیوں کی امپورٹ پر پابندی عائد کر رکھی ہے، تاہم رواں مالی سال کے بجٹ میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ 5 اور 10 سال تک پرانی گاڑیوں پر اضافی ڈیوٹی عائد کرتے ہوئے امپورٹ کی اجازت دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: 5 اور 10 سال پرانی گاڑی کب سے امپورٹ کی جا سکتی ہے؟

اب حکومت نے آئی ایم ایف کی مشاورت سے 5 سال پرانی گاڑیوں کی امپورٹ پر 40 فیصد اضافی ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کیا ہے، البتہ شرط یہ رکھی گئی ہے کہ گاڑی حادثے کا شکار، کسی فنی خرابی والی یا دھواں چھوڑنے والی نہ ہو۔

اس فیصلے کا اطلاق آئندہ مالی سال یعنی جولائی 2026 کے بعد امپورٹ کی جانے والی گاڑیوں پر ہوگا، جبکہ 10 سال پرانی گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت دوسرے مرحلے میں دی جائے گی۔

حکومتی فیصلے کے بعد 4 یا 5 سال پرانی گاڑی تو امپورٹ کی جا سکے گی، مگر ایکسیڈنٹ، فنی خرابی اور 40 فیصد اضافی ڈیوٹی کی شرائط کے باعث امکان ہے کہ پرانی گاڑیوں کی امپورٹ کم ہی رہے گی۔

مزید پڑھیں: امپورٹ ڈیوٹی میں تخفیف کے بعد پاکستان میں لگژری گاڑیوں کی قیمت میں بڑی کمی

جاپان سے صحیح یا مکمل فٹ گاڑی مہنگی ملے گی اور پھر 40 فیصد اضافی ڈیوٹی دینے کے بعد اس کی قیمت 2 یا 3 سال پرانی گاڑی سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔

وزارتِ تجارت کی دستاویز کے مطابق، اس وقت پاکستان میں امپورٹ کی جانے والی گاڑیوں پر 50 سے 156 فیصد تک ڈیوٹی عائد ہیں، پرانی گاڑیوں کی امپورٹ کی صورت میں 90 سے 196 فیصد تک ڈیوٹی وصول کی جائے گی، جس سے گاڑی کی قیمت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

اس وقت امپورٹ کی جانے والی گاڑیوں پر مختلف شرحوں کے مطابق ڈیوٹیاں عائد ہیں، مثال کے طور پر 850 سی سی تک کی گاڑی پر 50 فیصد ڈیوٹی لی جاتی ہے، ایک ہزار سی سی تک کی گاڑی پر یہ شرح 71 فیصد ہے، 1500 سی سی تک کی گاڑی پر 76 فیصد، 1800 سی سی تک کی گاڑی پر 91 فیصد، جبکہ 2500 سی سی یا اس سے بڑی گاڑی پر سب سے زیادہ یعنی 156 فیصد ڈیوٹی عائد کی جاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی ایم ایف اضافی ڈیوٹی امپورٹ ایکسیڈنٹ جاپان ڈیوٹی نیلامی وزارت تجارت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف اضافی ڈیوٹی امپورٹ ایکسیڈنٹ جاپان ڈیوٹی نیلامی پرانی گاڑیوں کی امپورٹ کی جانے والی گاڑیوں سی سی تک کی گاڑی پر سال پرانی گاڑی امپورٹ کی جا اضافی ڈیوٹی گاڑیوں پر کی قیمت کے بعد

پڑھیں:

بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟

بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس ختم کردی گئی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیرِ صدارت جمعرات کے روز سینٹرل پولیس آفس کوئٹہ میں اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبے میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے اور پولیس نظام کو مزید فعال اور انسدادِ دہشتگردی کے لیے مؤثر بنانے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، آئی جی پولیس محمد طاہر خان، سیکریٹری خزانہ عمران زرکون، پرنسپل سیکریٹری بابر خان اور اعلیٰ پولیس حکام شریک تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بولان میں لیویز کا آپریشن، فائرنگ کے تبادلے میں اہلکار شہید، ڈاکو زخمی

آئی جی پولیس نے اجلاس کو بلوچستان پولیس کو درپیش چیلنجز، امن و امان کی صورتحال، جرائم کے رجحانات اور آپریشنل ضروریات پر بریفنگ دی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لیویز فورس کے پولیس میں انضمام کے عمل کو منظم اور تیز کیا جائے گا، جبکہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے درمیان رابطہ اور انٹیلی جنس بنیاد پر کارروائیوں کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی کرائم برانچ اور لیگل برانچ کے کردار کو بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تحقیقات اور عدالتی کارروائیوں میں بہتری لائی جا سکے۔

وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صوبے کے تمام ’بی ایریا‘ کو مرحلہ وار ’اے ایریا‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کے بعد پولیس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں 10 ارب روپے کی مالی معاونت کی منظوری دی ہے جو پولیس کی استعداد کار، تربیت، ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس نیٹ ورک اور خصوصی فورسز کی مضبوطی پر خرچ کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا لیویز فورس میں انسداد دہشتگردی ونگ بننے جارہا ہے؟

وزیرِ اعلیٰ کے مطابق پولیس کی فضائی نگرانی، ڈرون سسٹمز اور نائٹ آپریشن صلاحیت بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ حکومتی سطح پر تعاون کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ لیویز اہلکاروں کو پولیس میں منتقلی کے ساتھ گولڈن ہینڈ شیک اور نئی بھرتیوں کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق صوبے میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے تاکہ دہشتگردی کے خاتمے تک علاقائی امن بحال رہ سکے۔

بلوچستان کے سینئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے لیویز کے پولیس میں انضمام کو صوبے کے لیے ایک تاریخی اور حساس تبدیلی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کے تناظر میں تفصیلی خدشات، سوالات اور راہِ حل پیش کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟

ان کے مطابق لیویز کے جوان ابتدائی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کی سروس اسٹرکچر، تنخواہیں، پروموشن پالیسی، اور ریٹائرمنٹ فوائد کیا رہیں گے۔ یہ عدم وضوح فورس کی کارکردگی اور مورال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس غیر یقینی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو فوراً مفصل پالیسی دستاویز جاری کرنی چاہیے جس میں سروس ریکارڈ، پروموشن پاتھ، اور پے اسکیل میں واضح فرق نہیں آنے دیا جائے۔

ایک بار جب لیویز اہلکار شہری انتظامی ڈھانچے میں آئیں گے تو قبائلی یا دیہی اندازِ پولیسنگ سے شہری پولیسنگ پر منتقل ہونا ہوگا۔ اس کے لیے جامع تربیتی پروگرام، ڈیجیٹل ایف آئی آر اور عدالتی تعامل کی ٹریننگ، اور جدید تفتیشی مہارتوں کی فراہمی ضروری ہے۔

سید علی شاہ زور دیتے ہیں کہ محض کاغذ پر انضمام کافی نہیں، عملی تربیت اور مسلسل ایکسپوزر دینا ہوگا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ لیویز کے پاس پہلے ایف آئی آر درج کرنے، ثبوت محفوظ کرنے اور عدالتی کارروائی کے طریقہ کار کی تربیت محدود تھی۔ پولیس میں شمولیت کے بعد کرائم برانچ اور لیگل برانچ کو فوراً فعال کر کے تفتیشی معیار بلند کرنا ہوگا تاکہ مقدمات عدالت میں مضبوط ہوں اور مجرمان کو سزا دلانے کا نظام فعّال ہو۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کا منصوبہ ناکام، لیویز فورس نے اسلحہ و گولہ بارود کی کھیپ پکڑی لی

بلوچستان کی جغرافیائی اور سماجی ساخت خیبرپختونخوا یا دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ سید علی شاہ نے باور کرایا کہ آئی جی اور مرکزی قیادت کو مقامی مہارت، قبائلی رواج، زبان اور ثقافتی معاملات کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملیاں ترتیب دینی چاہئیں، بصورتِ دیگر آپریشنل ناکامی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔

لیویز فورس 2010 کے ایک قانون کے تحت کام کر رہی ہے۔ اسے پولیس میں ضم کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کی منظوری اور اسمبلی سے قانون سازی ضروری ہوگی۔ اس عمل میں حکومت کو اپوزیشن اور بعض حکومتی اراکین کی مخالفت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ 2003 میں پرویز مشرف کے دور میں بھی لیویز فورس کو پولیس میں شامل کیا گیا تھا لیکن 2010 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اسے دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔

صوبے میں امن و امان کا نظام دو حصوں میں تقسیم ہے، ’اے ایریا‘ (شہری علاقوں) میں پولیس ذمہ دار جبکہ ’بی ایریا‘ (دیہی و قبائلی علاقوں) میں لیویز فورس تعینات تھی۔

لیویز فورس کے پاس صوبے کا تقریباً 82 فیصد علاقہ تھا، جبکہ پولیس صرف 18 فیصد حصے میں کام کر رہی تھی۔ لیویز کے اہلکاروں کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اصلاحات بلوچستان پولیس سی ٹی ڈی لیویز فورس وزیراعلی سرفراز بگٹی

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر چالان نہیں انعام ہونا چاہیے: نبیل ظفر
  •   ایف بی آر کو جولائی تا اکتوبر 270 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا
  • وقار یونس نے مجھے نئی گاڑی خریدنے اور برانڈ کے کپڑے پہننے پر ٹیم سے نکالا، عمر اکمل کا الزام
  • ڈی جی این سی سی آئی اے نے ضبط تمام جائیدادوں،گاڑیوں کی تفصیلات مانگ لیں
  • کراچی میں ٹریفک چالان سے بچنے کیلیے کون سی گاڑی کِس رفتار پر چلانی چاہیے؟
  • بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟
  • حکومت پنجاب نے وزیر اعظم کے پروٹوکول کیلئے گاڑیاں فراہم کر دیں
  • ’جب بلیو ہونڈا سوک کی جگہ بندوق تھامے شخص آگیا‘