ای-کامرس کے لیے نیا ٹیکس نظام متعارف، ہر ڈیجیٹل ٹرانزیکشن پر ٹیکس لازمی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
وفاقی بورڈ آف ریونیو نے اعلان کیا ہے کہ یکم جولائی 2025 سے آن لائن مارکیٹ پلیسز اور کوریئر سروسز کسی بھی غیر رجسٹرڈ سیلر کو اپنی خدمات فراہم نہیں کر سکیں گی۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری نئے انکم ٹیکس سرکلر میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہر سیلر کے لیے انکم ٹیکس میں رجسٹریشن لازمی ہوگی۔
اس کے ساتھ ہی آن لائن مارکیٹ پلیس اور کوریئر سروسز پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ صرف رجسٹرڈ سیلرز کو اپنی سہولیات فراہم کریں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان میں چینی ای کامرس پلیٹ فارم ٹیمو پر پابندی لگے گی؟
مزید برآں، آن لائن مارکیٹ پلیسز پر لازم ہوگا کہ وہ اپنے پلیٹ فارم استعمال کرنے والے وینڈرز کی تفصیلات ایف بی آر کو جمع کرائیں۔
ایف بی آر کے مطابق پاکستان کی ریٹیل مارکیٹ میں بدلتے رجحانات اور بڑی تعداد میں غیر رجسٹرڈ آن لائن سیلرز کے موجود ہونے کی وجہ سے یہ نیا فریم ورک تیار کیا گیا ہے۔
جس کے تحت سیلرز کو نیشنل ٹیکس نمبر فراہم کیا جائے گا اور ہر ڈیجیٹل ٹرانزیکشن پر ٹیکس وصولی کو یقینی بنایا جائے گا۔
مزید پڑھیں: آن لائن خرید و فروخت پاکستانی معیشت کے لیے کس طرح کار آمد ہو سکتی ہے؟
ای کامرس پر ٹیکس کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس میں نیا سیکشن 6A شامل کیا گیا ہے، جس کے مطابق آن لائن پلیٹ فارم یا ویب سائٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی ہر ادائیگی پر ٹیکس لاگو ہوگا۔
اس مقصد کے لیے سیکشن 153(2A) میں تبدیلی کی گئی ہے، جس کے تحت بینک، مالیاتی ادارے، ایکسچینج ڈیلرز، پیمنٹ گیٹ ویز اور کیش آن ڈلیوری میں شامل کوریئرز کو ودہولڈنگ ٹیکس جمع کرانے کا پابند بنایا گیا ہے۔
آن لائن ادائیگیوں پر 1 فیصد اور کیش آن ڈیلیوری پر 2 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: وائس آف کسٹمرز۔۔۔ “کوالٹی اور رنگ ملاحظہ فرمائیں”۔
ایف بی آر نے واضح کیا ہے کہ ڈیجیٹل ادائیگیوں پر کم شرح ٹیکس رکھنے کا مقصد ملک کو کیش لیس اکانومی کی جانب منتقل کرنا ہے۔
اس اسکیم کے تحت وصول کیا گیا ٹیکس سیلرز کی ای کامرس آمدنی، مقامی اور برآمدات دونوں، پر فائنل ٹیکس تصور ہوگا۔ البتہ سیکشن 154 اور 154A کے تحت کی جانے والی کٹوتیاں اس دائرے میں شامل نہیں ہوں گی۔
مزید یہ کہ پیمنٹ انٹرمیڈیری اور کوریئرز پر لازم ہے کہ وہ ہر سیلر کے نام پر ٹیکس وصول کریں، اسے ماہانہ بنیاد پر خزانے میں جمع کرائیں اور مقررہ ودہولڈنگ اسٹیٹمنٹس بھی جمع کروائیں۔ عدم تعمیل کی صورت میں آن لائن مارکیٹ پلیسز اور کوریئر کمپنیوں پر جرمانے عائد کیے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: آن لائن لوکل برانڈز خواتین میں کیوں مشہور ہو رہے ہیں؟
ایف بی آر نے وضاحت کی ہے کہ آن لائن ادائیگی کی صورت میں متعلقہ بینک کو ٹیکس وصولی کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔
کیش آن ڈلیوری پر ادائیگی کی صورت میں کوریئر سروس ٹیکس جمع کرانے اور دیگر قانونی ذمہ داریوں کی پابند ہوگی۔
اگر سامان آن لائن مارکیٹ پلیس کے ذریعے بیچا جائے اور ادائیگی آن لائن ہو تو اس صورت میں آن لائن مارکیٹ پلیسز کا بینک یا مالیاتی ادارہ ٹیکس وصول کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آن لائن مارکیٹ پلیس انکم ٹیکس ای کامرس ایف بی آر بورڈ آف ریونیو ٹیکس ریٹیل مارکیٹ کوریئر سروسز کیش آن ڈیلیوری کیش لیس اکانومی ودہولڈنگ ودہولڈنگ ٹیکس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انکم ٹیکس ای کامرس ایف بی ا ر بورڈ آف ریونیو ٹیکس کوریئر سروسز کیش آن ڈیلیوری کیش لیس اکانومی ودہولڈنگ ودہولڈنگ ٹیکس اور کوریئر ٹیکس وصول انکم ٹیکس ایف بی آر پر ٹیکس گیا ہے کے تحت کیش آن کے لیے
پڑھیں:
پنجاب میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کیلیے سخت فیصلہ، سیپٹک ٹینک بنانا لازمی قرار
لاہور:ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب نے ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے ایک نیا اور سخت فیصلہ کیا ہے، اب ہر گھر اور پلازہ میں سیپٹک ٹینک بنانا لازمی ہوگا۔
اس فیصلے کا مقصد زیرِ زمین پانی اور آبی ذخائر کو گندے پانی سے بچانا ہے کیونکہ بغیر علاج کے چھوڑا جانے والا سیوریج پانی آلودگی پھیلا رہا ہے اور اس سے پانی کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
ڈی جی ماحولیات عمران حامد شیخ کے مطابق ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ’’ڈوئل واٹر مینجمنٹ‘‘ اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر گھر کے ساتھ تین خانوں والا سیپٹک ٹینک بنایا جائے گا اور سوسائٹی کی سطح پر بھی ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جائے گا۔
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تین خانوں والے سیپٹک ٹینک پانی میں موجود تقریباً 70 فیصد گندے ذرات اور 40 فیصد آلودگی کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
محکمہ نے گھروں اور پلازوں کے لیے سیپٹک ٹینک کے سائز بھی طے کر دیے ہیں۔ پانچ مرلہ گھر کے لیے 6 فٹ لمبا، 4 فٹ چوڑا اور 4 فٹ اونچا ٹینک ہوگا۔ دس مرلہ گھر کے لیے 9 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 4 فٹ اونچا، ایک کنال کے پلازے کے لیے 10 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 5 فٹ اونچا، تین سے چار کنال کے پلازوں کے لیے 15 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 5 فٹ اونچا جبکہ چار کنال سے زیادہ بڑے پلازوں کے لیے 16 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 5 فٹ اونچا ٹینک لازمی ہوگا۔
ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ اب نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ماحولیاتی منظوری صرف اسی صورت میں ملے گی جب وہ سیپٹک ٹینک کی شرط پوری کریں گی۔ اس بارے میں ایل ڈی اے، ایف ڈی اے، جی ڈی اے، آر ڈی اے سمیت تمام اداروں کو ہدایت نامے جاری کر دیے گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنرز کو بھی کہا گیا ہے کہ زمین کی تقسیم کے وقت اس فیصلے پر سختی سے عمل کرایا جائے۔
مزید یہ کہ جوڈیشل واٹر اینڈ انوائرمنٹ کمیشن اور دیگر اداروں کو بھی اس بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ای پی اے کے فیلڈ افسران کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سیپٹک ٹینک کی تنصیب پر کڑی نظر رکھیں تاکہ زیرِ زمین پانی اور ماحول کو گندے پانی سے محفوظ بنایا جا سکے۔
ادارہ تحفظ ماحولیات لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹرعلی اعجاز نے بتایا کہ سیپٹک ٹینک دراصل ایک زیرِ زمین ٹینک ہوتا ہے جو کنکریٹ یا اینٹوں سے بنایا جاتا ہے اور گھروں یا عمارتوں سے آنے والے گندے پانی کو جمع کرکے اس میں موجود گندگی اور آلودگی کو جزوی طور پر صاف کرتا ہے۔ یہ عام طور پر دو یا تین خانوں پر مشتمل ہوتا ہے تاکہ پانی مرحلہ وار صاف ہو سکے۔
انہوں نے کہا اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب بیت الخلا یا کچن کا پانی سیپٹک ٹینک میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے بھاری ذرات نیچے بیٹھ جاتے ہیں، چکنائی اور جھاگ اوپر جمع ہو جاتے ہیں جبکہ درمیان کا پانی نسبتاً صاف شکل میں اگلے خانے میں چلا جاتا ہے۔ تین خانوں والے سیپٹک ٹینک میں یہ عمل اور بھی بہتر انداز میں ہوتا ہے اور یوں تقریباً 70 فیصد گندے ذرات اور 40 فیصد آلودگی کم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ یا زمین میں جذب ہونے کے قابل ہوتا ہے، مگر اسے مکمل طور پر پینے کے قابل نہیں کہا جا سکتا۔
علی اعجاز نے مزید بتایا کہ سیپٹک ٹینک گندے پانی کو براہِ راست زمین میں جانے سے روکتا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہو تو گندا پانی زیرِ زمین پانی کو آلودہ کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس جیسی خطرناک بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ اس لیے سیپٹک ٹینک کو گھروں اور عمارتوں کے ساتھ لازمی قرار دینا ماحول اور انسانی صحت دونوں کے تحفظ کے لیے ایک ضروری قدم سمجھا جاتا ہے۔