ریکارڈ توڑ گرمی نے برطانیہ، جاپان اور جنوبی کوریا کو لپیٹ میں لے لیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
رواں سال برطانیہ، جاپان اور جنوبی کوریا میں تاریخ کی سب سے شدید گرمی ریکارڈ کی گئی، جس نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
برطانیہ میں جون تا اگست اوسط درجہ حرارت 16.1 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا، جو 1884 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اس دوران چار ہیٹ ویوز آئیں اور کئی علاقوں میں قحط کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ گھروں اور پبلک مقامات پر ایئر کنڈیشنر نہ ہونے کے باعث عوام کے لیے گرمی برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔
جاپان میں بھی اوسط درجہ حرارت معمول سے 2.
جنوبی کوریا میں اوسط درجہ حرارت 25.7 ڈگری تک پہنچ گیا، جو 1973 سے اب تک کا سب سے زیادہ ہے۔ مشرقی شہر گانگ نینگ میں خشک سالی کے باعث پانی کی شدید کمی ہوگئی اور حکومت نے قومی آفت کا اعلان کرتے ہوئے گھروں میں پانی کی پابندیاں لگا دیں۔
ماہرین کے مطابق یہ ریکارڈ توڑ گرمی انسانی سرگرمیوں سے ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت کا نتیجہ ہے، اور آنے والے برسوں میں مزید شدید ہیٹ ویوز کا خدشہ ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ٹرمپ،جنوبی کوریا کو اپنی پہلی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز بنانے کی اجازت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات فوری طور پر دوبارہ شروع کرے گا تاکہ وہ دیگر جوہری طاقتوں کے ساتھ برابر کی بنیاد پر کھڑا رہ سکے۔ یہ اعلان انہوں نے جنوبی کوریا کے شہر بوسان سے اپنے ایشیائی دورے کے اختتام پر وطن واپسی سے قبل کیا۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر لکھا کہ محکمہ دفاع کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ دیگر ممالک کی طرح فوری شروع کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکا کے پاس موجودہ وقت میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، لیکن چین اگلے پانچ سالوں میں امریکا کے قریب پہنچ سکتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ جنوبی کوریا کو اپنی پہلی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز بنانے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ نئی آبدوز امریکا کے فلاڈیلفیا میں جنوبی کورین کمپنی Hanwha کے شپ یارڈ میں تیار کی جائے گی اور یہ زیادہ جدید، تیز اور پائیدار ہوگی۔ اس اقدام کے بعد جنوبی کوریا بھی ان چند ممالک میں شامل ہو جائے گا جو جوہری آبدوزوں کے مالک ہیں، جن میں امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور بھارت شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ کے فیصلے سے قبل جنوبی کوریا نے امریکا سے درخواست کی تھی کہ جوہری معاہدے میں نرمی کی جائے تاکہ یورینیم کی افزودگی اور ایندھن کی ری پروسیسنگ میں زیادہ خود مختاری حاصل کی جا سکے۔
اب تک امریکا نے ایٹمی دھماکوں کا آخری تجربہ 1992 میں کیا تھا۔ اس کے بعد 1996 میں جامع ایٹمی تجربہ بندی معاہدہ (CTBT) پر دستخط ہوئے، اور صرف چند ممالک بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا نے بعد میں جوہری دھماکے کیے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق امریکا کے پاس تقریباً 5,550 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 3,800 فعال ہیں، جبکہ روس کے پاس 5,459 اور چین کا ذخیرہ 600 کے قریب ہے اور 2030 تک 1,000 سے تجاوز کر سکتا ہے۔