’امریکی صدر ٹرمپ انتقال کرگئے’ دعوے اور تصاویر وائرل ہونے لگیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صحت کے بارے میں سوشل میڈیا پر جھوٹے دعوے اور گمراہ کن تصاویر تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ بعض صارفین نے تو یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ ٹرمپ کا انتقال ہوگیا، حالانکہ ٹرمپ نے خود ایک پریس کانفرنس میں ان خبروں کو ’جعلی‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ بالکل صحت مند ہیں۔
افواہیں کیسے شروع ہوئیں؟ٹرمپ کی گزشتہ ہفتے سرکاری تقریبات اور میڈیا بریفنگز سے غیر موجودگی کے بعد سوشل میڈیا پر چہ مگوئیاں بڑھ گئیں۔
صرف جمعہ سے اب تک “Trump dead” کے ہیش ٹیگ کے تحت تقریباً 1 لاکھ 4 ہزار پوسٹس کی گئیں جنہیں 3 کروڑ 53 لاکھ ویوز ملے۔
جھوٹی اور گمراہ کن شواہدوالٹر ریڈ میڈیکل سینٹر کے قریب سڑکوں کی بندش کی جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں تاکہ یہ ظاہر ہو سکے کہ ٹرمپ زیرِ علاج ہیں، حالانکہ کوئی سڑک بند نہیں ہوئی تھی۔
وائٹ ہاؤس کے باہر ایمبولینس کی تصویر شیئر کی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ یہ ٹرمپ کی طبی ایمرجنسی کے وقت لی گئی ہے، لیکن حقیقت میں یہ اپریل 2023 کی پرانی تصویر تھی جب جو بائیڈن صدر تھے۔
کچھ صارفین نے وائٹ ہاؤس پر آدھے جھکے پرچم کی تصویر شیئر کر کے کہا کہ یہ ٹرمپ کی موت کی علامت ہے، لیکن اصل میں پرچم منیپولس اسکول شوٹنگ کے متاثرین کی یاد میں جھکائے گئے تھے۔
ایک ڈیجیٹل طور پر ایڈیٹ کی گئی تصویر میں ٹرمپ کی آنکھ کے اوپر ایک گہری لکیر دکھائی گئی تاکہ اسے فالج کی علامت قرار دیا جائے، لیکن اصل تصویر میں ایسا کچھ نہیں تھا۔
ٹرمپ کا ردعملٹرمپ نے ویک اینڈ پر اپنی سوشل میڈیا ایپ ٹروتھ سوشل پر کہا: ’میں اپنی زندگی میں کبھی اتنا بہتر محسوس نہیں کیا۔‘
بعد ازاں پریس کانفرنس میں بھی انہوں نے صحت کی افواہوں کو ’فیک نیوز‘ قرار دے کر مسترد کیا۔
پریس کانفرنس کے فوراً بعد ہی ایک Bluesky اکاؤنٹ نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ ’وائٹ ہاؤس نے ابھی اعلان کیا ہے کہ صدر انتقال کر گئے ہیں‘۔
یہ مہم زیادہ تر لبرل اینٹی-ٹرمپ اکاؤنٹس سے چلائی گئی اور انسٹاگرام و ایکس (X) جیسے پلیٹ فارمز پر پھیلی۔
واضح رہے کہ ٹرمپ امریکی تاریخ کے سب سے معمر صدر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے بائیڈن پر الزام لگایا تھا کہ ڈیموکریٹس ان کی دماغی اور جسمانی کمزوری کو چھپا رہے ہیں۔
بائیڈن، جو 82 برس کے تھے جب انہوں نے جنوری میں صدارت چھوڑی، 2024 کے انتخابات میں کمزور ڈیبیٹ پرفارمنس کے بعد دوسری مدت کے لیے اپنی مہم واپس لینے پر مجبور ہوئے۔
یہ معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ دور میں انٹرنیٹ پر غلط معلومات کس تیزی سے پھیلتی ہیں، اور کس طرح عوامی اعتماد کے بحران اور میڈیا سے بدگمانی نے افواہوں کو مزید طاقت بخشی ہے۔ امریکی صدور کی صحت ہمیشہ زیرِ بحث رہی ہے، لیکن ٹرمپ اور بائیڈن جیسے معمر رہنماؤں کے بعد یہ معاملہ اب مزید حساس ہو چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
قطر پر حملے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا، امریکی میڈیا
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے منگل کی صبح حملے سے پہلے ٹرمپ سے بات کی تھی، اسرائیلی حکام کے مطابق حملے سے پہلے امریکا کو مطلع کر دیا گیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ قطر پر حملے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے منگل کی صبح حملے سے پہلے ٹرمپ سے بات کی تھی، اسرائیلی حکام کے مطابق حملے سے پہلے امریکا کو مطلع کر دیا گیا تھا۔ خبر ایجنسی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں تھے، تب امریکا کو بتایا گیا تھا، صدر ٹرمپ کو حملے کی مخالفت کا موقع نہیں ملا تھا۔ خیال رہے کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر فضائی حملے کیے، صہیونی فوج کا ہدف فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کی مرکزی قیادت تھی۔ اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ دوحہ میں حماس کے مذاکراتی رہنماؤں کو دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ تل ابیب سے جاری کیے گئے بیان میں اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا تھا کہ دوحہ میں دھماکے کے ذریعے حماس کے سینیئر رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
حماس کے ذرائع کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے کے وقت حماس کے متعدد رہنماؤں کا اجلاس جاری تھا، اجلاس میں حماس رہنماء غزہ جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر غور کر رہے تھے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی بمباری کے دوران اجلاس میں حماس کے 5 سینیئر رہنماء خالد مشعل، خلیل الحیہ، زاہر جبارین، محمد درویش اور ابو مرزوق موجود تھے، اجلاس کی صدارت سینیئر رہنما ڈاکٹر خلیل الحیہ کر رہے تھے۔ ایک اسرائیلی عہدے دار کا کہنا تھا کہ دوحہ میں حماس رہنماؤں پر حملے سے پہلے امریکا کو اطلاع دی گئی تھی، امریکا نے حماس رہنماؤں پر حملے میں مدد فراہم کی ہے۔ اسرائیلی وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ قطر میں موجود حماس رہنماؤں پر حملہ انتہائی درست اور بہترین فیصلہ تھا۔